تجارت، فوج اور سیاسی عدم استحکام


آج سے چند صدیاں پہلے دنیا میں بادشاہی نظام تھا ہر بادشاہ کے پاس فوج اور خزانہ ہوتا تھا جس کے ذریعے سے وہ اپنی طاقت اور شان و شوکت کا اظہار کرتا تھا۔ طاقتور بادشاہ کمزور پر حملہ آور ہوتا اور اسے شکست دے کر اس کے علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیتا۔

پھر وقت بدلا بادشاہی نظام کی جگہ جمہوری نظام آ گیا جس کے تحت جدید ریاست کا تصور پیدا ہوا۔ جدید ریاست کے قیام اور استحکام کے لئے فوج اور خزانہ ضروری تھا۔ لہذا ہر ریاست نے اپنی فوج بنائی اور خزانہ بھرنے کے لئے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینا شروع کر دیا۔

اٹھارہویں صدی کے وسط میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا جس کے تحت انگلینڈ میں کارخانے قائم کیے گئے۔ ان کارخانوں میں اس دور کی جدید ٹیکنالوجی استعمال ہوئی جس کے نتیجے میں ان کارخانوں سے زیادہ پیداوار حاصل ہوئی۔ پہلے انگلینڈ، پھر فرانس، پھر بیلجیم اور اس کے بعد جرمنی میں کارخانے قائم ہوئے۔

سمجھنے کے لئے ہم صابن کی مثال لے لیتے ہیں۔ کہ جب صابن بغیر مشینوں کے بنایا جاتا تھا تو اس کی ٹکیوں کی اتنی ہی مقدار بنتی تھی جو کہ انگلینڈ میں بک جاتی تھی۔ مگر جب کارخانے میں مشینوں کے ذریعے صابن بنا تو اس کی لاکھوں ٹکیاں بنی جن کو بیچ کر منافع کمانے کے لئے انگلینڈ ایک چھوٹی مارکیٹ تھی۔ پھر اس صابن کو مختلف کمپنیوں نے بحری جہازوں میں رکھا اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں جا کر بیچا اور وہ کمپنیاں منافع لے کر واپس آئیں۔

تجارت کو فروغ دینے کے لئے ہر صنعتی ملک نے نئی منڈیوں کی تلاش شروع کر دی۔ بحری تجارت نے زور پکڑا تو ان بحری تجارتی جہازوں کو لوٹنے والے بحری قزاق بھی پیدا ہو گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ تحفظ کے لئے ان تجارتی بحری جہازوں پر توپیں لگا دی گئیں اور ان کو چلانے والے بندوق بردار سپاہی بھی رکھ لئے گئے جن کا کام لٹیروں کے حملوں کی صورت میں تجارتی بحری جہازوں کا دفاع ہوتا تھا۔ اسی لئے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بحری جہاز مال تجارت لے کر جب ہندوستان آئے تو ان کے بحری جہازوں پر فوجی اور اسلحہ موجود تھے۔

پھر جب انہوں نے مغل شہنشاہ کی اجازت سے ساحلی علاقوں میں اپنی تجارتی کوٹھیاں تعمیر کیں تو ان کی حفاظت کے لئے فوج بھی رکھی اور بعد میں اسی فوج کو بڑھا کر ہندوستان کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی انسانی تاریخ میں وہ واحد کمپنی تھی جس کی اپنی فوج تھی اور اس فوج کا کام ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارتی سرگرمیوں کو تحفظ دینا تھا۔

آپ سلطنت روما، سلطنت عثمانیہ، ہندوستان، یورپ کی جدید ریاستوں یا امریکہ کی تاریخ کا جائزہ لیں تو واضح ہو جائے گا کہ ہر دور میں فوج کا کردار فتوحات کے ساتھ تجارتی گزرگاہوں کو محفوظ بنا کر تجارت کو فروغ دینا بھی تھا کیونکہ محفوظ تجارت اور منڈیوں کے بہتر انتظام سے ہی ریاست دولت حاصل کرتی تھی۔

آج اس جدید دنیا میں کسی ریاست کی طاقت کو ناپنا ہو تو اس کے لئے اس کے سیاسی، معاشی، دفاعی اور تعلیمی نظام کو دیکھا جاتا ہے۔ اس جدید دنیا میں فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا مقصد جنگ لڑنا نہیں ہوتا بلکہ ریاست کی ترجیحات کو دوسروں کے لئے قابل قبول بنانا اور برابری کی بنیاد پر دنیا کے ساتھ سفارتی، سیاسی اور تجارتی تعلقات استوار کرنا ہوتا ہے۔ کسی ملک کی خارجہ پالیسی کا موثر پن اس ملک کی فوجی طاقت پر منحصر ہوتا ہے۔

پاکستان میں گوادر بندرگاہ جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے اگر گوادر تک بحری سفر محفوظ نہیں ہو گا تو تجارتی جہاز گوادر نہیں آئیں گے اور پاکستان کو معاشی فوائد حاصل نہیں ہوں گے اس لئے میری ٹائم سیکیورٹی کا نظام بنانا ناگزیر ہے جو کہ نیوی کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔ سی پیک کے نتیجے میں بننے والی تجارتی گزرگاہ اگر افغانستان سے ہوتے ہوئے سینٹرل ایشیا کی ریاستوں تک چلی جائے تو اس شاہراہ پر تجارت اسی وقت فروغ پا سکتی ہے اگر امن قائم ہو اور قیام امن کے لئے دفاعی اداروں اور پیرا ملٹری فورسز کی شمولیت کی ضرورت ہو گی۔

افغانستان میں قیام امن جنوبی، جنوب مشرقی اور سنٹرل ایشیا کے درمیان تجارت کو فروغ دینے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کی معاشی پالیسیز پر انٹیلی جنس اداروں اور فوج کے اثرات ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہو جائیں گے۔ یقیناً جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کی تمام ریاستیں اپنے نظام کے اعتبار سے جدید ریاستیں ہیں جن کی آبادی بھی دنیا کے بیشتر ملکوں سے زیادہ ہے۔ اس قدر زیادہ آبادی کو پالنے کے وسائل کا انتظام کرنے کے لئے ان ریاستوں کو جہاں اپنی زرعی و صنعتی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے وہیں خطے میں امن قائم کر کے تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، تجارت کے لئے امن اور امن کے لئے مضبوط دفاعی نظام۔

موجودہ حالات میں خطے کی جن ریاستوں میں سیاسی عدم استحکام ہو گا وہاں فوج اور انٹیلی جنس اداروں کا ریاستی امور میں کردار پہلے سے بڑھ جائے گا تاکہ سیاسی عدم استحکام سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کیا جا سکے۔ اس لئے جنوبی، جنوب مشرقی اور وسطی ایشیا کی جن ریاستوں میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گیا ہے یا کر دیا گیا ہے اس سے باقی ریاستیں بھی متاثر ہوں گی۔ اس غیر یقینی صورتحال کے بعد ہر ریاست دفاعی اخراجات بڑھانا شروع کر دے گی، جنگ کے خطرات بڑھ جائیں گے، تجارت کو فروغ دے کر غربت میں کمی لانے کے اہداف حاصل کرنا ناممکن ہو جائیں گے۔ خطے میں ترقی کی بجائے غربت بڑھنا شروع ہو جائے گی۔ اس لئے پاکستان میں سیاسی و معاشی عدم استحکام صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ ان تمام ریاستوں کا مسئلہ بھی ہے جو اس سے متاثر ہو سکتیں ہیں۔ پورے خطے کے وسیع تر مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments