کیا شراب نوشی نہ کرنے والوں میں بھی جگر کی بیماری بڑھ رہی ہے؟


صحافی رام کرپال سنگھ
صحافی رام کرپال سنگھ
’میں معمول کے مطابق ٹیسٹ کرتا رہتا تھا۔ مجھے جگر کی کوئی شکایت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ اگرچہ رپورٹ میں انزائمز میں اضافہ نظر آتا تھا لیکن پھر جگر کی رپورٹ میں الفا فیٹوپروٹین (اے ایف پی) میں اضافہ دیکھا گیا۔‘

یہ سینیئر صحافی رام کرپال سنگھ کے الفاظ ہیں جنھیں سنہ 2013 میں پتا چلا کہ انھیں جگر کا کینسر ہے۔

وہ بتاتے ہیں: ’الفا فیٹوپروٹین میں اضافے کے اشارے کے بعد، میں نے اینڈوسکوپی کروائی جس سے معلوم ہوا کہ میرے جگر میں گانٹھیں ہیں۔ ڈاکٹر نے علاج کیا اور ان گانٹھوں کو جلا دیا گیا۔ لیکن پھر جگر میں نئی گانٹھیں آئیں۔ اس کے بعد پی ای ٹی سکین’ کرایا تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ لیور ٹرانسپلانٹ (جگر کی پیوند کاری) کروا لیں۔ مجھے میری بھتیجی نے جگر کا عطیہ دیا۔‘

جگر انسانی جسم کا سب سے بڑا عضو سمجھا جاتا ہے اور جسم کے وزن کا دو فیصد ہوتا ہے۔

جگر

جگر کا کام

میدانتا انسٹی ٹیوٹ آف لیور ٹرانسپلانٹیشن کے صدر اور چیف سرجن ارویندر سنگھ سون بتاتے ہیں کہ جگر جسم کا ایک ایسا عضو ہے جو سب سے زیادہ یعنی 500 کام انجام دیتا ہے۔

ڈاکٹر ارویندر کے مطابق جگر ایک ایسا اہم عضو ہے جو ہارمونز بناتا ہے، یعنی یہ ایک سٹور ہاؤس یا ڈی ٹوکسیفکیشن پلانٹ ہے اور یہ جسم سے فاضل اشیاء کو خارج کرتا ہے۔ یہ جسم کا مرکزی عضو ہے اور اگر جگر صحت مند نہ ہو تو جسم کام نہیں کر سکے گا۔

انسٹی ٹیوٹ آف لیور اینڈ بلیری سائنسز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیو سرین کہتے ہیں: ‘تقریباً تین دہائیاں پہلے تک ہارٹ اٹیک، ذیابیطس اور بی پی جیسی بیماریاں خطرناک سمجھی جاتی تھیں۔ لیکن اب صورتحال بدل گئی ہے اور اب انڈیا میں یا لوگوں میں جگر کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔’

نیمش مہتا

نیمش مہتا

جگر کی بیماری

ڈاکٹروں کے مطابق اس سے قبل ہیپاٹائٹس بی اور سی کی وجہ سے جگر کی خرابی کے زیادہ تر کیسز سامنے آتے تھے تاہم گزشتہ دہائی میں اس میں کچھ تبدیلیاں بھی آئی ہیں۔

ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ بالغوں میں جگر کے چار بڑے مسائل دیکھے جاتے ہیں۔ یہ ہیں: الکحلک لیور کی بیماری زیادہ شراب پینے کی وجہ سے ہوتی ہے، غیر الکوحلک فیٹی لیور کی بیماری ان لوگوں میں ہوتی ہے جن کو ذیابیطس، موٹاپا اور خراب کولیسٹرول ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تیسرا ہیپاٹائٹس بی اور چوتھا ہیپاٹائٹس سی ہے۔

دہلی کے سر گنگا رام ہسپتال کے لیور ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر نیمیش مہتا کا کہنا ہے کہ اب ملک میں ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین آچکی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بی اور سی کا علاج ممکن ہے جس کی وجہ سے ان وائرسز کے باعث جگر کے فیل ہونے کے کیسز میں کمی آئی ہے۔ حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ شراب کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے اور یہ جگر کی بیماری کی ایک بڑی وجہ بنی ہوئی ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’پچھلی دہائی میں الکوحل کے بغیر سٹیٹوہیپاٹائٹس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شراب بھی نہیں پیتے لیکن یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ لیور سروسس میں مبتلا ہیں۔ ایسے مریضوں میں جگر کی خرابی کے کیسز ہیں اور انھیں ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے۔‘

فیٹی یا فربہ جگر

ڈاکٹر شیو سرین بتاتے ہیں کہ اگر جگر میں چربی ہو تو اس میں انسولین کا اثر کم ہو جاتا ہے اور زیادہ انسولین پیدا ہوتی ہے، آہستہ آہستہ پینکریاز یا لبلبہ کمزور ہو جاتا ہے اور ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ سائنس ہمیں دو دہائیوں سے بتا رہی ہے کہ ذیابیطس جگر کی بیماری ہے۔

ڈاکٹر نیمیش مہتا اس کی بنیادی وجہ ذیابیطس میلیٹس بتاتے ہیں یعنی وہ لوگ جنھیں زیادہ ذیابیطس ہے۔ دوسری جانب جن لوگوں میں موٹاپا زیادہ ہوتا ہے، ایسے مریض فیٹی لیور کا مسئلہ لے کر آتے ہیں۔

ڈاکٹروں کے مطابق فیٹی لیور کی تین قسمیں ہیں گریڈ ون، گریڈ ٹو اور تھری۔ اگر مریض فیٹی لیور کا علاج نہ کروائے تو آگے جا کر یہ لیور سروسس کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

سروسس کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر نیمیش مہتا کا کہنا ہے کہ ’جگر کے خلیے میں فائبروسس ہو جاتا ہے یا آسان الفاظ میں یہ خراب ہونے لگتے ہیں اور ایسی صورت حال میں کینسر کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔‘

سینیئر صحافی رام کرپال سنگھ میں بھی ابتدا میں کوئی علامت نہیں دیکھی گئی لیکن کچھ ٹیسٹ کے بعد معلوم ہوا کہ انھیں جگر کا کینسر ہے۔

جگر کا کینسر کوئی علامات ظاہر نہیں کرتا، لیکن خون میں الفا فیٹوپروٹین (اے ایف پی) کے ٹیسٹ سے پتہ چل سکتا ہے کہ ٹیومر ہے یا نہیں۔ ایسی صورتحال میں ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ اگر کسی کو جگر کی بیماری ہے تو اسے ہر تین سے چھ ماہ بعد الٹراسونگرافی کرانی چاہیے اور اے ایف پی کا ٹیسٹ بھی کرانا چاہیے۔

موٹاپا

موٹاپا ایک بڑی وجہ ہے

ساتھ ہی ڈاکٹر یہ بھی بتاتے ہیں کہ بعض اوقات علامات نظر نہیں آتیں اور یرقان ہونے لگے تو یوں سمجھیں کہ جگر کافی حد تک خراب ہو گیا ہے۔

دہلی کے رہنے والے ڈاکٹر وشویش مشرا کو 2022 میں معلوم ہوا کہ ان کے والد کو سروسس ہے۔

وہ جذباتی انداز میں کہتے ہیں: ‘لگتا تھا کہ میرے والد اپنے حواس کھو چکے ہیں۔ جب ان کا ٹیسٹ کرایا گیا تو انھیں جگر کے سرروسس کے بارے میں معلوم ہوا اور حالت اتنی خراب تھی کہ انھیں لیور ٹرانسپلانٹ کی ضرورت تھی۔’

وہ کہتے ہیں: ‘جب میں نے اپنا جگر دینے کی پیشکش کی تو میں نے ٹیسٹ کرایا اور پتہ چلا کہ مجھے فیٹی لیور ہے۔ میں نے ڈاکٹر سے ایک ماہ کی مہلت مانگی۔ میں نے بہت زیادہ ورزش کی اور سخت غذا کی پابندی کی جو زیادہ تر پھولی کچی غذا پر مشتمل تھی۔ ایک ماہ کے بعد مزید ٹیسٹوں کے بعد، میں اپنا جگر اپنے والد کو دینے میں کامیاب ہو گیا۔’

وشویش مشرا نے بتایا کہ ان کی بہن چاہتی تھی کہ والد کو ایک مردہ شخص کا جگر دیا جائے اور وہ اپنا جگر نہ دیں۔

اس کے ساتھ ہی وہ جگر کے عطیہ سے متعلق کئی غلط فہمیوں کے بارے میں بھی بتاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد کی ایسی حالت نہیں تھی کہ وہ کسی مردہ شخص کے جگر کا انتظار کرتے، اس لیے انھوں نے اپنے والد کو جگر عطیہ کر دیا۔

اعضاء کے عطیہ سے منسلک غلط فہمیاں

وشویش مشرا کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو صحت یاب ہونے میں ڈھائی مہینے لگے۔ ڈاکٹروں نے ان کے لیے کچھ خوراک بھی تجویز کی جس پر انھوں نے عمل کیا۔

لیکن وہ ناراض دکھائی دیتے ہیں کہ لوگ انسانی اعضاء کے عطیہ کے لیے آگے کیوں نہیں آتے؟

اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں ہر سال تقریباً دو لاکھ افراد جگر کی بیماری کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔ جبکہ صرف 1,800 کے قریب ہی جگر کی پیوند کاری کروانے کے قابل ہیں۔

لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے مردہ شخص یا مریض کے کسی رشتہ دار یا قریبی رشتہ دار کا جگر بھی لیا جا سکتا ہے۔ لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے جگر کا ایک حصہ ڈونر کے جسم سے نکال کر مریض میں ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر شیو سرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں دو لاکھ لوگوں کو لیور ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے لیکن لوگ اعضاء کے عطیہ کے لیے آگے نہیں آتے۔

وہ بتاتے ہیں کہ لیور ٹرانسپلانٹ کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جیسے کہ اگر لیور ٹرانسپلانٹ کیا جائے تو مریض کو کوئی نئی بیماری لگ جائے گی۔ حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ جگر کا خیال رکھنا ضروری ہے جیسا کہ مریض کو ٹرانسپلانٹ کے بعد دوبارہ شراب پینا شروع نہیں کرنا چاہیے اور موٹاپے کو دوبارہ بڑھنے نہیں دینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں موٹاپے کا بڑھتا ہوا مسئلہ جو وبا کی شکل اختیار کر سکتا ہے

موٹاپے سے بچاؤ کا بہترین طریقہ کیا ہے؟

وہ مشورہ دیتے ہیں: ‘ہندوستان میں اعضاء کا عطیہ بہت کم ہوتا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی کسی اور کے جسم میں جاری رہے، تو اپنا عضو عطیہ کرکے اپنا ڈی این اے عطیہ کریں۔ آپ کے جگر کے ذریعے آپ کا ڈی این اے اس میں جائے گا۔ اپنی وصیت میں لکھنا یقینی بنائیں کہ میں کوئی عضو عطیہ کرنا چاہتا ہوں یا چاہتی ہوں۔’

ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ انسان کو جگر کے عطیے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جیسے بال دوبارہ اگتے ہیں ویسے ہی جگر بھی دوبارہ اپنی اصل حالت میں واپس آ جاتا ہے۔ جگر جسم کا ایک ایسا حصہ ہے جو خود کو دوبارہ بنانے کی کوشش کرتا ہے اور 70 سے 80 فیصد تک خراب ہونے پر ہی متاثر نظر آتا ہے، ورنہ یہ اپنا کام کرتا رہتا ہے۔

ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ لیور ٹرانسپلانٹ کی کامیابی کی شرح 90-95 فیصد ہے بشرطیکہ یہ وقت پر کیا جائے۔

آسان الفاظ میں یوں سمجھیں کہ اگر کسی شخص کا جگر ایک کلو ہو اور اس میں سے 400 گرام مریض کو دے دیا جائے اور 600 گرام ڈونر میں رہ جائے تو چند ماہ میں عطیہ کرنے والے اور مریض دونوں میں جگر ایک کلو ہو جائے گا۔

چربی

چکنائی کا استعمال کم کریں

جگر کو صحت مند کیسے رکھا جائے؟

اگر خاندان میں کسی کو ذیابیطس یا بی پی ہے تو اپنی صحت کا خیال رکھیں۔

روزانہ ورزش کریں۔

اپنے وزن کو کنٹرول کریں۔

چکنائی والی خوراک – تیل، گھی، مکھن کا استعمال نہ کریں یا کم کریں۔

سونے سے تین گھنٹے پہلے کھائیں۔

جگر میں کوئی مسئلہ ہو تو طبی معائنہ کرائیں۔

سینیئر صحافی رام کرپال سنگھ 71 سال کے ہیں اور کھانے پینے کا خاص خیال رکھتے ہیں اور ان کی صحافت جاری ہے۔

دوسری جانب وشویش مشرا خوش ہیں کہ ان کے والد عام زندگی گزار رہے ہیں اور ان کے ساتھ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments