بھارت کی خرابیاں گنوانے سے کام نہیں چلے گا – مکمل کالم


کسی کو یاد ہو یا نہ یاد ہو ہمارا ایک ازلی دشمن ہوا کرتا تھا، بھارت۔ یہ وہ ملک تھا جس سے ہمارے وجود کو خطرہ تھا کیونکہ اکھنڈ بھارت منصوبے کے تحت اِس نے پاکستان کو ضم کر کے سن 47 والا متحدہ ہندوستان بحال کرنا تھا۔ ممکن ہے آج کسی کو یہ بات عجیب لگے مگر اسّی کی دہائی میں یہ باتیں ذرا بھی عجیب نہیں لگتی تھیں، اُن دنوں ہمیں بتایا جاتا تھا کہ اگر ہم اکھنڈ بھارت سے بچنا چاہتے ہیں تو بھارت کے مقابلے میں ہمیں کم از کم دفاعی صلاحیت برقرار رکھنی چاہیے لہذا اِسی پالیسی کے تحت ہمارا دفاعی بجٹ بھارت کے مقابلے میں ایک تہائی ہوتا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ اُس وقت مختلف اخبارات اور جرائد میں پاکستان اور ہندوستان کی افواج، جنگی جہازوں اور آبدوزوں کا تقابلی جائزہ شائع ہوا کرتا تھا جس میں با تصویر انداز میں دکھایا جاتا تھا کہ کیسے پاکستان بھارت کی جنگی جارحیت کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ یہ بحث بھی اسی دور کی ہے کہ کیا ہمیں بھارت کے ساتھ جنگی سا زو سامان کی دوڑ لگانی چاہیے یا نہیں۔ محب وطن تجزیہ کار اِس اعتراض کا منہ توڑ جواب دے کر کہتے تھے کہ ہم تو اِس دوڑ میں شامل ہی نہیں، ہم تو فقط اپنے دفاع کا انتظام کر رہے ہیں کیونکہ جہاں بھارت جیسا دشمن ہر وقت ہماری تاک میں ہو وہاں چوکس رہنا ضروری ہے۔

اِس استدلال سے اکثر لوگ ریاستی پالیسی کے قائل ہو جاتے تھے البتہ اِکّا دُکّا تجزیہ کار ’دشمن کے پروپیگنڈے کے زیر اثر‘ اشاروں کنایوں میں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے تھے کہ بھارت کے ساتھ جنگی ہتھیاروں کی یہ دوڑ ایک دن ہمیں لے ڈوبے گی کیونکہ ہماری معیشت میں اتنا دم نہیں کہ بھارت کے جنگی جنون کا مقابلہ کرسکے۔ اُس وقت ہمیں لگتا تھا کہ یہ شکست خوردہ عناصر ہیں جو دراصل بیمار ذہنیت اور سوچ کے حامل ہیں لہذا اِن کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں۔ رہی سہی کسر 23 مارچ کی فوجی پریڈ پوری کر دیتی تھی، جب ہم ٹی وی پر اپنی شان و شوکت دیکھتے تو ہمارا سر فخر سے تن جاتا، عجیب و غریب قسم کے ٹینک اور اُن پر لدے ہوئے خوفناک میزائل، بکتر بند گاڑیاں، فضا میں قلابازیاں لگاتے، نیلی پیلی دھاریاں بناتے ایف سولہ طیارے جب ایک دوسرے کے پاس سے زن کر کے گزرتے تو ہمارے لبوں پر بے ساختہ دل گرما دینے والا کوئی ملی نغمہ آ جاتا اور اُس پر اظہر لودھی کی کمنٹری سونے پر سہاگہ کا کام کرتی۔ یہ تھی اسّی کی دہائی اور یہ تھا ہمارا لڑکپن۔

وقت گزرا اور ہمیں تھوڑی بہت عقل آ گئی۔ بھارت ہمارا دشمن ہی رہا مگر اب ہم نے دانشوری جھاڑنی شروع کردی، ہم بھارت کے ساتھ جنگی ہتھیار کی دوڑ لگانے کے خلاف تو ہو گئے مگر یہ تسلیم نہیں کیا کہ ہم بھارت سے کسی میدان میں پیچھے ہیں۔ جب بھی ہمیں بھارت کی کامیابی کی خبر سنائی جاتی تو ہم جھٹ سے ممبئی کی غربت کے اعداد و شمار نکال کر لے آتے اور خود کو یہ کہہ کر تسلیٰ دیتے کہ پاکستان کے کسی بڑے شہر میں ایسی کچی بستیاں نہیں، لوگ فٹ پاتھ پر نہیں سوتے، کوئی شخص بھوکا نہیں مرتا، کسی غریب کی بیٹی کی ڈولی جھونپڑی سے نہیں اٹھتی اور کوئی ماں اپنے بچے فروخت نہیں کرتی۔ اِن باتوں میں چونکہ صداقت بھی تھی سو یہ چُورن ہمیں راس آ گیا اور ہمارا ہاضمہ کافی عرصے تک درست رہا۔

چند سال اور گزر گئے۔ بھارت میں مودی کی فاشسٹ سرکار آ گئی، اُس نے مسلمانوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ پاکستان کا لبرل سے لبرل مسلمان بھی کانپ اٹھا، آئے روز ہمیں بھارتی مسلمانوں کے خلاف مظالم کی خبریں ملنے لگیں، یہ خبریں سُن کر ہم دکھ، افسوس اور بے بسی کا اظہار تو کرتے ہی مگر ساتھ میں شکر بھی ادا کرتے کہ قائد اعظم نے ہمارے لئے علیحدہ ملک بنا لیا ورنہ ہم بھی آر ایس ایس کے جنونیوں کے نرغے میں جے شری رام کا نعرہ نہ لگانے کی پاداش میں سنگسار کر دیے جاتے۔

ہم جیسے لکھاریوں نے بھی بی جے پی کے فاشزم کے خلاف لکھا، شاہ رُخ خان اور عامر خان کی فلموں کے بائیکاٹ پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ہندوستان میں مسلمانوں سے نفرت اور دشمنی اب اِس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اِن جیسے سپر سٹار بھی اُس سے محفوظ نہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بھارتی مسلمان رکن اسمبلی کو گولی مار کر قتل کر دیا جاتا ہے، قاتل جے شری رام کا نعرہ لگاتا ہے اور یہ قتل ٹی وی پر براہ راست نشر ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ چند روز پہلے یہ مقتول بھارتی سپریم کورٹ کو اپنی جان کے خطرے کے پیش نظر درخواست دائر کرتا ہے جو سپریم کورٹ اطمینان سے خارج کر دیتی ہے۔ بھارتی صحافی رعنا ایوب نے، جو واشنگٹن پوسٹ کے لیے لکھتی ہیں اور دبنگ خاتون ہیں، ایک ٹویٹ میں اِس پوری صورتحال کا کلیجہ نکال کر رکھ دیا، کہتی ہیں : ”دریں اثنا بھارتی سپریم کورٹ اور ہمارے معزز جج صاحبان صحافتی تمغوں کی تقریبات اور اِس نوع کی مجالس اور ٹویٹر پر اپنی دل لبھا دینے والی تقاریر سے جمہوریت کو زندہ رکھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی جمہوریت برباد ہو چکی ہے اور اِس کی بحالی ممکن نہیں، اِس کا خون بہت سے لوگوں کے ہاتھوں پر ہے۔“

اب دیکھیے کالم کی رو میں یہ خاکسار بھی بہہ گیا اور ہندوستان کی خرابیاں بیان کرنی شروع کر دیں۔ بے شک ہندوستان کی برائیاں ان گنت ہیں، غربت کے اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں، عورتیں اور بچے جسم فروشی پر مجبور ہیں، غریبوں کی نسلیں جھگیوں میں گزر جاتی ہیں، کروڑوں لوگ بھوکے سوتے ہیں، مودی کی فسطائیت نے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے اور ہندوستانی جمہوریت برہنہ ہو چکی ہے مگر؟ کسی زمانے میں یہ باتیں ہمارے لیے تسلیٰ کا باعث بن جایا کرتی تھیں مگر اب انہیں۔

اگر آپ ٹویٹر پر ہندوستانی سرکار کا کوئی اکاؤنٹ دیکھیں تو آپ کا اندازہ ہو گا کہ وہ کس سطح پر کام کر رہے ہیں۔ اُن کی تجارت، شرح نمو، زر مبادلہ کے ذخائر، برآمدات، روپے کی طاقت، بیرونی سرمایہ کاری، شہروں کا انفراسٹرکچر۔ وہ ٹیک آف کر چکے ہیں۔ صرف ہائی ٹیک مصنوعات برآمد کر کے ہی بھارت نے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر میں کئی گنا اضافہ کر لیا ہے جبکہ ہم ابھی تک بنیانوں اور تولیوں کی ایکسپورٹ سے ہی نہیں نکلے۔ یہ لکھتے وقت مجھے سخت تکلیف ہو رہی ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ جن خدشات کا اظہار اسّی کی دہائی میں چند ’شکست خوردہ عناصر‘ کرتے تھے وہ خدشات آج درست ثابت ہو رہے ہیں، آج ہماری معیشت منہ کے بل آن گری ہے، اب اِس معیشت کے ڈسے ہوئے عام آدمی کو ہندوستان کی جمہوریت میں کیڑے نکال کر یا آر ایس ایس کی غنڈہ گردی کے بارے میں بتا کر نہیں بہلایا جا سکتا۔

وہ دن گئے جب ہم ممبئی کی کچی بستیوں کی مثال دے کر عوام کو ڈراتے تھے کہ شکر ہے ہمارے ہاں غربت اِس مکروہ شکل میں موجود نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے جو احمقانہ فیصلے ہم کرتے آرہے تھے، آج اُن فیصلوں کا نتیجہ سامنے آ رہا ہے۔ آج پیچھے مُڑ کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ہم نے جو بنیادی غلطیاں کیں اُن میں سے کچھ تو بالکل واضح ہیں جیسے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنا، بڑھتی ہوئی آبادی کی پروا نہ کرنا، عورتوں کو معیشت میں حصہ دار نہ بنانا، افغان جنگ میں کودنا، ملک کو فلاحی ریاست کی بجائے سیکورٹی اسٹیٹ بنانا، نجی صنعتوں کو قومی تحویل میں لینا۔

غلطیوں کی یہ فہرست خاصی طویل ہے اور جتنی طویل ہے اتنی ہی عبرت ناک ہے۔ شاید کچھ لوگوں کا خیال ہو کہ یہ ماضی بعید کی غلطیاں تھیں مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے، آج کی تاریخ میں بھی ہم اسی قسم کی پالیسیوں سے چِمٹے ہوئے ہیں، کوئی سمت ہے یا ویژن۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ There is always light at the end of the tunnel، ممکن ہے یہ بات درست ہو مگر سرنگ کے اختتام پر روشنی اسی صورت میں نظر آئے گی اگر ہم سرنگ میں رینگتے رہیں گے نہ کہ وہیں بیٹھے بیٹھے بچے پیدا کرتے رہیں گے۔ اِس قنوطیت کی معافی چاہتا ہوں، پر کیا کروں طبیعت اُدھر نہیں آتی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments