عسکری آپریشن: حکومتی ٹوپی سے برآمد آخری خرگوش


ریاست کا بنیادی مقصد اپنی آبادی کو بڑے پیمانے پر آسانیاں اور تحفظ مہیا کرنا ہے اور یہ سب ریاست حکومت کے ذریعے ممکن بناتی ہے۔ ہر حکومت کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح عوام میں مقبول ہو۔ غیر مقبول حکومتیں گزشتہ حکومتوں کے خلاف پروپیگنڈا، دشمن کا خوف اور سبز باغات کے خواب بیچتی ہیں۔ پرانے زمانے میں جب بھی کوئی ڈکٹیٹر آیا تو اس نے انڈیا کے ساتھ سرحدی جھڑپیں، محدود لڑائی یا خفیہ آپریشنز کرنے کے ذریعے خود کو قابل قبول بنانے کی کوشش کی۔ ایوب اور مشرف اس کی تاریخی مثالیں ہیں۔ بھٹو نے بھی ہزار سال لڑنے اور گھاس کھانے کے اعلانات اسی پس منظر میں کی تھیں اگرچہ وہ پاپولر لیڈر تھے۔

تاریخی خونریزی کی وجہ سے انڈیا کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کی خواہش، پنجاب کے دل میں مچلا کرتی تھی اس لیے یہ سب سے آسان نسخہ ہوتا تھا۔ یوں انڈیا سے لڑنے والا پنجاب میں مشہور ہوجاتا تو باقی پاکستان کیا سوچتا ہے کسی کو فکر نہیں ہوتی۔ چونکہ پنجاب کی آبادی پاکستانی پارلیمانی سیاست میں کلیدی کردار رکھتی ہے اس لیے سویلین ہو یا عسکری، ہر حکومت جو بھی پالیسیاں بناتی ہیں وہ پنجاب سینٹرک ہوتیں ہیں۔ لیکن اب انڈیا کے خلاف کچھ کرنا تو کجا سوچا بھی نہیں جاسکتا، پھر پنجاب میں انڈیا سے نفرت بھی اتنی زوردار نہیں رہی، لیکن ایک دشمن تو چاہیے، اس لیے اب وہ منفی جذبہ افغانستان کی طرف منتقل کیا جار ہا ہے، جس میں اکثر پاکستان کے پختون بھی لپیٹ لیے جاتے ہیں۔

موجودہ حکومت پاکستان کی غیر مقبول ترین حکومتوں کے مقابلے میں با آسانی پہلے نمبر پر آ سکتی ہے۔ عمران دور میں لاہور میں کوئی خاص ترقیاتی کام نہ ہونے کے باوجود، ’لاہور کی حکومت‘ پنجاب میں الیکشن کرانے سے گھبراتی ہے۔ مگر غیر مقبول ہونے اور انڈیا کے خلاف کچھ نہ کر سکنے کی وجہ سے عمران کے خلاف زمان پارک میں روا رکھے گئے لاٹھی چارج، واٹر کینن اور آنسو گیس کے استعمال کے ساتھ ساتھ ’پٹھان اور افغان ہیں‘ لوکل کوئی نہیں اور عمران ’نیازی‘ کی فریاد کر کر کے لاہوریوں کو خصوصاً اور باقی پنجاب کے لوگوں کو عموماً ذہنی طور پر ایک خاص سمت میں ہانکتی رہی، جو آج بھی جاری ہے۔

پاکستانی سیاسی اور عسکری اشرافیہ کچھ بھی برداشت کر سکتی ہے لیکن لاہور میں کسی قسم کا انتشار برداشت نہیں کر سکتی۔ اگر موجودہ حکومت قابل لوگوں پر مشتمل ہوتی تو کبھی بھی عمران کو لاہور آنے پر مجبور نہ کرتی۔ وہ بنی گالا میں رہتا ہلا گلا وہی بابووں کے شہر اسلام آباد میں ہوتا اور لاہور میں ٹینشن نہ بنتا۔ اب لاہور کی ایک ایسی حکومت لاہور میں اپنا مقابل کیسے برداشت کر سکتی ہے جو لاہور میں بھی غیر مقبول ہو۔ آٹا پٹرول اور چینی کی قطاروں میں کھڑے لاہوریے مہنگائی کے علاوہ اب ٹیئر گیس واٹر کینن اور لاٹھی چارج بھی الیکشن کے دن یاد رکھے گی، کیونکہ زمان پارک کے متاثرین حقیقت میں زیادہ تر لاہوریے تھے، جو حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے عمران خان کی سحر میں مبتلا ہیں۔

نائین الیون کے بعد صدر بش نے بہت کچھ کہا لیکن اس کی ایک بات مجھے کبھی نہیں بولتی، اور وہ اس لیے کہ بے گناہ ہونے کے باوجود اس بات کی وجہ سے لاکھوں دوسرے پختونوں کے ساتھ ساتھ، میں بھی شدید متاثر ہوا۔ اس نے ایک تقریر کے دوران امریکیوں سے وعدہ کیا کہ جن لوگوں نے یہ جنگ شروع کی ہے، میں اس جنگ کو ان کے گھروں تک لے جاؤں گا، اور اس نے واقعی وہ جنگ پھر ہمارے گھروں میں برپا کردی۔ جس میں ہمارے اسی ہزار لوگ قتل ہوئے۔ جس طرح بش نے اپنی جنگ ہمارے ہاں منتقل کردی تھی اسی طرح نامقبول حکومت اپنی نامقبول پالیسیوں اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے لاہور کی توجہ عمران خان سے ہٹانے اور وہاں جاری کشمکش کو ہمارے علاقے میں منتقل کرنے کے لئے ایک اور فوجی آپریشن کرنے کا سوچ رہی ہے۔

اب ایک طرف دہشت گرد ہیں جن کا ہلاکت خیز خوف دل دل میں بسا ہوا ہے اور دوسری طرف عسکری آپریشن ہے، جس کی بدترین یادیں ہماری راتوں کی نیندیں اڑا چکی ہیں۔ ایمل ولی خان، منظور پشتون، محمود خان اچکزئی اور محسن داوڑ تو چھوڑ دیں، جن کی سیاست پختون قوم اور مسائل کے گرد گھومتی ہے، جماعت اسلامی کے سراج الحق اور سینیٹر مشتاق احمد بھی پہلی دفعہ مجوزہ عسکری آپریشن کے خلاف بول اٹھے ہیں، تو پھر آپریشن پر عدم اعتماد کے لئے اتنا کافی نہیں کہ پختون دہشت گردوں کے حملوں کے خوف سے زیادہ فوجی آپریشن سے خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد تو ہمیں صرف مارتے ہیں لیکن فوجی آپریشنز میں تو ہمارے گھر بھی برباد کر دیے جاتے ہیں۔

گزشتہ ادوار میں اردو پشتو انگریزی اور عربی کے ڈراؤنے ناموں کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف درجن بھر سے زائد آپریشنز ہوئے، جن کے نشانات ابھی تک دل دماغ روح اور آبادیوں پر نقش ہیں۔ جتنی بار دہشت گردوں کی کمر گردن اور حوصلہ توڑنے کا دعویٰ کیا گیا اگر اس کی تاریخ لکھی گئی تو بلاشبہ وہ ’تاریخ دعویٰ جات‘ ہزاروں صفحات پر مشتمل ہوگی۔ آخری آپریشن ضرب عضب بھی پشاور میں ڈیڑھ سو بچوں کے قتل عام کے بعد شروع کیا گیا اور اب بھی اسی پشاور میں سو سے زائد پولیس والوں کے قتل کے بعد شروع کرنے کا ارادہ کیا جا رہا ہے۔

ہمارے بچے قتل ہوئے تو ایک نیشنل ایکشن پلان کی منظوری دی گئی، اس کا کیا ہوا؟ ہماری پولیس قتل ہوئی تو قومی سلامتی کے اجلاس میں نئے آپریشن کا فیصلہ ہوا جس کا الزام حملہ آوروں کو دوبارہ بسانے والے بے نام لوگوں پر لگایا گیا، جنہوں نے ان کو ان کی ٹوٹی ہوئی کمروں کے ساتھ دوبارہ لاکر یہاں بسایا۔ جب حکومت اپنے اعلامیے میں بسانے والوں کا نام نہیں لے سکتی تو میں بسانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیسے کر سکتا ہوں؟ عمران کے آخری دنوں میں ان کو دوبارہ بسانے کا کام شروع کر کے کہیں عمران خان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لئے مصالحہ تو نہیں بنایا گیا؟

سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پختونخوا کے سرکاری عملے کو عید کے موقع پر تنخواہیں دینے کے لئے مطلوبہ رقم موجود نہیں، الیکشن کرانے کے لئے مجوزہ رقم موجود نہیں، فوجی جوانوں کے راشن پر کٹ لگانے کی خبریں سینے پر مونگ دل رہی ہیں، تو پھر ہمہ جہت آپریشن کے لئے رقم کہاں سے آ رہی ہے؟ مردم شماری، نئی حلقہ بندیوں، الیکشن کے لئے رقم کی عدم دستیابی کی طرح کہیں مجوزہ آپریشن بھی الیکشن کو معطل کرنے کا کوئی گر تو نہیں؟ کیونکہ صرف لاہور میں مسئلہ نہیں پختونخوا کے ہیوی ویٹ مولانا صاحب بھی آن دی ریکارڈ فرما چکے ہیں کہ میں تو ایسی حالت میں اپنے حلقے میں الیکشن کمپین بھی نہیں چلا سکتا۔

ایک توجہ طلب سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں حملے کرنے والے افغانستان میں سرکاری مہمان ہیں، کیا اس دوران سرحد پار جاکر ان کے اڈے بھی ٹارگٹ کیے جائیں گے تاکہ چین کے ساتھ ساتھ امریکی مفادات بھی محفوظ ہو جائیں۔

آخری سوال پختون قوم پرست رہنماؤں اور جماعت اسلامی سے ہے۔ آپریشن کی مخالفت کر کے آپ حملہ آوروں کو کیسے روک سکتے ہیں؟ کیا آپ ایک قومی جرگہ بنا کر ان لوگوں کو صلح کرنے پر آمادہ کریں گے یا صرف زبانی کلامی جمع خرچ کر کے عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش میں مصروف ہیں؟ اگر آپ کے پاس صلح اور امن کے لئے کوئی متفقہ لائحہ عمل نہیں تو پھر آپ کو کیا حق پہنچتا ہے کہ آپ ہونے والے حملوں اور اس کے بدلے میں ہونے والے آپریشن کے خلاف آواز اٹھا سکیں؟

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments