رمضان اور انسانیت


رمضان المبارک میں آسمان سے برکتیں اترتی ہیں ہر سو رحمتوں کا بسیرا امت مسلمہ کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔

اس رمضان بھی ہر سال کی طرح پروردگار نے ہم مسلمانوں کی بخشش کے لیے سارے دروازے کھول رکھے ہیں مگر شاید ہم مسلمانوں کی نیتیں اور اعمال صرف اسی دنیا تک کی سوچ کے لئے محدود ہو گئی ہیں۔ اس ماہ مبارک میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کے تمام مخلوق خدا کا احترام سامنے رکھتے ہوئے ایک دوسرے میں خوشیاں اور نعمتیں بانٹی جائے تاکہ تمام تر انسان ایک دوسرے کو انسانیت کے ترازو میں برابر تولے جا سکیں اور انسانوں سے کی گئی بھلائی کا ثواب بھی اپنی جھولی میں سمیٹ سکیں مگر شاید ہم مسلمانوں نے اپنے معاملات صرف خدا تک محدود سمجھے ہوئے ہیں۔

ہم یہ بھول گئے ہیں کہ انسانوں سے کیے گئے معاملات پروردگار تب تک نہیں بخشے گا جب تک انسان خود نہ بخشے اکثر اپنے بڑوں سے کہتے سنا تھا کہ آخری زمانے کے لوک افراتفری کا شکار ہوں گے آج ہم اسی دور کو محسوس کر رہے ہیں۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ہر شخص اپنا سیدھا تعلق صرف اللہ سے سمجھ کر اس کی مخلوق صحت دیانتی منافع خوری اور ہیرا پھیری کے چکروں میں دنیاوی معاملات کو دینی معاملات سے الگ کیے ہوئے ہیں۔ ہر شخص یہ بھول گیا کہ ان اعمال کا بدلہ ثواب اور گناہ کے پلڑے میں تولا جائے گا۔

رمضان سے پہلے ہی پھلوں کے نرخ آسمان کو چھو رہے تھے اور اس بابرکت مہینے میں جس سے جتنا ہو سکا اس نے منافع کی طلب کی سب سے زیادہ منافع ان فصلوں اور سبزیوں کی ریڈیو والوں نے کمایا اس بات سے بالاتر کے یہ ماہ رمضان ثواب کمانے کا مہینہ ہے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں پوری دنیا میں رمضان المبارک پر ایسے ایسے ڈسکاؤنٹ آفرز لگتے ہیں کہ ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ایسے کیوں جبکہ ہمیں بحیثیت مسلمان اس مہینے کی ساعتیں سمیٹنے کے لیے سب سے آگے ہونا چاہیے ہم الٹا ہم منافع خوری کا بازار گرم کر دیتے ہیں۔

ملک میں آٹے کی قلت اور اسے آٹا حاصل کرنے کے لئے لمبی قطاروں میں کھڑے لوگوں کی آس امید یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھر آٹا پہنچائی جس کشمکش میں بہت سے لوگوں کی جانیں چلی گئی۔ آنکھوں میں آنسو لیے لمبی قطاروں میں لگے مستحق لوگ اپنی جانوں پر کھیل کر آٹا حاصل کرنے پر مجبور ہیں اور جب آٹا مل بھی جاتا ہے ہیں تو آٹے کی کوالٹی اس قدر ناقص چوکر آٹا عوام میں مفت بانٹا جا رہا ہیں، اگر حکومت سبسڈی دیتی بھی ہے تو یہ بھی عوام کے ٹیکس کے پیسے ہوتے ہیں، کم از کم آٹے کے کوالٹی کو تو بہتر بنایا جائے تاکہ انسان اسے کھا سکیں جانوروں کے چارے اس سے بہتر ہوتا ہے۔ حکومت اس چیز کا بغور معائنہ کرے انسانی صحت سے بڑھ کر کچھ نہیں خیر ہمارے حکمران بھی ہمارے اعمال کا ہی نتیجہ ہیں۔

حدیث قدسی ہے جس کا ترجمہ ہے کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ : میں اللہ ہوں میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، میں بادشاہ ہوں کا مالک ہوں بلکہ بادشاہوں کا بادشاہ ہوں، بادشاہوں کے دل میرے قبضہ میں ہیں جب بندے میری فرماں برداری کرتے ہیں تو میں ان کے بادشاہوں کے دلوں کو ان کی طرف رحمت و شفقت کرنے کے لیے پھیر دیتا ہوں اور میرے بندے جب میری نافرمانی پر اتر جاتے ہیں تو میں ان کی طرف بادشاہوں کے دلوں کو غصہ اور انتقام کے لیے متوجہ کر دیتا ہوں، پس وہ ان کو سخت عذاب اور تکالیف میں مبتلا کر دیتے ہیں اس لیے خود کو بادشاہوں پر بددعا میں مشغول نہ کرو بلکہ خود کو ذکر، عجز تضرع میں مشغول رکھو تاکہ میں تمھارے بادشاہوں کے مظالم سے تم کو محفوظ رکھوں

ہم مسلمان اس بابرکت مہینے میں ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گزشتہ دو برسوں سے پاکستان اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے۔

گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جزو ہے اور ہر پاکستانی اوسطاً 124 کلو گرام گندم سالانہ کھا لیتا ہے۔

پاکستان میں ایک بار پھر گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ رجحان ہر سال ماہ رمضان میں زیادہ کیوں ہو جاتا ہے۔ ملک بھر میں آٹے کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی ہیں اور اس سے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس موسم میں کئی علاقوں میں صورتحال یہ ہے کہ اگر گھر کی گیس کا پریشر کم ہو تو پھر تندور کا رخ کرنا پڑتا ہے جبکہ تندور سے ایک روٹی 25 روپے سے کم کی نہیں مل رہی ہے۔

ملک کے مختلف صوبوں میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت بھی یکساں نہیں ہے

پاکستان کو اس سال ایسے وقت میں گندم درآمد کرنا پڑھ رہی ہے جبکہ دنیا میں گندم کی قیمتیں بلند ترین سطح پر ہیں۔ اس وقت ایک ٹن گندم کی قیمت عالمی منڈی میں 425 ڈالر تک ہے اور اس میں ترسیل کے اخراجات شامل کرنے سے اس کی پاکستان میں درآمدی قیمت 450 ڈالر فی ٹن تک پڑے گی۔

پاکستان میں حکومت کی جانب سے گندم کی امدادی قیمت 2200 روپے فی من مقرر کی گئی تھی تاہم درآمدی گندم پاکستان کو 3000 روپے فی من سے زائد میں پڑے گی۔

پاکستان میں اس وقت روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے جا رہا ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 190 روپے کی حد بھی عبور کر چکی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے پاس اس وقت ڈالرز کی شدید کمی ہے جو کہ درآمدات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے درکار غیر ملکی کرنسی ہے۔ مانا کے پوری دنیا میں بڑا سخت دور جا رہا ہے۔ مگر میرے ملک میں رمضان ہے۔ رمضان کے مہینے میں ویسے تو شیطان بن کر دیا جاتا ہے مگر ہم مسلمانوں کے اندر کا شیطان جو ہر رمضان کے شروع ہوتے ہی کاروباری انداز سے روزہ داروں کو تنگ کرنے کے لیے باہر نکل آتا ہے۔

اس برکتوں والے مہینے میں مہنگائی کو ختم کر کے صرف ایک مہینہ منافع سے ہٹ کر دین کا کاروبار کیا جائے تو ہم مسلمانوں پر سے یہ عذاب جو مختلف طرح سے ہمیں گھیرے ہوئے ہیں شاید کم ہو جائے اس ماہ مبارک میں اپنی حیثیت کے مطابق ان لوگوں کی مدد کی جائے جو اپنے گھروں میں وہ نعمتیں نہیں لے کے جا سکتے جس کا رمضان میں ہر شخص کے لئے عام ہونا ضروری ہے۔ سفید پوش انسان اس دور میں بڑی مشکلوں سے اپنے گھر کی روٹی پوری کرتا ہے۔

اور ہم اپنے چینلز پر سحری اور افطاری کے دوران جو کچھ دکھاتے ہیں کیا ہم کسی غریب کو وہ مہیا کر سکتے ہیں اور اگر نہیں تو شاید ہمیں یہ ٹرانسلیشن بند کر دینی چاہیے۔ کیونکہ ہر شخص کا دل چاہتا ہے کہ اس کے بچوں کے لئے اس کا دسترخوان ایسے ہی خوش ادا ہو۔ آئیے مل کر یہ عہد کریں کہ ہم جس بھی محکمے سے تعلق رکھتے ہیں رمضان میں ہم جتنا ہو سکے دوسروں کو سہولت دیں گے تاکہ اس مہینے کی تمام تر برکات سمیٹنے ہم اپنا اگلا پورے سال کے لیے رحمتیں کما لیں پورا سال ہم پرافٹ کماتے ہیں اگر ایک مہینہ ہم اپنے پروردگار کی خاطر دوسروں کے لئے آسانی پیدا کر دیں تو شاید وہ بھی آٹے اور ضروریات زندگی کے لیے اپنے گھروں میں واپس آتی نا امید لاشیں نہ دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments