اپریل فول کے بعد پیر کا انتظار


پاکستان میں عدالتیں، افسر شاہی، سیاست، اسٹیبلشمنٹ اور عوام بٹ چکے ہیں۔ حکومت اور اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ لندن میں بیٹھے ہوئے میاں نواز شریف نے 9 ججوں نے 3 جج بچنے کے بعد ان تینوں کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا ہے۔ کہا ہے کہ تین جج اپنا نیا آئین پیش کر رہے ہیں

آج پی ڈی ایم عدالتوں کو خالی کر دیں گی۔ سید خورشید شاہ نے انتباہ دیا ہے کہ حالات درست نہ ہوئے تو ۔ ٹک۔ ٹک کی آوازیں شروع ہوجائیں گی۔ خالی محسوس ہونے والی عدالتوں پر کون موجود ہو گا؟

پاکستان بھر میں گزشتہ ہفتے پیر کے اس روز کا انتظار کیا جا رہا تھا جب چیف الیکشن کمشنر نے خیبرپختونخوا صوبوں میں الیکشن 30 اپریل سے ملتوی کر کے 8 اکتوبر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اور اس انتظاری کیفیات میں یہ کہا گیا تھا کہ اتوار کی چھٹی حائل نہ ہوتی تو چیف جسٹس اس فیصلے کو اڑا کر رکھ دیتے۔ پاکستان تحریک انصاف کا خیال تھا کہ، لہذا ہم سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس فیصلے کے خلاف شکایت لکھیں گے، عرضی ڈالیں گے، پٹیشن داخل کریں گے اور فیصلہ آ جائے گا۔ پیر کے روز کا یہ انتظار ختم ہوا۔ پیر سے لے کر جمعہ تک گراؤنڈ چیف صاحب کے ہاتھ میں نہیں آ رہا تھا۔ منگل، بدھ اور جمعہ اپنی تاریخ رقم کر گئے۔ اب نئے پیر کا انتظار کیا جا ریا ہے۔

ان پانچ دنوں میں مختلف ججز نے اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سوموٹو نوٹس لینے کی فطری طور پر بات نہیں ہونی چاہیے، انہوں نے جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہا ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس اکیلے ہیں اور کوئی بھی اکیلا شخص بڑے فیصلے نہیں کر سکتا۔ اس حوالے سے لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں، ان کے آگے جوابدہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب اچھے فیصلے کریں اور اس سلسلے میں جس کورٹ کو یہ انصاف دینا ہے اگر وہ اندر خود نا انصافی کی مرتکب ہوگی اور اس میں ایک شخص کے پاس بے تحاشا اختیارات ہوں گے تو یہ اچھا نہیں ہے۔

چار دن کی چاندنی کی مانند ہم نے دیکھا ہے کہ، جمعرات 30 مارچ کو جسٹس امین الدین سپریم کورٹ کے بنچ سے الگ ہو گئے اور جس کی وجہ سے چیف جسٹس پاکستان کو سماعت ملتوی کرنا پڑی۔ اگلے روز، جمعہ 31 مارچ 2023 کو جب ساڑھے گیارہ بجے پھر سماعت شروع ہوئی تو ایک جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے لکھے ہوئے اعتراضات کو پیش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کر پیش نہیں کرپائے اور وہ کاغذ اٹارنی جنرل کے ہاتھ تھما دیا، جنہوں نے اس کو عدالت کے اندر پڑھا۔

درمیان میں ہفتہ کا دن آ گیا، اگر یکم اپریل کو عدالت کھلی ہوتی تو کسی بھی حوالے سے ”اپریل فول“ کا منظر ہمارے سامنے ہوتا۔ لیکن عدالتوں کے بجائے حزب اقتدار نے سپریم کورٹ کے لئے اپریل فول کا سماں باندھ لیا اور اعلان کیا کہ 9 ججوں میں سے 3 ججوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ اس طرح سپریم کورٹ میں بیٹھے ہوئے باقی تین ججز پر عدم اعتماد کا اظہار کیا۔ حاصل مطلب یہ ہوا کہ 6 ججوں نے عدالت پر اور سیاست نے باقی 3 ججوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔

پیر کے روز اب سماعت میں باقی تین ججز بیٹھیں گے۔ ججز میں جمہوری توازن پہلے ہی چیف صاحب کے خلاف ہے۔ لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے اختیارات اور Writ ثابت کرنے کے لیے کوشش میں مصروف رہے گی۔ پاکستان کے لئے کڑے اوقات میں ملک کے جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کڑی آزمائش سے نبرد آزما ہیں۔ نواز لیگ ان کو سجاد علی شاہ دوئم کے نام سے موسوم کر رہی ہے۔ جبکہ ملک بھر کی وکلا تنظیمیں پاکستان میں پارلیمانی طریقے کار کی مکمل حمایت کرتے نظر آ رہے ہیں

جیسا کہ ہم نے کہا کہ پاکستان دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے لے کر پاکستان کی عدالتوں تک پاکستان کی سیاست سے لے کر پاکستان کے عوام تک ہر جگہ دو ۔ دو چیزیں بٹی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اس میں واحد پاکستان اور واحد آئین پاکستان کو کوئی نہیں دیکھ رہا۔ آئین موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد کرانے والے دو ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔

پیر کے روز پاکستان کی سپریم کورٹ اپنے کڑے اوقات میں سے گزرے گی۔ اس بات کو محسوس کیا جا رہا ہے کہ شاید ملک کے چیف جسٹس کسی بھی خرابی کے پیش نظر پیر کے روز سماعت کی اوقات بڑھا دیں اور پیر کے روز اس کا فیصلہ کریں۔ شاید بہت بڑے دباؤ کی وجہ سے پاکستان کے چیف جسٹس دو طرفہ، دو نظری فیصلہ پیش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ ان کو بھی خوش رکھیں اور ان کو بھی خوش رکھیں۔ لیکن اس سے بھی یہ طے ہو جائے گا کہ اب فیصلے بھی ”طرفین“ کو خوش کرنے کے لئے ہوں گے۔

لیکن پاکستان کے بارے میں بہتر کیا کیا ہونا چاہیے؟ بڑھتی ہوئی خلا کو کیسے پر کیا جائے؟ اس خلا کو پر کرنے کے لیے پاکستان کی تمام پولیٹکل پارٹیوں کو مل بیٹھنا ہو گا، پاکستان کی پارلیمنٹ کو مل بیٹھنا ہو گا اور پاکستان کی جامعات سے لے کر پاکستان کے قانونی ماہرین کو مل بیٹھ کر اس سے عجیب و غریب صورت حال میں ہمارے غریب ملک کے حوالے سے بہت کچھ سوچ نا ہو گا۔ جس کی ضرورت ہے۔ آج ادارے پیچھے رہ گئے ہیں، عوام ساکت کھڑے ہیں اور باقی لوگ اپنی اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments