پروجیکٹ عمران، نواز شریف اور اسٹبلشمنٹ


جب کوئی طوفان پوری شدت کے ساتھ چل رہا ہوں تو اس کے سامنے آنے والی ہر چیز طوفان کی نظر ہوجاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل جاپان میں سونامی آیا اس کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہے۔ پاکستان میں بھی کچھ عرصہ قبل پی ٹی آئی کی شکل میں ایک سونامی آیا جو اپنے ساتھ پورے ملک کو ماسوائے سندھ بہا کر لے گیا۔ سندھ کے وڈیروں کے پاؤں مضبوط تھے وہ جم کر اپنی جگہ کھڑے رہے۔ پھر جیسے جیسے وقت گزرا طوفان کی شدت میں کمی آتی گئی اسی طوفان میں پی ٹی آئی نے بہنا شروع کر دیا۔

جس محنت سے عمران پروجیکٹ لانچ ہوا اور پاء تکمیل تک پہنچا اس سے کہی زیادہ محنت کے ساتھ اس پروجیکٹ کو کلوز کرنا پڑ رہا ہے۔ عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس سے نکلنے کے بعد مزید خطرناک ہونے کا اشارہ دیا تھا۔ پھر وہ اتنے خطرناک ثابت ہوئے کہ اپنے ساتھ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو بھی بہا کر لے گئے۔ اس طوفان میں اتنی شدت تھی کہ وہ ملکی معیشت بھی بہانے کے در پر تھا اس کی شدت سے تاحال معیشت ہچکولے کھا رہی ہے۔ ابھی مزید پروجیکٹ عمران کے آفٹر شاک آئیں گے۔ کیونکہ اس طوفان نے جو تباہی مچائی اس کا ازالہ اگلے پانچ سال تک پاکستان کو ادا کرنا پڑے گا۔

2017 میں ترقی کی گاڑی جو ایف 16 کی رفتار سے چل رہی تھی اب اس کا پہیہ جام ہو گیا ہے۔ شہباز شریف دھکا سٹارٹ گاڑی کو چلانے کی اپنے طور پر بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔ سعودی عرب، یو اے ای اور چین کے فنانسنگ کی گارنٹیوں کے بعد قوی امکان ہے کہ عید کے بعد پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ فائنل ہو جائے گا۔ اگلے مرحلے میں پاکستان کو قطر کی جانب سے بھی کوئی ریلیف پیکج ملنے کا امکان ہے۔

آئی ایم ایف کے معاہدے میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ امریکہ اور چین کی کولڈ وار ہے۔ کیونکہ امریکہ آئی ایم ایف کا سب سے بڑا پارٹنر ہے اور آئی ایم ایف اس کی مدد کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھاتا۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان اپنا مکمل انحصار چین پر کرنے کی بجائے مجھ پر کرے۔ جبکہ امریکہ کا ماضی کبھی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے حوصلہ افزاء نہیں رہا اس کے مقابلے میں چین نے پاکستان میں ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ کے تحت سی پیک کی شکل میں 50 ارب ڈالر سے زائد کا پروجیکٹ شروع کیا ہوا ہے جو کہ پاکستان کا نقشہ کافی حد تک تبدیل کرچکا ہے۔

اس پروجیکٹ کے تحت بننے والی موٹرویز پوری قوم کے سامنے ہیں جبکہ گوادر پورٹ میں چین کا دن رات جاری کام بھی امریکہ کو بری طرح کھٹک رہا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ دنیا کی ان اہم ترین بندرگاہوں میں شامل ہے جہاں پانی کی گہرائی بیس میٹر سے زائد ہے۔ اتنی گہرائی ہونے کا سب سے بڑا فائدہ بڑے بحری جہازوں کو ہوتا ہے اس کے لئے بندرگاہ پر خصوصی پورٹ نہیں بنانا پڑتی۔ جہاں کم گہرے پانی والی بندر گاہیں وہاں جہاز پورٹ سے کافی دور کھڑے ہوتے ہیں اور ان سے سامان چھوٹی کشتیوں کے ذریعے بندرگاہ تک لایا جاتا ہے۔

گوادر پورٹ جب مکمل فنکشنل ہوگی تو پاکستان کو اس سے سالانہ 15 سے 20 ارب ڈالر تک منافع حاصل ہو گا۔ یہ تکمیل کے حتمی مراحل میں ہے۔ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں پاکستان میں بڑے اور میگا پروجیکٹ مکمل ہوئے۔ اس لیے اسٹبلشمنٹ کے سنجیدہ حلقوں میں نواز شریف کا ایک اپنا الگ مقام ہے وہ نواز شریف کے طرز حکومت سے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ اس کی بھی چار بڑی وجوہات ہیں۔

پہلی :نواز شریف جب آتا ہے فوج کو دفاعی طور پر مضبوط کرتا ہے، دوسری:پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری لاتا ہے۔ تیسری:پاکستان تیزی سے ترقی کرنا شروع کر دیتا ہے۔ چوتھی:پاکستان کے عوام خوشحال ہوتے ہیں۔ اگر نواز شریف راحیل شریف کو توسیع دے دیتے تو نواز شریف آج بھی پاکستان کے وزیراعظم ہوتے۔ یہ بات کیپٹن صفدر اور نواز شریف کے قریبی ساتھی و سینیٹر عرفان صدیقی بھی کہہ چکے ہیں جبکہ جنرل باجوہ سے منسوب ایک انٹرویو میں بھی انہوں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف نے نواز شریف سے تین بار باقاعدہ توسیع مانگی تھی۔ آج بھی پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نواز شریف کی طرف دیکھ رہی ہے۔ کیونکہ نواز شریف میں پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کی قابلیت موجود ہے۔

اسٹبلشمنٹ نواز شریف پر انحصار اس لیے کرتی ہے کیونکہ نواز شریف کے سعودی عرب، عرب امارات، قطر اور چین کے ساتھ ذاتی نوعیت کے تعلقات ہیں۔ پاکستان آج بھی انہی چار ممالک کے تعاون سے چل رہا ہے۔ پاکستان کے معاشی حالات آج جس نہج کو پہنچ چکے ہیں اب اگلے دس سال کوئی حکومت مسلسل رہے گی تو شاید 2017 والی ترقی کا سفر دوبارہ شروع ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments