بچپن کی یادیں اور عید مبارک ہو!


مسلم دنیا کے لیے عید منانا ایک نہایت خوشی کا تہوار ہوتا ہے۔ عید الفطر ہو یا عید البقر، بڑوں کے لیے یہ ایک اسلامی فریضے کی حیثیت رکھتی ہے، جب کہ بچوں کے لیے عیدین کے ایام یادگار اور مسحورکن لمحات ہوا کرتے ہیں۔ رمضان المبارک میں خاندان کے سربراہ اور عورتوں کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ ان کو روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ سحری اور افطار کے لیے دھوپ اور سردیوں میں روزی روٹی کمانا ہوتا ہے اور عید کی تیاری بھی کرنی ہوتی ہے۔

اگرچہ خاندان کے سارے افراد کے لیے نئے کپڑے، جوتے، واسکٹ، ٹوپی، پگڑی، رومال اور چادر وغیرہ خریدنا ایک مشکل مالی امر ہوتا ہے، لیکن عید کے دن سارے خاندان، سارا محلہ اور سارے گاؤں کا نئے اور زرق برق لباسوں میں ملبوس ہونا کسی جنت نظارے سے کم نہیں ہوتا۔ عید کے موقع پر بازاروں اور قصبوں میں بڑے بڑے اسٹال لگائے جاتے ہیں، پارکوں میں میلے منعقد کیے جاتے ہیں، عورتیں گھروں کی خوب تزئین و آرائش کرتی ہیں، بچھڑے دوست ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں، ناراض دوستوں کی آپس میں صلح کرائی جاتی ہے اور محبوب کا وصال بھی ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بچپن کی عید اپنی مثال آپ ہوتی ہے۔ بچوں کو ہر قیمت پر نئے کپڑے، جوتے، ٹوپی، کھلونے اور جیب خرچ دلانا ہوتا ہے۔ بچے غربت، مہنگائی، سیاسی انتشار اور عالمی سازشوں سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ ہم پر بچپن دوبارہ نہیں آتا کہ عید سے مزید محظوظ ہو سکیں، مگر بچوں کے لیے خریداری اور محتاجوں کی مدد کرنے سے ہماری عید کا مزا دوبالا ہو سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب چچا جان بازار سے ہمارے لیے نئے کپڑے، جوتے اور ٹوپی لاتے اور ہم سب بہن بھائی گھر سے باہر سارا دن ان کی آمد کا بے صبری سے انتظار کرتے۔

چچا جان کسی دھاگے سے ہمارے پاؤں کا ناپ لے کر ربڑ کے جوتے لاتے اور ہم خوش رہتے۔ ویسے بچوں کو بازار لے جاکر ان کی مرضی کی خریداری کرانا اور چمڑے کے جوتے خریدنا، کم سے کم یہ عیاشی اس وقت نہیں ہوا کرتی تھی۔ میری بدنصیبی دیدنی تھی کہ ہمیشہ میرے جوتے لمبے اور ٹوپی بڑی ہوا کرتی تھی۔ لمبے جوتوں کی وجہ سے میرے لیے دوڑنا یا تیز چلنا دشوار ہوتا تھا۔ اسی طرح میری دیوہیکل ٹوپی بھی میرے چھوٹے سر پر ہمیشہ اپنے مدار کے گرد گھومتی تھی۔

وقفے وقفے سے مجھے اپنی ٹوپی کی نوک پلک درست کرنا پڑتا تھا۔ البتہ کپڑے امی جان بہت سلیقے سے گھر پر ہی سلواتی تھی۔ امی جان کے ہاتھوں کے سلے ہوئے کپڑے، چچا جان کا اندازے پر خریدے ہوئے لمبے جوتے اور بڑی بے ہنگم ٹوپی پہننے سے نہ کبھی شرم محسوس ہوئی اور نہ کبھی حوصلہ شکنی ہوئی۔ کیوں کہ یہ صرف میری کہانی نہیں تھی، بل کہ یہ گاؤں کے ہر بچے کی کہانی تھی۔

عید کے نئے کپڑے، جوتے اور ٹوپی بار بار دوسروں کو دکھانے پر اکثر میلے پڑ جاتے اور بسا اوقات امی جان سے مار بھی کھاتے۔ چاند رات کی خوشی دیدنی ہوا کرتی تھی۔ ہمارے پورے محلے کو کل عید ہونے یا نہ ہونے کی خبر چچا جان اپنے فلپس ریڈیو کے ذریعے دیتا۔ مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی ضرورت ہمیں صرف عید کے موقع پر پیش آتی تھی۔ جس دن ہماری توقع کے برعکس عید کے بجائے پھر روزہ ہوتا، اس دن مفتی صاحب کی خیر نہیں ہوتی تھی۔

چاند رات اکثر بہت طویل ہوا کرتی تھی۔ اس رات کو میں اپنے نئے کپڑے، جوتے اور ٹوپی اپنے سرہانے رکھ لیا کرتا تھا اور بار بار کھڑکی سے باہر جھانکتا کہ جلد سویرا ہو جائے۔ میں چاند رات کو خوب مہندی رچاتا اور بار بار اس کی خوش بو سونگھ لیتا۔ میں نے اپنے دوستوں سے سنا تھا کہ عید کے دن حضرت خضر علیہ السلام ہر انسان سے ملتا ہے اور ان سے جو دعا مانگی جاتی ہے وہ فوراً قبول ہوتی ہے۔ دوستوں نے حضرت خضر علیہ السلام کی نشانی یہ بتائی تھی کہ ان کے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے میں ہڈی نہیں ہوتی۔

یوں عید کے دن جس سے مصافحہ کرتا، اس کا انگوٹھا ضرور چیک کرتا۔ جوں ہی صبح ہوتی، مہندی سے ہاتھ دھو کے نئے کپڑے، لمبے جوتے اور دیوہیکل ٹوپی پہن کے والد صاحب کے ساتھ مسجد جاتا۔ میں بچپن میں صرف دو مواقع پر مسجد جاتا: ایک عید کی صبح کو اور دوسرا عنکبوت کی عشاء کو۔ عید کی صبح مسجد معطر ہوا کرتی تھی۔ نماز کے بعد امام صاحب زکوٰۃ کے فضائل اور امام مسجد کے ساتھ محلے والوں کی سردمہری پر خوب تقریر کرتے اور آخر میں احتجاجاً مستعفی ہونے کا اعلان بھی کرتے۔

نماز اور تقریر کے بعد لوگ گلے ملا کر ایک دوسرے کو عید مبارک باد دیتے۔ اس موقع پر ایک دوسرے سے ناراض لوگوں کی صلح بھی کرائی جاتی تھی۔ عید کی دوپہر کو ایک اور رسم ”پینڈہ“ ہوا کرتی تھی، جس میں مسجد کے حجرے میں سارے گاؤں والے اکٹھے کھانا کھاتے اور گاؤں کو درپیش مسائل کا تفصیلی جائزہ لے کر ان کا حل نکالتے۔ مگر بدقسمتی سے اس موقع پر گاؤں کا چرواہا بھی شکایات کا انبار لگا کر مستعفی ہوجاتا۔ یوں جب پورا گاؤں انتظامی بحران کا شکار ہوتا تو ایک اور نئی کمیٹی تشکیل دی جاتی۔

بچوں کی اپنی الگ دنیا ہوا کرتی تھی۔ ہم محلے کے سارے بچے اور بچیاں ہاتھوں میں بڑے بڑے پلاسٹک کے تھیلے لے کر گھر گھر عیدی اکٹھا کرنے جاتے اور عصر کو گھر لوٹتے۔ عیدی میں اکثر پاپڑ، بتاشے، ریوڑی، چھوارے، بسکٹ، کشمش، نمکو اور چنے ملتے، جب کہ انڈے، اخروٹ، بادام، پستہ اور کاجو بہت کم ملتے تھے۔ ایک دفعہ ایک بڑھیا نے مجھے عیدی میں ایک انڈا دیا۔ جس کو میں نے تھیلے کے بجائے جیب میں رکھنے پر ترجیح دی۔ بدقسمتی سے وہ انڈا نیم پختہ تھا اور میری جیب ہی میں ٹوٹ گیا، جس سے میرے نئے کپڑے خوب میلے ہو گئے اور میں آدھے رستے سے پلٹ کر واپس گھر آیا۔ اور پھر ہمیشہ کے لیے عیدی اکٹھا کرنے کے لیے گھر گھر جانے کی روایت کو الوداع کہہ دیا۔

عید کے موقع پر عورتیں داماد، بھائی، بہنوئی، چچازاد اور دیگر قریبی رشتہ داروں کو رنگ برنگے دھاگوں اور سرخ، سبز اور زرد دانوں سے خوب صورت ناڑے یا ازار بند اور اپنی سہیلیوں کو رنگین پراندے بنا کر دیتی ہیں۔ جس کے بدلے میں ان کو بہ طور عیدی نقد رقم ملتی ہے۔ خدانخواستہ اگر کسی داماد، بہنوئی وغیرہ کو عید کے موقع پر ناڑا نہیں ملتا، تو وہ باقاعدہ اس کج روی کے خلاف شکایت کرنے میں حق بجانب ہوتا تھا۔ والدین اور بھائیوں کی طرف سے ان کی شادی شدہ بیٹیوں اور بہنوں کو اب تک تواتر سے عیدی اور مٹھائی دی جاتی ہے۔ عید کے موقع پر عورتوں کا میکے جانا بھی ایک شان دار روایت بن گیا ہے۔ عید کے دن اگر جیب میں نئے کرنسی نوٹ نہ ہوں تو خودی اور مروت پر آنچ آ سکتی ہے۔ میں خود ایسے مواقع پر خودی کے تحفظ کے لیے ہمیشہ گھر میں محصور رہتا تھا۔

بڑی عید کا بھی اپنا لطف ہوا کرتا تھا۔ بیرونی دنیا کا مجھے علم نہیں، البتہ ہم چھوٹی عید کے کپڑے، جوتے اور ٹوپی وغیرہ بڑی عید کے لیے چھپا کے رکھتے تھے۔ کیوں کہ ہر عید پر نئی خریداری کی ہم استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ میرے والد صاحب اللہ کے اتنے برگزیدہ تھے کہ اللہ میاں نے ان کو قربانی کی فرضیت سے مستثنٰی کیا تھا، مگر ہمیں کبھی اس کا قلق نہ رہتا۔ کیوں کہ عید کی شام تک ہمارے گھر پر آدھے گاؤں کی قربانی کی سری، پائے اور اوجھڑی کا اسٹال سا لگ جاتا۔ اس غیر معمولی ذخیرے کو دیکھ کر ہماری خوشی کی انتہا نہ رہتی، مگر امی جان قطعاً خوش نہ تھی اور والد صاحب گم سم رہتے۔ والد صاحب سے جب بھی عیدی مانگتے تو جواب دیتے کہ میرے پاس سرسایے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔

چچا جان کی عمر لمبی ہو، وہ ہماری ہر ضرورت پوری کرنے کی بھرپور کوشش کرتے تھے، مگر ایک تنخواہ میں پورے خاندان کی ڈھیر ساری ضروریات پورا کرنا محال تھا۔ رفتہ رفتہ ہم بچپن سے لڑکپن کے دور میں داخل ہوتے گئے۔ پھر عید کے موقع پر لمبے جوتے، پرانے کپڑے اور سستی ٹوپی پہننے سے ہمیں شرم محسوس ہوتی تھی اور عید کی نماز سے محرومیت بھی بڑھنے لگی۔ پھر خالی جیب کے ساتھ محلے والوں اور دوستوں سے ملنے جلنے میں عار محسوس ہونے لگی۔ پھر بڑی عید کے موقع پر آدھے گاؤں کی قربانی کی سری، پائے اور اوجھڑیوں کا ہمارے گھر پر انبار لگنے سے گھن اور چڑ آنے لگی، مگر اس وقت نے گزرنا تھا، سو گزر گیا۔

میری اس تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ غربت ختم ہو گئی ہے یا آج کل لوگ مشکل حالات سے دوچار نہیں ہیں۔ کم سے کم میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ غربت کا ذائقہ بہت کڑوا ہوتا ہے، ہر خوش حال شخص نے غربت کی زندگی ضرور گزاری ہے اور ہر مشکل حالت کے بعد آسانی بھی ضرور آتی ہے۔ غربت میں عید کا دن بہت بھاری ہوتا ہے۔ ہمیں عید سمیت تمام دکھ سکھ کے مواقع پر غریب اور پس ماندہ خاندانوں کی معاشی مدد کرنی چاہیے، ممکن حد تک بچوں کو خوشیاں دینی چاہیے، زکوٰۃ، صدقات اور سرسایہ عید سے پہلے ادا کرنا چاہیے اور مستحق افراد کے گھر سری، پائے اور اوجھڑی بھیجنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ عید کے دن جوتا چوروں، جیب کتروں اور نوسربازوں سے ہوشیار رہیں۔ بسیار خوری، فضول خرچی اور کسی کے ہاں زیادہ دیر تک ٹھہرنا بھی اچھی عادات نہیں۔

آخر میں جون ایلیا، زریون ایلیا اور میری طرف سے تمام مسلم امہ اور بچوں کو عید مبارک ہو۔ چلتے چلتے اپنے قارئین کو ایک تجویز دینا چاہتا ہوں کہ عید کے دن آپ کے گھر آنے والے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم مہمانوں کو الگ الگ چیمبرز میں بٹھائیں، ورنہ آپ کے گھر سے قومی اسمبلی بن سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments