جناب چیف جسٹس! عدلیہ نہیں عوام صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں


پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملہ پر غور کرنے والے بنچ سے دو ارکان علیحدہ ہو گئے ہیں جس کے بعد چیف جسٹس سمیت باقی ماندہ دو ججوں پر مشتمل تین رکنی بنچ نے مقدمہ کی سماعت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے آج اس بنیاد پر خود کو بنچ سے علیحدہ کر لیا کہ بنچ کی تشکیل نو کے حکم میں ان سے مشاورت ہی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ میں اس بنچ میں ’مس فٹ‘ ہوں۔ چیف جسٹس نے کھلی عدالت میں جسٹس مندوخیل کو اپنی بات مکمل کرنے سے روک دیا اور بعد میں تین ججوں نے سماعت جاری رکھی۔

چیف جسٹس نے ایک بار پھر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا کی طرف سے فل کورٹ بنچ بنانے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کارروائی جاری رکھنے پر اصرار کیا۔ واضح رہے کہ اس وقت تین رکنی بنچ میں جو فاضل جج حضرات شامل ہیں، انہیں چیف جسٹس کا ہم خیال سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود چیف جسٹس کا دعویٰ تھا کہ یہ بنچ ایسا فیصلہ دے گا جس میں سب کے نقطہ نظر کا خیال رکھا جائے گا اور یہ ایک غیر جانبدارانہ فیصلہ ہو گا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے میڈیا پر خود ساختہ خبریں پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے بار بار دعویٰ کیا کہ عدالت انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں آئین اور انصاف کے نام پر جو تماشا سامنے آیا ہے، اس میں ججوں کی بجائے عوام صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔

دو روز پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک سہ رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت سے اس وقت تک سوموٹو نوٹس کے تحت معاملات پر غور معطل کرنے کا حکم دیا تھا جب تک سوموٹو اختیار کے تحت نوٹس لینے کا معاملہ طے نہیں کیا جاتا۔ اس سہ رکنی بنچ کے حکم میں چیف جسٹس کی طرف سے سپیشل بنچ بنانے کے اختیار کو غلط قرار دیا گیا تھا۔ اس حکم کے بعد گزشتہ روز پنجاب میں انتخابات کے بارے میں تحریک انصاف کی اپیل پر غور کرنے والے پانچ رکنی بنچ میں شامل جسٹس امین الدین خان نے یہ کہتے ہوئے خود کو کارروائی سے الگ کر لیا تھا کہ وہ سوموٹو اختیار کے بارے میں حکم دینے والے دو ججوں میں شامل تھے۔ موجودہ کیس اسی بنیاد پر شروع کیے گئے ایک معاملہ پر دائر کی گئی پٹیشن پر غور کر رہا ہے، اس لیے اگر اس کارروائی کو روکا نہیں جاتا تو وہ اس بنچ کا حصہ نہیں رہ سکتے۔ جسٹس امین الدین کی علیحدگی کے بعد پانچ رکنی بنچ ٹوٹ گیا لیکن اس کے بعد چیف جسٹس نے باقی چار ججوں پر مشتمل بنچ کے ذریعے مقدمہ کی سماعت جاری رکھنے کا حکم دیا۔

آج کارروائی شروع ہوئی تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس مندوخیل کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’میں بنچ کا رکن تھا لیکن تحریری فیصلہ تحریر کرتے وقت مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ میں بینچ میں مس فٹ ہوں‘ ۔ انہوں نے کہا کہ دعا ہے کہ اس کیس میں جو بھی بنچ ہو، ایسا فیصلہ آئے جو سب کو قبول ہو۔ اللہ ہمارے ادارے پر رحم کرے۔ ’میں کل بھی کچھ کہنا چاہ رہا تھا، شاید فیصلہ لکھواتے وقت میرے مشورے کی ضرورت نہیں تھی یا مجھے مشورے کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ اللہ ہمارے ملک کے لیے خیر کرے‘ ۔ ابھی جسٹس مندوخیل بات کر ہی رہے تھے کہ چیف جسٹس نے انہیں ٹوک دیا اور سماعت برخاست کرتے ہوئے کہا کہ ’بہت بہت شکریہ۔ بنچ کی تشکیل کا جو بھی فیصلہ ہو گا کچھ دیر بعد عدالت میں بتا دیا جائے گا‘ ۔ بعد میں دن کے دو بجے باقی ماندہ تین ججوں پر مشتمل بنچ نے سماعت کا آغاز کیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس ریمارکس دیتے ہوئے جذباتی بھی ہو گئے اور اس بات پر اصرار کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان بھائی چارہ ہے اور ان کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ اختلافی معاملات کو آپس میں طے کر لیا جائے گا۔ انہوں نے میڈیا پر الزام لگاتے ہوئے وضاحت کی کہ ’ججز کے درمیان باہمی اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اور بعد میں بھی۔ کچھ سیاسی معاملات سامنے آئے جن پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تڑکا لگایا گیا۔ عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کر رہے ہیں کچھ دوسرے ججز پر۔ ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے‘ ۔

چیف جسٹس نے پنجاب خیبر پختون خوا میں انتخابات کے معاملہ پر سو موٹو لینے اور یکم مارچ کے حکم کے بارے میں بھی وضاحت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ دو ججوں نے خود کو بنچ سے علیحدہ کر لیا تھا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ 27 فروری کا حکم پڑھیں، اس میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے فل کورٹ نہ بنانے کے لیے ججوں کی مصروفیات اور عدم دستیابی کا ذکر کیا اور واضح کیا کہ 9 رکنی بنچ بناتے وقت سوچا تھا کہ سینئر سے نئے تک تمام ججز کی نمائندگی ہو۔ میں نے جسٹس اطہر من للہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجازالاحسن آئین کے ماہر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ جسٹس مظاہر کو 9 رکنی بینچ میں کیوں لیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ’جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا کسی کو خاموش پیغام دینا تھا‘ ۔

واضح رہے جسٹس مظاہر نقوی کی جانبداری کے بارے میں اعتراضات سامنے آئے ہیں اور ان کے خلاف ریفرنس چیف جوڈیشل کونسل میں زیر غور ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن کو بنچ میں شامل کرنے کی مخالفت کی تھی۔ جس کے بعد ان دونوں نے خود کو 9 رکنی بنچ سے علیحدہ کر لیا تھا لیکن آج چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ یہ تاثر غلط تھا۔ البتہ اب یہ غیر واضح ہے کہ پھر یکم مارچ کو حکم دینے والے بنچ میں یہ دونوں جج کیوں شامل نہیں تھے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے سوموٹو کے خلاف نوٹ لکھ کر بنچ کی کارروائی میں شامل ہونے سے انکار کیا تھا لیکن جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل بدستور بنچ کا حصہ تھے۔ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں یکم مارچ کے حکم کو چار تین کی اکثریت سے مسترد قرار دیا تھا۔

البتہ چیف جسٹس کے اس موقف کے بعد کہ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے خود کو بنچ سے علیحدہ نہیں کیا تھا، اب یہ غیر واضح ہے کہ کیا چیف جسٹس اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے اب 9 رکنی بنچ کو سلامت قرار دے رہے ہیں تاکہ بعد میں سامنے آنے والے اعتراضات کو یہ کہہ کر مسترد کیا جا سکے کہ یک مارچ کا فیصلہ نہ تو تین دو کی اکثریت سے موثر ہوا تھا، نہ چار تین کی اکثریت سے سوموٹو کے تحت کارروائی مسترد ہوئی تھی بلکہ پانچ چار کی اکثریت سے انتخابات کروانے کا حکم دیا گیا تھا۔ موجودہ صورت حال میں یہ پہلو ابھی تشنہ جواب ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آج کی سماعت کے دوران تین ایسی باتیں کہی ہیں جو عدالت عظمی کے کردار کے بارے میں شبہات اور چیف جسٹس کے ارادوں کے بارے میں بے یقینی پیدا کرتی ہیں۔ اول تو انہوں نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو 9 رکنی بنچ میں کسی کو پیغام دینے کے لیے شامل کیا گیا تھا۔ سوال ہے سپریم کورٹ کا فورم قانون و آئین کے مطابق فیصلہ کرنے اور صورت حال واضح کرنے کے لیے کام کرتا ہے یا چیف جسٹس اس فورم کو بعض درپردہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں۔ کیا کسی چیف جسٹس کا ایسا اقدام اپنے عہد کی خلاف ورزی کے مترادف نہیں ہے اور کیا اسے مس کنڈکٹ نہیں سمجھنا چاہیے؟

دوسرے چیف جسٹس نے ایک بار پھر اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اگر حکومت اور اپوزیشن سیاسی مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کر لیں تو ہم چند دن کا وقفہ کر لیں گے بصورت دیگر سپریم کورٹ آئین کے مطابق حکم صادر کرے گی۔ چیف جسٹس کے اس موقف سے یہ غیر واضح ہے کہ سپریم کورٹ کو سیاسی مصالحت کا رول ادا کرنے کا حق آئین کی کون سی شق کے تحت حاصل ہے؟ وہ کس آئینی اختیار کی بنیاد پر پہلے دن سے فریقین کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے اور مصالحت کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے تمام جج منصف کی کرسی پر براجمان ہیں۔ جب بھی کوئی فریق ان کے سامنے داد رسی کے لیے آتا ہے تو انہیں آئین و قانون کے تحت غور کرتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیے۔ ججوں کو یہ حق کیسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ سیاسی معاملات پر غور کرتے ہوئے آئینی و قانونی بنیاد بھلا کر سیاسی پنچایت کا کردار ادا کرنا شروع کر دیں۔ یہ طریقہ کار براہ راست پارلیمنٹ کے کردار میں مداخلت کے مترادف ہے۔

اس معاملہ کا تیسرا پہلو پارلیمنٹ میں منظور ہونے والی اس قرار داد کے بارے میں ہے جس میں سپریم کورٹ سے موجودہ معاملہ کے تمام پہلوؤں کو ججوں کی اجتماعی دانش سے طے کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فل بنچ بنانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اگر ملک کا چیف جسٹس بھی پارلیمنٹ میں اتفاق رائے سے منظور ہونے والی قرار داد کو خاطر میں نہیں لائے گا تو سپریم کورٹ سے پارلیمنٹ کے احترام کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی قیادت میں سپریم کورٹ نے خود کو کسی ایسے منصب پر فائز کر لیا ہے جو پارلیمنٹ سے بھی بالا تر ہے اور سیاسی فریقین میں اختلافات کی موجودہ صورت حال میں وہ محض آئینی حدود میں کام کرنے کی بجائے سیاسی اختیارات پر بھی دسترس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اس حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ کا حکم بھی قابل غور ہے۔ دو ایک سے جاری ہونے والے اس حکم میں سوموٹو کے تحت زیر غور تمام معاملات کو معطل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ حکم کمزور قانونی بنیاد پر دیا گیا ہو اور کوئی لارجر بنچ اسے تبدیل کردے لیکن موجودہ صورت حال میں یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور باقی ماندہ جج حضرات خود بھی سپریم کورٹ کے کسی حکم پر عمل کے پابند ہیں یا اسے محض اس لیے نظر انداز کر سکتے ہیں کہ وہ ایک خاص عہدہ پر فائز ہیں؟ حالانکہ اس عہدہ پر فائز ہونے کی حیثیت میں ججوں کو سب سے پہلے کسی موثر حکم پر عمل کر کے صورت حال کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔

اس کی بجائے چیف جسٹس نے رجسٹرار کے ذریعے ایک سرکلر جاری کیا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین کے حکم کو پانچ رکنی عدالتی حکم کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محض ایک سرکلر کے ذریعے ایک سہ رکنی بنچ کے حکم کو مسترد کر کے من مانی کرتے ہوئے، ایک متنازعہ سوموٹو اقدام پر کارروائی جاری رکھ سکتے ہیں؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آج پاکستان بار کونسل کے نمائندے سے مخاطب ہوتے ہوئے یقین دلایا کہ ’میں آج کچھ ملاقاتیں کروں گا اور سوموار کا سورج اچھی خبر لے کر آئے گا‘ ۔ عین ممکن ہے چیف جسٹس دو روز میں اپنی پٹاری سے کوئی نیا عجوبہ نکال لائیں۔ لیکن جو حالات اس وقت پیش نظر ہیں، ان میں چیف جسٹس کا طرز عمل کسی مثالی منصف کا نہیں ہے۔ صرف میڈیا کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنی غلطیوں کو چھپانا اور کسی کو پیغام دینے کے لیے ایک مشکوک جج کو کسی بنچ کا حصہ بنانے کا اعتراف سنگین معاملات ہیں۔ ایسے میں یا تو جسٹس بندیال اختلافی آوازوں کو اہمیت دیں اور اپنا رویہ تبدیل کریں یا اس عہدہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments