کاش عدالت عظمی بے زبانوں کی بھی سن لے


پہلا چڑیا گھر کب اور کہاں کھلا۔اس بارے میں حتمی طور پر کچھ طے نہیں۔ البتہ مصر اور میسو پوٹیمیا میں کچھ آثار اور تحریریں ایسی ضرور دریافت ہوئی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈھائی ہزار قبلِ مسیح میں کچھ بادشاہوں اور امرا کا شوق تھا کہ وہ بھانت بھانت کے چرند پرند جمع کریں۔ایک پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں تو کم و بیش سب ہی جانتے ہیں کہ انھیں تمام پرندوں کی زبان آتی تھی اور جنگلی حیات ان کی مطیع تھی۔ اسی طرح کئی اولیائے کرام کے خیالی پوسٹرز بھی ہمارے بچپن میں فروخت ہوتے تھے۔ان میں کوئی بزرگ اپنا عصا لے کے شیر پر سوار ہے اور کوئی اپنے مریدوں میں ” کاواں والی سرکار “ کے طور پر مشہور ہے۔مگر ان اللہ والوں کو کبھی جانور قید کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔

رومن شہنشاہوں کو اپنی رعایا کو ذہنی طور پر مصروف رکھنے کے دو طریقے معلوم تھے۔ بیرونی فتوحات کے ذریعے اہلِ روم پر دھاک بٹھانا اور پھر جشنِ فتح سمیت طرح طرح کے بہانوں سے رومن سرکس منعقد کروانا۔ان میں انسانوں اور جانوروں کے درمیان کسی ایک کے خاتمے تک خونی مقابلوں کا ہفتوں پر پھیلا ٹورنامنٹ جاری رہتا۔مفت روٹی ، شراب اور نظارے کے لیے خونی دنگل۔اس موقع پر خزانے کے منہ کھل جاتے اور مقبوضہ دنیا سے طرح طرح کے جانور اس خونی سرکس میں جھونکنے کے لیے مسلسل جمع کیے جاتے۔ جو بادشاہ اس طرح کے میلے جتنے زیادہ منعقد کرواتا اتنی ہی اس کی جے جے کار ہوتی۔

امرا اور متمول رومن سینیٹرز کے نجی چڑیا گھر بھی تھے۔جس کے پاس جتنے نایاب پرندے اور چرند درند ہوتے اس کا سماجی رتبہ اتنا ہی بلند ہوتا۔جانور ایک دوسرے کو بطور تحائف دینے کا بھی رواج تھا۔اس زمانے میں جانوروں کے باڑے کو مینیجری کہا جاتا تھا۔ اس کے انتظام و دیکھ بھال کے لیے مینیجرز مقرر ہوتے تھے۔اور اچھے مینیجرز کی اشرافیہ میں بہت توقیر تھی۔ میکسیکو کے ازٹیک بادشاہ بھی چرند و پرند کا شوق پالتے تھے۔ جب سولہویں صدی میں ہسپانویوں اور پرتگیزیوں نے ازٹیک ایمپائر پر یلغار کی تو جانور یا تو لوٹ لیے گئے یا ہلاک کر دیے گئے۔ابتدائی مسلمان بادشاہوں میں جانوروں کو جمع کرنے کی بابت بہت کم تذکرہ ملتا ہے۔البتہ عثمانی دور میں اس جانب کچھ توجہ دی گئی تاکہ یورپی بادشاہتوں کے مقابلے میں مسلم شان و شوکت کا اظہار ہو سکے۔

کہا جاتا ہے کہ عوام الناس کے لیے پہلا جدید چڑیا گھر سترہ سو ترانوے میں پیرس میں کھلا۔برطانیہ میں زولوجیکل سوسائٹی لندن کے تحت اٹھارہ سو اٹھائیس میں ریجنٹس پارک میں سائنسی تحقیق کے نام پر پہلا زولوجیکل گارڈن ( اس کا مخفف زو ہے ) کھلا۔ اٹھارہ سو سینتالیس میں اسے عوام کے لیے بھی کھول دیا گیا۔ امریکا میں پہلا زو اٹھارہ سو چوہتر میں فلاڈیلفیا میں کھلا۔انیسویں صدی میں چونکہ یورپی سلطنتوں نے عالمگیر حیثیت حاصل کر لی تھی لہٰذا کروفر کے اظہار کے لیے بڑے بڑے رقبوں پر چڑیا گھر بنائے گئے اور انھیں نایاب پرندوں ، چرندوں ، درندوں سے بھر دیا گیا۔ توجیح یہ پیش کی گئی کہ یہ چڑیا گھر محض تفریح کا مرکز نہیں ہوں گے بلکہ عوام میں جانوروں سے متعلق عمومی آگہی ، حیاتیاتی تحقیق اور معدومیت کے خطرے سے دوچار جنگلی حیات کے تحفظ کا مرکز بھی ہوں گے۔جیسے جیسے زمانی شعور بڑھتا گیا ویسے ویسے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سفاری پارکس ، گیم ریزروز اور نسلی خطرات سے دوچار حیات کے تحفظ کے بین الاقوامی کنونشنز بھی اپنائے جانے لگے۔

یہ تصور بھی جڑ پکڑنے لگا کہ آج کے دور میں جانوروں سے متعلق عمومی آگہی یا سائنسی تحقیق یا تفریح کے لیے روایتی چڑیا گھروں کی ضرورت نہیں اور جس طرح انسانوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے فطری ماحول میں زندگی بسر کریں۔وہی حق جانوروں کو بھی حاصل ہے۔کسی بھی جواز کے تحت جانوروں اور پرندوں کو قید رکھنا ، خلافِ فطرت ماحول میں رکھنا یا ان کی جبلت کے برخلاف منافع خوری یا تماشگی کے لیے استعمال کرنا ایک ظالمانہ اور غیر مہذب فعل ہے۔

متعدد جائزوں سے ثابت ہو چکا ہے کہ چڑیا گھر محض تفریح کا ذریعہ رہ گئے ہیں۔ مثلاً گزشتہ برس تین کروڑ لوگوں نے برطانوی چڑیا گھروں کا رخ کیا۔ان میں سے صرف پانچ فیصد کا کہنا تھا کہ وہ یہاں جانوروں کے بارے میں اپنی یا اپنے بچوں کی علمی پیاس بجھانے آئے ہیں۔پچانوے فیصد محض تفریح اور وقت گذاری کے لیے آئے تھے۔بچے آج کل جانوروں کے بارے میں جتنا کچھ وائلڈ لائف کے ٹی وی سیریلز یا انٹرنیٹ پر مہیا دستاویزی فلموں سے سیکھ سکتے ہیں اتنا چڑیا گھر کی ایک آدھ سیر سے ہرگز نہیں سیکھ سکتے۔

رہی یہ بات کہ چڑیا گھر معدومیت کے خطرے سے دوچار جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں تو فی زمانہ اس دلیل میں بھی وزن نہیں رہا۔کیونکہ اگر آپ کسی معدوم ہوتے جانور کو بھی اپنے فطری ماحول سے اٹھا کے چڑیا گھر کے نامانوس ماحول تک محدود کر دیں گے تو ذہنی دباﺅ اور جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کے خطرے کے پیش نظر اس کی طبعی زندگی طویل ہونے کے بجائے جلد موت کا خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ چڑیا گھر میں صرف پانچ فیصد جانور اور پرندے ایسے ہیں جنھیں کسی نہ کسی خطرے سے دوچار خانے میں رکھا جا سکتا ہے۔ پچانوے فیصد جانور جن کی زندگی فی الحال جنگل میں خطرے میں نہیں انھیں کیوں چڑیا گھروں میں قید رکھا گیا ہے۔مثلاً انیس سو اسی کے عشرے میں کانگو میں پائے جانے والے پہاڑی گوریلوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے محض ڈھائی سو تک رہ گئی۔ انھیں ان کے فطری ماحول سے محروم کیے بغیر ان کی دیکھ بھال اور افزائش کے لیے سخت قانون سازی کی گئی اور ماہرینِ حیوانات کی کوششوں سے اب ان پہاڑی گوریلوں کی تعداد ایک ہزار سے اوپر ہو گئی ہے۔نائیجیرین کیمرون چیمپنزی نسل کو نائیجیریا کے گشاکو گومتی نیشنل پارک میں منتقل کر کے محفوظ ماحول فراہم کیا گیا۔ یوں پچھلے بیس برس میں ان کی تعداد خطرے کے نشان سے اوپر آ گئی ہے۔

انیس سو بہتر تک عربی النسل بارہ سنگھا لگ بھگ معدوم ہو چکا تھا۔چنانچہ اومان سے دو جوڑوں کو کیلی فورنیا کے سان ڈیگو نیشنل پارک میں منتقل کیا گیا۔ آج جزیرہ نما عرب میں ان کی تعداد ایک ہزار سے اوپر ہو چکی ہے۔یہ سب سان ڈیگو منتقل کیے جانے والے دو آخری جوڑوں کے پوتے پڑپوتے پرنواسے ہیں۔اسی طرح کیلی فورنیا کے عقابی صفت کونڈور کو بھی سان ڈیگو نیشنل پارک میں محفوظ ماحول فراہم کر کے معدومی سے بچا لیا گیا۔

پاکستان میں کاون ہاتھی کا قصہ بالکل تازہ ہے۔جسے اسلام آباد زو کے اذیت ناک ماحول سے نومبر دو ہزار بیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر کمبوڈیا میں ہاتھیوں کی وسیع و عریض پناہ گاہ میں منتقل کیا گیا۔تب سے کاون دیگر ہاتھیوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گذار رہا ہے۔ مگر کراچی زو میں قید نور جہاں اور مدھوبالا شاید اتنی خوش قسمت ثابت نہ ہوں اور وہ یہیں سیمنٹ کے تپتے فرش پر لوہے کے جنگلے سے اپنا جسم رگڑ رگڑ کے ایک روز مر جائیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جانوروں کی زبوں حالی دیکھتے ہوئے اسلام آباد زو بند کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ مگر زو ایک دن کے لیے بھی بند نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ جو سیاسی و انسانی مسائل پر ازحود نوٹس لینے میں کبھی دیر نہیں کرتی۔ کاش کسی دن تمام چڑیا گھر بند کر کے ان کے جانوروں کو انھی کے فطری ماحول میں چھوڑنے کا ازخود حکم دے کر ہزاروں بے زبانوں کی بھی دعائیں سمیٹے۔

(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments