حصار


اس دنیا میں کچھ انسانوں پر بعض حادثات کا اثر اتنا گہرا ہوتا ہے، کہ وہ نقش کا الحجر کی مانند اس کے ذہن پہ ہمیشہ کے لئے پیوست ہو جاتے ہیں۔ اور پھر وہ انسان تمام عمر ان حادثات کے اثرات سے اپنے آپ کو نکال نہیں پاتا۔ گویا اس کی ذات کے گرد ایک ایسا حصار کھنچ جاتا ہے، کہ وہ تمام عمر چاہنے کے باوجود بھی اس حصار کی دیواروں سے باہر نہیں نکل سکتا۔ با الفاظ دیگر حصار ایک ایسا ہالہ ہے، جو اس کی شخصیت کو دھندلا کردینے کے ساتھ ساتھ، اسے اس قدر کمزور کر دیتا ہے کہ وہ بیرونی ماحول اور اس کی مشکلات سے قطع تعلقی کر کے گوشہ نشینی اختیار کر لیتا ہے۔

ایک انسان تعلیمی میدان میں محنت کرنے کے باوجود اگر ہار جاتا ہے تو شاید وہ عمر بھر اس حادثے سے باہر نہ نکل سکے، اور دوسری طرف ایک انسان تعلیمی میدان میں امتیازی ہونے کے باوجود بھی اگر اعلیٰ عہدے پر نہیں جاسکتا تو اس چیز کا تاسف اسے عمر بھر رلاتا رہے گا۔ الغرض یہاں ہر انسان کی زندگی کچھ کامیابیوں اور ناکامیوں کا ایک مجموعہ ہے، جس کے ساتھ وہ زندگی کے سفر پہ رواں دواں رہتا ہے۔ البتہ کچھ لوگ ان حادثات کے اثرات کو اپنے اندر اس قدر جذب کرلیتے ہیں کہ وہ چاہنے کے باوجود بھی اس کے گرداب سے نکل نہیں پاتے، جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ اسے سفر میں وقتی حادثہ یا ناخوشگوار واقعہ سمجھ کر فراموش کر کے، اپنی منزل مقصود کی جانب شاداں و فرحاں چلتے چلے جاتے ہیں۔

اگر ہم اس زندگی کے فلسفے پر غور کریں اور ناکامیوں پہ نظر دوڑائیں، تو دراصل یہ اس ڈرامے کے کردار کا حصہ تھا، جو کردار خالق نے ہمارے لئے تحریر کیا تھا۔ اب اس کردار میں موجود محض اس ایک حصے کو سینے سے لگا کر رکھ لینا اور زندگی کی جدوجہد سے دستبردار ہوجانا، اس چیز کی غمازی کرتا ہے کہ ہم اپنے خالق کی طرف سے دیے گئے کردار پر خوش نہیں ہیں۔ اور جب ایک انسان اپنے خالق کی طرف سے لکھے گئے کردار پہ مطمئن نہیں ہوتا، تو پھر وہ شکوہ و شکایت کی منزل پہ پہنچ جاتا ہے، جہاں وہ اپنے نصیب کو ستے ہوئے اپنے وقت کو ضائع کرتا رہتا ہے۔

ایک ایسا انسان جو زندگی کے اس سفر میں کسی ایک منزل پر رک جاتا ہے، اور ماضی کی ناخوشگوار یادوں کو ہی سینے سے لگائے، ہر وقت شکوے کے آنسو بہاتا رہتا ہے، وہ زندگی کی دیگر بہاروں سے تمام عمر محروم رہ جاتا ہے۔ اس کائنات میں کتنے ہی خوبصورت رنگ ہیں، کہیں چاندنی رات کی ٹھنڈک ہے، کہیں بہار کی خوبصورت دھوپ ہے۔ کبھی گرمی انسان کے جذبہ جدوجہد کو جلا بخشتی ہے تو کبھی سردی اس کے اندر ہجر کی آگ کی شدت کو کم کرتی ہے۔ الغرض یہ سب اس کائنات کے رنگ اور اس کی بہاریں ہیں۔ اور وہ انسان کس قدر بد نصیب ہے جو اس گلشن کی بہار اور اس کے رنگوں سے دل بہلانے کی بجائے، محض خزاں کے ستم رسیدہ پتوں کو چننے میں لگا رہتا ہے۔

اس بات کے اندر کوئی دو رائے نہیں ہے کہ انسان کی زندگی میں ناخوشگوار واقعات کا ظہور ہونا ایک ناگزیر امر ہے۔ لیکن جیسے ایک انسان کی زندگی کے اوپر اس کا کوئی بس نہیں ہے، بلکہ خدا نے جیسے لکھ دی ہے ویسے گزارنی ہے، بعینہ ان واقعات کے ظہور ہونے اور ان کے اوقات پہ بھی ہمارا بس نہیں ہے۔ ہمارے بس میں اگر کچھ ہے تو وہ ہے شکر۔ ایک شاکر انسان اپنی زندگی سے کس قدر خوش اور مطمئن ہوتا ہے، اس کا اندازہ اس انسان کو کبھی بھی نہیں ہو سکتا جو ان حادثات کے حصار میں اپنے آپ کو جکڑ کے تمام عمر اپنے آپ کو ان کا مقید کر لیتا ہے۔

اور ایک انسان جب اپنی ادھوری خواہشات اور ناممکن ارادوں کا اسیر بن کر ، زندگی کے سفر میں آگے بڑھنے کی جستجو کھو دیتا ہے تو یہ لمحہ اس کی موت کا لمحہ ہوتا ہے۔ کیونکہ کائنات میں وقت کبھی بھی کسی انسان کے لئے رکتا نہیں ہے۔ بلکہ یہ نہر میں بہتے ہوئے اس پانی کی مانند ہے، جو فصلوں کو سیراب کرنے کی غرض سے چھوڑا جاتا ہے۔ اور وہ کسان جو وقت پر اس پانی سے فصل کو سیراب کر لیتا ہے، وہی اس فصل سے منافع بھی کماتا ہے۔

مگر وہ کسان جو اس بہتے پانی سے فصل سیراب نہ کرے اور پھر فصل نہ ہونے کا شکوہ بھی کرے تو اس میں قصور دراصل کسی اور نہیں بلکہ اس کا اپنا ہے۔ کیونکہ قدرت نے اپنی نعمتوں میں کسی قوم، مذہب یا ملک کی تخصیص روا نہیں رکھی، بلکہ اس کی یہ کائنات سب کے لئے ہے۔ تاہم ان اسباب کو کون استعمال کرتا ہے، یہ انسان کی ذات پہ منحصر ہے۔

انسان جب ایک حصار میں خود کو مقید کر لیتا ہے، تو گویا اس نے جدوجہد سے دستبرداری اختیار کرلی ہے۔ اور جب جدوجہد سے انسان ہاتھ کھینچ لے، تو وہ معاشرے کے لئے کارآمد نہیں بلکہ ایک ناکارہ انسان بن کے رہ جاتا ہے، جو صرف اس دھرتی کا بوجھ ہے۔ ایک ایسا محصور انسان جو معاشرے میں مثبت کردار ادا نہیں کرتا، تو معاشرہ بھی اسے پاؤں تلے روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتا ہے۔

ہم میں سے کون ہے جس کے مقدر میں ناکامی کا باب نہیں ہے، مگر ان ناکامیوں کو گلے سے لگا لینا اور پھر تمام عمر ان پہ گریا و بکا کرتے رہنا ہرگز عقل مندی نہیں ہے۔ بلکہ عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ انسان ان حادثات سے سبق سیکھتے ہوئے، ، اپنی ناکامیوں کا جائزہ لے، اپنی زندگی کے سفر کو ازسر نو مرتب کرے اور پھر اس راستے کو چھوڑ کر ، دوسرے راستے کا انتخاب کرے جو منزل مقصود کی جانب بہتر رہنمائی کرتا ہو۔ اگرچہ راستے دشوار ضرور ہوتے ہیں اور ان میں رکاوٹیں بھی کھڑی ہوتی ہیں، مگر ان رکاوٹوں سے بچ کر آگے بڑھنے کا ہی نام زندگی ہے، اور زندگی صرف زندہ لوگوں کے لئے ہے، جبکہ حصار میں مقید شخص کو زندگی اپنے لوازمات سے بہرہ مندہ نہیں کرتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments