عہدوں کی بے توقیری (مکمل کالم)


میں یہ بات سن سن کر تنگ آ چکا ہوں کہ جو کچھ پاکستان میں ہوتا ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہوتا، یہ ماتم کرتے وقت ہم خود کو بد ترین ممالک سے بھی نیچے شمار کرلیتے ہیں اور ایک ہی جملے میں اپنی بے توقیری کا خلاصہ بیان کر دیتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ہم نے بھی ’ات چکی ہوئی ہے‘ اور چین سے نہیں بیٹھ رہے، آئے دن ہم کوئی نہ کوئی آئینی، سیاسی یا قانونی بحران پیدا کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر درد زہ سے کراہتے پھرتے ہیں۔ لیکن کیا دنیا کے دیگر ممالک میں ایسا کچھ نہیں ہوتا؟ امریکہ جیسا ملک بھی ان مسائل سے مبرا نہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں جمہوریت کی عمارت بہت مضبوط ہے جو ہر قسم کے سیاسی زلزلوں کو سہ جاتی ہے جبکہ ہم ابھی تک کچے گھروندے میں رہ رہے ہیں جو ہوا کے ایک جھونکے سے لرز جاتا ہے، پچھتر برس میں ساڑھے چار مرتبہ تو یہ گھروندا ویسے ہی گرایا جا چکا ہے۔ خیر اپنی چھوڑیں، امریکہ چلتے ہیں جہاں ہماری آنکھوں کے سامنے ڈانلڈ ٹرمپ نے بطور امریکی صدر نہ صرف انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ اپنے کارکنوں کو اکسایا کہ وہ کیپیٹل ہل پر قبضہ کر لیں اور انہوں نے یہی کیا، ساری دنیا نے وہ مناظر دیکھے جب ٹرمپ کے ’ڈنگر‘ قسم کے حامی کیپیٹل ہل میں گھس گئے اور ارکان کانگریس کو بھاگ کر اپنی جانیں بچانی پڑیں۔

حال ہی میں امریکہ کے سپریم کورٹ کے جج کا بھی سکینڈل سامنے آیا ہے۔ جج صاحب کا نام کلیرنس تھامس ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ اپنے ارب پتی دوست کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ جج تھامس گزشتہ دو دہائیوں سے اپنی چھٹیاں پر تعیش مقامات پر گزار رہے ہیں، ذاتی جہازوں اور کشتیوں پر سفر کرتے ہیں اور مہنگے ہوٹلوں میں رہتے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ 2019 میں جب وہ چھٹیاں گزارنے انڈونیشیا گئے تو اس پر تقریباً پانچ لاکھ ڈالر یعنی پندرہ کروڑ روپے خرچ آیا۔ جج صاحب کا یہ سارا خرچہ ہمیشہ سے ان کے دوست ہارلن کرو، جو امریکہ میں رئیل اسٹیٹ کے ملک التجار سمجھے جاتے ہیں، اٹھاتے ہیں۔ جج صاحب نے اپنے دفاع میں بہت دلچسپ موقف اختیار کیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہارلن یاروں کا یار ہے اور یہ سب کچھ ’ذاتی مہمان نوازی‘ کے کھاتے میں آتا ہے۔ جج صاحب نے اپنی بات میں مزید وزن پیدا کرنے کی غرض سے یہ بھی کہا کہ اس ضمن میں جب انہوں نے اپنے جج بھائیوں (اور غالباً ایک آدھ بہن) سے رہنمائی مانگی تو انہوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ ’قریبی دوستوں کی طرف سے، جن کا عدالت کے سامنے کوئی تنازعہ یا معاملہ نہیں تھا، اس قسم کی ذاتی مہمان نوازی (سے لطف اندوز ہونے) کا اعلان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔‘ یاد رہے کہ امریکی ججوں پر لازم ہے کہ وہ ہر سال اپنے تحائف کو ظاہر کریں، کچھ ناقدین کی نظر میں چونکہ یہ پر تعیش تعطیلات ایک قسم کا تحفہ تھیں لہذا جج تھامس کو انہیں ظاہر کرنا چاہیے تھا جو انہوں نے نہیں کیا، تاہم جج صاحب کا موقف ہے کہ مسٹر کرو اور ان کی بیگم کیتھی کرو گزشتہ پچیس برس سے ان کے بہترین دوست ہیں لہذا یہ ذاتی مہمان نوازی ’اس طرح سے تحفے کے زمرے میں نہیں آتی‘ جسے ظاہر کیا جانا ضروری ہو۔ لیکن لوگ بڑے ظالم ہوتے ہیں۔

ورجینیا کینٹر نامی ایک ethics lawyer ( وکیل اخلاقیات) ہیں اور مجھے پہلی مرتبہ پتا چلا ہے کہ اخلاقیات کا بھی کوئی وکیل ہوتا ہے، جنہوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ جج تھامس نے ساتھی ججوں سے کسی قسم کی کوئی با ضابطہ مشاورت کی تھی، مس کینٹر نے کہا کہ ’عدالت کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔ ہر جج خود ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کس سے کیا مشورہ لے گا اور کون سے اصول اس پر لاگو ہوں گے۔ ‘ اس سے پہلے کہ آپ اس سکینڈل سے بور ہو جائیں، کہانی میں ایک دلچسپ ٹکڑا اور بھی ہے۔ ارب پتی مسٹر ہارلن نے اس معاملے پر کہا ہے کہ جج تھامس کی ہم نے ویسی ہی میزبانی کی جیسی ہم باقی دوستوں کی کرتے ہیں، جج صاحب نے کبھی اس کی درخواست نہیں کی، ہم نے اپنی دعوتوں میں کبھی کسی مقدمے پر بات نہیں کی اور نہ ہی ہم کسی ایسے شخص کو مدعو کرتے ہیں جو کسی بھی طرح جج تھامس پر ان کے زیر سماعت مقدمات کے حوالے سے اثر انداز ہونے کی کوشش کرے۔ بظاہر یہ تمام بہت خوش کن باتیں ہیں مگر کہانی میں ’ٹوئسٹ‘ یہ ہے کہ مسٹر ہارلن ریپبلیکن پارٹی کو لاکھوں ڈالر کے عطیات دیتے ہیں، وہی ریپبلکن پارٹی جس کی طرف سے ڈانلڈ ٹرمپ صدر تھے، وہی ڈانلڈ ٹرمپ جس کی حکومت جب ختم ہو رہی تھی اور ٹرمپ کے حامی کیپیٹل ہل پر دھاوا بول رہے تو جج تھامس کی بیگم صاحبہ نے وہائٹ ہاؤس کے چیف آف سٹاف کو پیغامات بھیجے کہ ڈٹے رہو اور انتخابات کے نتائج تسلیم مت کرو۔ کیپیٹل ہل فسادات پر ہونے والی تحقیقات کے نتیجے میں جب یہ بات سامنے آئی تو امریکہ میں ہنگامہ مچ گیا جس کے بعد بیگم صاحبہ کو معافی مانگنی پڑی۔

یہ کہانی کسی پسماندہ افریقی ملک کی نہیں بلکہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ہے اور آج کی ہے۔ اس کہانی سے دو سبق حاصل ہوتے ہیں۔ پہلا، خواہ مخواہ ہر بات میں خود کو مطعون کرنے کی ضرورت نہیں، پاکستان دنیا کا کوئی واحد ملک نہیں جہاں بحران پیدا ہوتے ہیں، دنیا میں ہر وقت ہر قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں لہذا ہر معاملے میں جھٹ سے خود کو کانگو یا برکینا فاسو نہیں سمجھ لینا چاہیے، ادھر ادھر نظر دوڑا کر بھی دیکھ لینا چاہیے کہ باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور جب ہم نظر دوڑائیں گے تو ہمیں دوسرا سبق از خود، بولے تو suo moto مل جائے گا۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں جج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ لگ بھگ کسی فرشتے کی طرح زندگی گزارے، یہی وجہ ہے کہ جج کی تعیناتی سے پہلے اس کی کڑی چھان بین کی جاتی ہے، اس کا ماضی کھنگالا جاتا ہے، پارلیمان کی کمیٹیاں اس سے سوالات کرتی ہیں اور یہ کارروائی براہ راست ٹی وی پر دکھائی جاتی ہے، پھر کہیں جا کر جج کو تعینات کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ امریکہ میں سپریم کورٹ کے جج کو تعینات کرنے کا یہی طریقہ ہے، اس کے بعد کسی جج کو ہٹانے کے لیے ایوان نمائندگان کی اکثریت اور سینیٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے جو تقریباً ایک ناممکن سی بات ہے۔ اس پورے نظام کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ جج کا احتساب کرنا ناخوشگوار کام ہے لہذا اس کا احتساب تعیناتی سے قبل ہونا چاہیے، جج کی تعیناتی سے پہلے جتنی چاہے پڑتال کرلو، اس کی شخصیت کے عیب تلاش کر لو، اس کی دیانتداری کا ریکارڈ کھنگال لو مگر جب وہ جج بن جائے تو سمجھو کہ اب ایک فرشتہ سیرت شخص عدالت عظمی ٰ میں بیٹھا ہے۔

جج تھامس کی تعیناتی خاصی مشکل سے ہوئی تھی، موصوف پر ایک خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام تھا جس پر کافی ہاہا کار مچی تھی۔ جج تھامس کا موجودہ سکینڈل ظاہر کرتا ہے کہ 1991 میں کی گئی ان کی تعیناتی درست نہیں تھی۔ دوسری طرف ہم نے ججوں کی تعیناتی کے نظام کو بالکل میکانکی بنا کر رکھ دیا ہے، اس نظام میں نہ پارلیمان کی کمیٹی کا کوئی قابل ذکر کردار ہے اور نہ ہی کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے کسی شخص کے بارے میں مکمل چھان بین کی جا سکے کہ آیا وہ جج بننے کے قابل ہے بھی یا نہیں، محض چند سال کی پریکٹس کرنے والا کوئی بھی وکیل جج بن سکتا ہے۔ کسی بھی ملک میں چند گنے چنے عہدے ایسے ہوتے ہیں جن کا روایتی طریقے سے احتساب کرنا کوئی مناسب حرکت نہیں ہوتی، مثلاً صدر مملکت، وزیر اعظم، چیف جسٹس وغیرہ۔ وزیر اعظم کا احتساب اس کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام انتخابات کے ذریعے کرتے ہیں مگر ہم نے یہ عہدہ ویسے ہی بے توقیر کر دیا ہے، اب جو کچھ بچا ہے اس کی عزت بچانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ تعیناتی کے طریقہ کار کو درست کیا جائے۔ تھوڑے کہے کو بہت جانیں۔ وما علینا الالبلاغ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments