دنیا کا سب سے قدیم سوال (مکمل کالم )


 کائنات کی ابتدا کیسے ہوئی ، انتہا کیا ہے ، زندگی کیسے وجود میں آئی ، زمان و مکان کی حقیقت کیا ہے؟یہ دنیا کے قدیم ترین سوالات ہیں ۔ اِن سوالات کا پہلا جواب بچپن میں مذہب کی شکل میں ملتا ہے جسے زیادہ تر لوگ قبول کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ جوانی میں جب تشکیک بڑھتی ہے تو کچھ لوگ فلسفے کی کتابیں کھول لیتے ہیں اور مزید الجھ جاتے ہیں اور کچھ روحانیت میں سکون تلاش کرلیتے ہیں  اور جو باقی  بچتے ہیں وہ بگ بینگ میں پناہ لے لیتے ہیں۔ سائنس، مذہب اور فلسفے کے علاوہ دیومالائی قصوں میں بھی کائنات کی ابتدا سے متعلق بیان ہوا ہے ۔ چینی داستانوں کے مطابق آغاز میں جنت اور دوزخ میں کوئی فرق نہیں تھا،چاروں طرف فقط کثیف مادہ تھا جو ایک بہت بڑے سیاہ انڈے کے گرد پھیلاہوا تھا، اُس انڈے میں چینی دیوتا اٹھارہ ہزار برس تک سویا رہا اور پھر اچانک جب وہ بیدار ہوا تو اُس نے اپنی کلہاڑی اٹھائی اور انڈا توڑ کر باہر نکل آیا ، انڈے کا کچھ حصہ زمین کی شکل کا بن گیا جبکہ جو حصہ ہلکا تھا وہ اوپر کی طرف جا کر آسمان بن گیا،زمین اور آسمان پھر اگلے اٹھارہ ہزار برس تک تین میٹر فی دن کی رفتار سے پھلتے پھولتے رہے۔ہندوستانی کہاوتوں کے مطابق وقت کی ابتدا سے پہلے فقط عدم کا سیاہ سمندر تھا جہاں سے ایک عظیم الجثہ ناگ برآمد ہوا ،اُس ناگ  پر بھگوان وشنو سوار تھے اور وہ سو رہے تھے ، یکایک عدم کے گہرے سمندر سے ایک خوفناک آواز آئی جس سے بھگوان و شنو اُٹھ بیٹھے اور اُ ن کے جسم سے کمل کا پودا برآمد ہوا،اُس پودے میں بھگوان وشنو کا خدمت گار براہما بیٹھا تھا،وشنو نے براہما کو حکم دیا کہ دنیاکو تخلیق کرو اور دنیا وجود میں آگئی ، پھر انہوں نے حکم دیا کہ تمام جانداروں کو تخلیق کرو اور یوں چرند،پرند اور درند وجود میں آگئے۔ذاتی طور پر مجھے چینی داستان زیادہ بہتر لگی  ہے کہ اُس میں کائنات کے پھیلاؤ کا ذکر ہے ، یہ وہ بات ہے جو انسان نے بیسویں میں صدی میں دریافت کی ۔لیکن اِن  دیومالائی قِصّوں میں کائنات کی ابتدا کی جو تصویر کشی کی جاتی ہے اُن میں کوئی نہ کوئی دیوتا پہلے سے جاندار کی شکل میں ضرور موجود ہوتا ہے جس کی اپنی تخلیق کے بارے میں یہ داستانیں کوئی توجیہ پیش نہیں کرتیں۔اسی طرح فلسفہ بھی کائنات کی ابتدا سے متعلق کوئی ٹھوس حقیقت بیان کرنے سے قاصر ہے، البتہ وہ انسانی ذہن کے محدود ہونے اور کائنات کے لامحدود ہونے کی وجہ سے یہ ضرور سمجھاتاہے کہ کیسے ہم حقیقت کاادراک کرنے کے قابل نہیں ، ایمانوئل کانٹ سے بہتر یہ بات کسی فلسفی نے نہیں بتائی۔

 کائنات کی ابتدا اور زندگی کی تخلیق سے متعلق سائنس کے پاس بھی کچھ جوابات ہیں لیکن اِن جوابات کو جاننےسے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سائنس کیسے کام کرتی ہے۔ کسی بھی سائنسی دریافت کی ابتدا مفروضے سے ہوتی ہے ، سائنس دان پہلے ایک بات فرض کرتا ہے اور پھر اُس مفروضے کو لیبارٹری میں یا کسی دوسرے طریقے سے ٹیسٹ کرتا ہے،اگر وہ مفروضہ غلط ثابت ہوجائے تو اُسےرد کردیا جاتا ہے اور اگر وہ درست ثابت ہو تو پھر اُس کی مزید پڑتال  کرکے اسے درست تسلیم کر لیاجاتا ہے تاوتیکہ اُس کے رد میں کوئی ٹھوس ثبوت نہ پیش کر دیاجائے۔اسی وجہ سے ہمیں سائنس دان ہمیشہ اِس انداز میں بات کرتا نظر آئے گاکہ’ اب تک کی دستیاب معلومات کی بنیاد پر یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ۔۔۔‘ کائنات کی مثال لیتے ہیں ،کائنات کی تخلیق کے دو مفروضے تھے، ایک  یہ  کہ کائنات ہمیشہ سے ایسی تھی اوراِس کی کوئی ابتدا نہیں تھی،  یہ مفروضہ سائنس کا ٹیسٹ پاس نہیں کرسکا اِس لیے اسے رد کردیا گیا۔ دوسرا مفروضہ بِگ بینگ کاہے ،اب تک کی سائنسی معلومات کے مطابق کائنات  کا آغاز تیرہ ارب سال پہلےایک عظیم دھماکے بگ بینگ سے ہوا۔اِس مفروضے کی تصدیق مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے ، سائنس دانوں نے کہکشاؤں اور ستاروں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کو ماپ کر یہ نتیجہ نکالا ہےکہ کائنات اگر اِس وقت پھیل رہی ہے تو ماضی میں یقیناً یہ سُکڑی ہوئی ہوگی۔ستاروں کے درمیان فاصلے کو ماپنے کے لیے  ’ریڈ شفٹ‘ تکنیک سے کام لیا جاتا ہے اور اب تک کے تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ یہ تکنیک کافی حد تک درست   جواب دیتی ہے۔ بگ بینگ سے ہی زمان و مکان کی ابتدا ہوئی ، اِس سے پہلے نہ وقت  تھا اور نہ مادہ۔ یہ وہ نکتہ جہاں فی الحال سائنس بھی بےبس ہے، مذہب کا استدلال بھی یہی ہے کہ اگر عدم سے کائنات وجود میں آسکتی ہے تو خدا کیوں نہیں آ سکتا!

 زندگی کی تخلیق سے متعلق سائنس کا جواب نظریہ ارتقا کی صورت میں ہے اور یہ زیادہ ٹھوس ہے ۔اِس کی رُو سے زندگی کی ابتدا خلیے سے ہوئی (یہ ایک علیحدہ بحث ہے کہ خلیہ کیسے پیدا ہوا) اور اربوں سال کے ارتقا سے باقی جاندار پیدا ہوئے۔ یہ بات تسلیم  کرنے میں ہمیں بہت تامل ہوتاہے اور فوراً ہمارا ذہن معترض ہوتاہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ببر شیر، مگر مچھ اور وہیل مچھلی محض ایک خلیے سے وجود میں آگئے ہوں۔اِس کوسمجھنے کے لیے ذہنی تجربہ کرنا ہوگا۔ اپنی ایک تصویر لیں ، اُس تصویر کے اوپر اپنے والد کی تصویر رکھیں،اُس پر اپنے دادا اور اُس کے اوپر اپنے پر دادا کی تصویر رکھیں اور یوں ایک کے اوپر ایک تصویر رکھتے چلیں جائیں حتّیٰ کہ آپ ایسی ساڑھے اٹھارہ کروڑ تصاویر کا مینار بنا لیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ محض تخیلاتی طور پر ہوگا کیونکہ آپ اپنے پردادا سے پیچھے تو جاہی نہیں پائیں گے لیکن اگر کسی طریقے سے ایسا ممکن ہو تو آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ کی اپنی تصویر اور مینار کے اوپر والی اٹھارہ کروڑ پچاس لاکھویں  تصویر میں کتنا فرق ہوگا؟ کیا وہ تصویر آپ سے ملتے جلتے کسی بوڑھے شخص کی تصویر ہوگی؟ جی نہیں۔ وہ ایک مچھلی  کی تصویر ہو گی!اگر ہم تصاویر کے اِس مینار کوکسی الماری میں  پھیلا کر رکھ  دیں اور پھر باری باری ہر تصویر کو اٹھا کر دیکھیں تو ہر تصویر اپنی ہمسایہ تصویر سے ملتی جلتی نظر آئے گی ، جیسے آپ کی تصویر اپنے والد کی طرح ہوگی اور اُن کی اپنے والد کی طرح لیکن اگر ہم یکایک چھلانگ لگا کر ساٹھ لاکھویں تصویر اٹھا کر دیکھیں گے تو وہ اپنے ہمسائے جیسی تو ضرور ہو گی مگر آپ سے اُس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوگا، عین ممکن ہے وہ کسی بندر کی تصویر ہو۔نیور مائنڈ۔ظاہر ہے کہ ہمیں یہ باتیں ماننے میں تامل ہوتا ہے حالانکہ جب ہم روزانہ صبح اٹھ کر اپنا چہرہ آئینے میں دیکھتے ہیں تو کوئی حیرت نہیں ہوتی حالانکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارا ارتقا ہوتا ہے،اسّی برس میں ہم بچے سے بابے بن جاتے ہیں مگر ارتقا کو نہیں مانتے۔

 اصل میں مسئلہ ماننے یا نہ ماننے کانہیں ،مسئلہ یہ ہے کہ ہم محیرالعقول باتوں اور دعوؤں سے متاثر ہوجاتے ہیں، اگر زندگی میں کوئی عجیب و غریب واقعہ رونماہوجائے  جو ہماری کایا پلٹ دے اور ہم اُس کی کوئی مادی توجیہہ تلاش نہ کرسکیں تو لا محالہ ہم اسے قدرت ،قسمت یا مقدر کانام دے کرمطمئن ہوجائیں گے اور اُن عوامل کو لاشعوری طور پر فراموش کردیں گے جواُس واقعے کا سبب بنے۔اسی طرح انسان جذبات اور احساسات کا مجموعہ ہوتا ہے  اور بعض اوقات غیر عقلی فیصلے بھی کر لیتا ہےجبکہ سائنس محض عقل اور ثبوت پر چلتی ہے اِس لیے ضروری نہیں کہ انسان تمام سائنسی توجیہات کو من و عن قبول کر لے، سائنس میکانکی جواب دیتی ہے جس میں جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا جبکہ انسان جذبات کے بغیر محض ایک مشین کا نام  ہے ۔ یہی وہ تضاد ہے جو مذہب کوجنم دیتا ہے ۔

پسِ نوِشت: اِس کالم میں بیان کردہ حقائق اور معلومات  رچرڈ ڈاکنز کی کتاب The Magic of Realityسے لیے گئے ہیں ۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 497 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments