ڈاکٹر ناصر عباس نیئر: نئے نقاد کے نام خطوط


ہمارے ہاں پیروی، اندھی تقلید کے سائے ہمیشہ منڈلاتے رہے ہیں ایسے میں کوئی کتاب جو آپ کو سوچنے اور سوال کرنے کی تحریک دے تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے اور اس پر مزید حیرت کی بات یہ ہو کہ کتاب اردو زبان میں ہو اور اردو کے ادیبوں، قاریوں اور نقادوں کے لئے مشعل راہ ہو بظاہر کتاب کا مکالمہ نقاد کے ساتھ ہے اس لیے اس کا نام نئے نقاد کے نام خطوط رکھا گیا ہے لیکن ہماری ناقص رائے میں اس کتاب میں ہر ادب کے قاری کے لئے بھی سیکھنے اور سمجھنے کا کافی سامان موجود ہے اس لیے اس سے ہر قسم کا شخص مستفید ہو سکتا ہے۔

ناصر عباس نئیر اپنی ہر کتاب سے قاری اور اردو ادب کو چونکاتے ہیں اور حیرت میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔ اس کتاب میں بھی انہوں نے ایسا ہی کیا ہے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ مشکل لکھتے ہیں لیکن ہمیں دوران مطالعہ کوئی دقت نہیں ہوئی ہاں یہ ضرور ہے۔ اکثر مقامات پر رک کر سوچنا پڑا اور کئی مقام پر ان کو بے تحاشا داد دینے کو بھی جی چاہا کہ خوب لکھتے ہیں۔ کتاب کے اندر کل 33 خطوط شامل ہیں ہر خط سے پہلے ایک خوبصورت پینٹنگ اور کئی خوبصورت اقتباس (نثری و شعری) شامل کیے گئے ہیں۔

ان سے آپ کو خط میں موجود متن کا پتہ چلتا ہے کہ خط میں کیا لکھا جائے گا۔ کتاب پڑھ کر دو باتوں کا شدت سے احساس ہوا ایک ہم لوگوں کو سوال کرنا نہیں آتا، حالانکہ سوال تو علم کی کنجی ہے جبکہ ہم سوال کی بجائے اعتراض کرنا جانتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں کوئی بھی سود مند گفتگو نہیں ہو سکتی کیونکہ اعتراض کے آتے ہی دوسرا شخص بھی اعتراض کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ناصر صاحب نئے نقاد کو سوال کی اہمیت اور سوال اور اعتراض میں فرق کرنا سکھاتے ہیں۔

جس کو پڑھ کر آپ کو بھی محسوس ہو گا کہ ہمارے اردگرد اعتراض زیادہ اور سوال کم ہیں۔ پھر دوسری بات جو کتاب کو پڑھ کر جانی وہ یہ ہے کہ نقاد کو ہمیشہ نرم خو رہنا چاہیے آپ سخت سے سخت بات بھی نرمی سے کہہ سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں جب آپ سختی کرتے ہیں تو دوسرا دفاعی ہوجاتا ہے اور اس سے نتیجہ صفر نکلتا ہے۔ نئے نقاد کو وہ مشورہ دیتے ہیں کہ تنقید لکھتے وہ اپنی ذات کو دور رکھے تاکہ وہ اپنی ذاتی پسند و ناپسند سے آگے نکل کر متن کا مطالعہ کرسکے اور اس پر کوئی ذاتی رائے قائم کر سکے اس دوران وہ کہتے ہیں نئے نقاد کو چاہیے کہ ہر متن کے گرد جو رائے اور تاثر موجود ہیں ان سے بچ کر اصل کو تلاش کرے اور پھر اصل سے اپنے ذاتی رائے قائم کرے مقبول مصنف ہم لوگ ذہنی کاہلی کا شکار ہیں اس سے ہم اصل کو جانے بغیر دوسروں کی رائے اور تاثر سے اپنی رائے بنا لیتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے متن کو سمجھ لیا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔

کتاب کے اندر کئی سوالوں پر مباحث کی گئی ہے مثلاً رائے، تاثر اور تنقید میں کیا فرق ہے، ادب کی روح کیا ہے، کیفیت کیا ہے، آج کل ناول کیوں مقبول ہے۔ ادبی نظریہ پہلے پیدا ہوتا ہے یا ادب، ثقافت اور ادب کا تعلق انسان کے داخلی اور خارجی حالات کا کیا تعلق ہو سکتا ہے۔

ناصر عباس نئیر نئے نقاد کو روایات کی اہمیت کے بارے میں بھی بتلاتے ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ چلنے کو بھی اہم سمجھتے ہیں۔ مصنف کے نزدیک کچھ زبان کی اپنی حدود ہیں جس کی وجہ سے بعض مرتبہ مصنف کو قول محال لانا پڑتا ہے یہاں وہ قول محال کی اہمیت اور اس سے نکلنے والے معنی در معنی کا بھی ذکر کرتے ہیں۔

کتاب سے نمونے کے طور پر چند اقتباس

زندہ ہونے کا مطلب، اردگرد سے تعلق اور اس کی گرمی کو محسوس کرنا ہے ورنہ ایک ہی ڈھب اور صورت پر برقرار رہنے والی چیزیں پتھر ہوتی ہیں، پتھر کی اپنی ابدیت ہو سکتی ہے لیکن کوئی اور شے پتھر بنے تو یہ اس کی موت ہے۔

ہم نے بعض تاریخی وجوہ سے فہم و عقل کو اپنا دشمن تصور کر لیا ہے اور اس کی فرضی نارسائیوں کے قصے گھڑ گھڑ کر دراصل اپنے ہی ساتھ دشمنی کی ہے۔ عقل سچ میں کسی دوسرے سیارے کی مخلوق کا، خفیہ انداز میں، خفیہ متن کے تحت لگایا ہوا سافٹ وئیر بہ ہر حال نہیں ہے کبھی غور کرو کہ عقل کے خلاف سارے دلائل ہیں کیا وہ بھی عقلی ہیں۔

چیزیں بجائے خود مشکل نہیں ہیں، وہ مشکل لگتی ہیں اور اس لیے لگتی ہیں کہ ہر چیز کے گرد آرا اور تاثرات کے اتنے دبیز جالے بنے ہوئے ہیں کہ عام سی چیز بھی پراسرار، پیچیدہ اور کبھی کبھی تو عفریت نظر آنے لگتی ہے۔ صرف ایک ہنر سیکھو لو، ہر شے کو اس کے بارے میں ظاہر کیے گئے تاثر سے الگ کر کے دیکھنے کا ہنر، کتاب پڑھیں سر دھنیں اور سیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments