اصل مسئلہ حکومت کرنے میں نہیں ہے سموتھ ٹرانسفر اف پاور میں ہے۔ ایک وقت تھا کہ بادشاہتیں تھیں، حکومت نسل در نسل آگے منتقل ہوتی جاتی تھی، اسی تسلسل میں ایک ایسا وقت آ جاتا تھا کہ نکمی اور نا اہل اولادیں حکومت سنبھال نہیں پاتی تھیں۔ تخت کے وارث کے جھگڑے جنگ و جدل تک پہنچ جاتے تھے جو سالہا سال جاری رہتے۔ رسول اللہ ﷺنے آ کر بدوی کلچر کو ختم کر دیا لیکن خلافت راشدہ کے دوران اختلافات سر اٹھانے لگے کہ سیاسی نظام کے خد و خال ابھی واضح نہیں تھے۔ نتیجۃ شہادتیں ہوئی خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو گئی۔ جنگ افراد سے نکل کر قبائل میں منتقل ہو گئی۔ بنو امیہ کمزور ہوئے تو بنو عباس آ گئے وہ کمزور ہوئے تو صفوی اور وغیرہ وغیرہ آ گئے پھر عثمانی آ گئے۔ اس دوران یورپ میں لمبی جنگوں اور انقلابات کے بعد بات جمہوریت تک چلی گئی حکومت اچھی تھی یا بری سوال ٹرانسفر اف پاور کا تھا جو جمہوری طریقے سے ہونے لگی۔

اقتدار کا کھیل وسائل اور اختیار پر قبضے کی جنگ ہے ایک طرف عوام ہے دوسری طرف وسائل پر قابض اشرافیہ اور ان کے آلہ کار، پھر بیوروکریسی ہے جو اپنے اختیار اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر طاقت کے مراکز کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت کرنے لگتی ہے۔ اختیارات کا اندھادھند استعمال اس خوف کا مظہر ہوتا ہے کہ اختیار ہاتھ سے نکلتے ہی ان کی سب آن بان شان ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ برما کی فلاسفر آنگ سانگ سوکی کا کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ طاقت نہیں طاقت کے ختم ہو جانے کا خوف کرپٹ کرتا ہے۔ فوج میں ماتحت قانونی پوزیشن جانے بغیر کمانڈر کا حکم ماننے کا پابند ہوتا ہے۔ مطلق پاور کسی کو بھی کرپٹ کر سکتی ہے اسی لئے جوابدہی کا سسٹم موجود رکھا جاتا ہے۔ ایسے جواب دہی کے سسٹم کی غیر موجودگی میں ایک وقت آتا ہے کہ ”کمانڈر“ کے لئے آئین قانون ضابطہ وغیرہ کوئی چیز نہیں ہوتی اس کے لئے صرف اپنے مفادات کا حصول اہم ہوتا ہے وہ آئین اور قانون کی پابندیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا جیسا کہ ہمارے ہاں ہوتا رہا ہے۔

ہمارے موجودہ ریاستی ڈھانچے میں ”سٹیرنگ“ نہ تو عاصم منیر سنبھالنے کے متمنی تھے نہ ہی سٹیرنگ ان کے حوالے کیا جانا مقصود تھا۔ لگتا یہ ہے کہ پرانی اسٹیبلشمنٹ نے یہ سٹیرنگ بندیال کے حوالے کر دیا ہے تاکہ نہ صرف وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرے بلکہ ان کو بھی ان کے جرائم سے بچائے۔ یہ اقتدار اور اختیار یعنی وسائل پر قبضے کہ جنگ ہے۔ پرانی اسٹیبلشمنٹ کے گن وہی لوگ گاتے ہیں جو اس کے بینیفشری ہیں۔ یک سری حکومت مطلق آمر یا بادشاہت کی صورت قائم ہوتی ہے جبکہ چند سری حکومت کو Oligarchy کہا جاتا ہے۔ Oligarchy (یونانی ’حکومت کرنا یا حکم دینا‘ ) طاقت کے ڈھانچے کی وہ شکل ہے جس میں طاقت چند لوگوں کے پاس ہوتی ہے جیسے مذہبی، سیاسی شخصیات، دولت مند لوگ، کارپوریٹ آدارے، فوجی کنٹرول اور طاقت کے دیگر مراکز۔

ہمارے ہاں موجودہ صورت حال یہ ہے کہ فوج میں اعلی عہدوں پر پرانی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے موجود ہیں جن کی ایماء پر بندیال اینڈ کو آخری حدوں پر جانے کو تیار ہیں۔ یہ آئین کے پاسدار نہیں ہیں ان کی وفاداریاں کہیں اور ہیں یہ جنگ آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے جہاں سر لینے تک بات چلی گئی ہے۔ اگر ایک فریق دوسرے کا سر نہیں لیتا تو دوسرا فریق پہلے کا سر لے لے گا۔ سب کرائم پارٹنر، اس نظام کے بینیفشری ہیں اور آئندہ بھی اس سے مستفید ہونا چاہتے ہیں۔ چھ سالہ باجوہ ڈاکٹرائن اپنی تمام تر شد و مد کے ساتھ رو بہ عمل ہے۔ اگر یہ حکومت قائم رہتی ہے تو بشمول فیض حمید بہت سے لوگ دفعہ چھ کی زد میں ہیں۔ دوسری طرف بندیال اینڈ کمپنی کو یقین ہے کہ الیکشن کی صورت میں ”نئی حکومت“ دو تہائی اکثریت سے آ سکتی ہے۔ نتیجتاً غیر معمولی کارگزاری کے سلسلہ میں اسے تین سال کی ایکسٹینشن مل سکتی ہے اس طرح نہ صرف ان کے جرائم پر پردہ ڈل جائے گا بلکہ ان کے تمام ممد و مددگار بھی بغاوت کے مقدمات یا کورٹ مارشل سے بچ سکیں گے۔

بندیال ملک کا چیف ایگزیکٹو نہیں ہے جو چیف ایگزیکٹو ہے اسے وہ اندھی نفرت میں چیف ایگزیکٹو مانتے نہیں ہیں۔ پہلے ڈیفیکٹو چیف ایگزیکٹیو آرمی چیف ہوا کرتا تھا اب بظاہر ایسا لگتا ہے کہ غیر علانیہ چیف ایگزیکٹیو بندیال ہے۔ فوج میں اس کی باجوہ/ فیض باقیات کی صورت پشت پناہی اونچے درجے پر موجود ہے جہاں سے کمک کسی بھی وقت مل سکتی ہے۔ یہ آئین نہیں ہے جو کسی کو شیر بناتا ہے۔ یہ بندوق کی نالی ہے جو طاقت مہیا کرتی ہے۔ سپریم کورٹ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ فوج میں تقسیم کا واضح خدشہ موجود ہے۔ اگر بندیال کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تو فوج کا ایک دھڑا حکومت کے ساتھ ہو گا جبکہ دوسرا دھڑا بندیال کی پشت پر موجود ہو گا جو بندیال کے ہتھوڑے سے اس حکومت کے سر کو ہی کچل دے گا۔ تاثر یہی موجود ہے۔ بندیال کا پچ سے باہر نکل کر کھیلنا یہی کچھ بتا رہا ہے ورنہ اس کا الیکشن سے کیا لینا دینا۔ یہ الیکشن کمیشن جانے اور اس کا کام جانے۔