کہاں سے آئے گا آزاد نوجواں کوئی؟


ڈاکٹر سہیل زبیری میرے بچپن کے دوست ہیں جن سے نوجوانی میں مختلف موضوعات پر دلچسپ تبادلہ خیال ہوتا تھا۔ پھر زندگی نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ کئی سالوں بلکہ دہائیوں کے بعد ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ ہمارے رشتے میں دوستی کی خوشبو ابھی تک باقی ہے۔ چنانچہ مکالمہ وہیں سے شروع ہوا جہاں ہم نے نصف صدی پہلے چھوڑا تھا۔ اس دوران سہیل زبیری ایک سائنسدان بن چکے تھے اور میں ایک ماہر نفسیات۔ اب ہمارے سوالوں اور جوابوں میں ایک گمبھیرتا پیدا ہو چکی تھی۔ یہ اسی مکالمے کا ماحصل ہے کہ ہم دونوں نے پچھلے دو سالوں میں “مذہب سائنس اور نفسیات” کے موضوع پر دو کتابیں رقم کیں۔ پہلی کتاب کا نعیم اشرف نے رواں ترجمہ کر کے پاکستان سے چھوا بھی دیا ہے۔

سہیل زبیری سے مکالمہ ایک دفعہ پھر میراتھوں مکالمہ بنتا جا رہا ہے جہاں ہر ہفتے کسی نئے موضوع پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔

آج ہماری فون پر ایک گھنٹہ گفتگو ہوئی۔ ہم دونوں اس حوالے سے فکر مند تھے کہ مسلمانوں میں عمومی طور پر اور پاکستانی نوجوانوں میں خصوصی طور پر سائنسی ’فلسفیانہ اور تنقیدی سوچ مفقود ہوتی جا رہی۔ میرا ایک شعر ہے

اس درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں
نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا۔

میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ سائنسی سوچ کے فروغ کی راہ میں روایت ’مذہب اور کلچر بہت سی دیواریں کھڑی کرتے رہے ہیں۔

میں نے پاکستان میں ایسے ان پڑھ لوگ بھی دیکھے ہیں جو ڈاکٹروں کے پاس جانے کی بجائے پیروں فقیروں کے پاس گنڈا تعویز کروانے جاتے ہیں اور ایسے پڑھے لکھے ڈاکٹر بھی دیکھے ہیں جو اپنے عقیدے پر اپنی عقل قربان کر دیتے ہیں۔

میں نے سہیل زبیری کو اپنے موقف کی حمایت میں زمانہ طالب علمی کے چند واقعات سنائے۔

پہلا واقعہ یہ تھا کہ جب میں خیبر میڈیکل کالج کے پانچویں سال کا طالب علم تھا تو ہماری گائنی کی معزز و محترم پروفیسر ذکیہ منہاس نے ایک سیمینار کروایا جس کا عنوان تھا “اسلام اور ضبط ولادت”۔
انہوں نے کلاس سے پوچھا کہ کتنے طلبا و طالبات ضبط ولادت کے خلاف ہیں اور کتنے حق میں۔

میری حیرانی کی انتہا نہ رہی جب میں نے یہ دیکھا کہ ایک سو چھ طلبا و طالبات میں سے ایک سو دو ضبط ولادت کے خلاف تھے اور میرے سمیت صرف چار اس کے حق میں تھے۔

اس سیمینار کے لیے جب میں نے مولانا ابوالا علیٰ مودودی کی تصنیف “اسلام اور ضبط ولادت” پڑھی تو میں یہ جان کر محظوظ ہوا کہ اردو میں کونڈومز کو لفافے اور ڈایافرامز کو ٹوپیاں کہا جاتا ہے لیکن یہ پڑھ کر مایوسی ہوئی کہ پاکستان میں آبادی اور غربت بے انتہا بڑھنے کے باوجود مولانا مودودی ضبط ولادت کے سخت خلاف تھے۔

مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ ہمارے کالج کے گریجوئیٹ جب سارے ملک میں مریض دیکھیں گے تو وہ ضبط ولادت کی مخالفت کریں گے۔

میں نے سہیل زبیری کو یہ بھی بتایا کہ میڈیکل کالج میں ڈاکٹر بننے کے لیے یہ لازمی تھا کہ ہر طالب علم اور طالبہ لیبر روم میں بیس مریضاؤں کی ڈیلیوری کرے۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ میرے روایتی ہم جماعتوں نے یہ کہہ کر ڈیلیوری کرنے سے انکار کر دیا کہ

اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی غیر عورت کر برہنہ دیکھا جائے۔

میں نے ان سے کہا کہ جب آپ کسی مریضہ کا علاج کر رہے ہوتے ہیں تو آپ مرد نہیں ڈاکٹر ہوتے ہیں آپ مسیحا ہوتے ہیں آپ مریضاؤں کی جانیں بچا رہے ہوتے ہیں۔

میرے مذہبی ہم جماعت نہ مانے لیکن ڈاکٹر بننے کے لیے انہوں نے جھوٹ موٹ کی بیس ڈیلیوریوں کی رپورٹ لکھ دی۔ مجھے حیرت اس بات کی تھی کہ جھوٹ لکھتے وقت ان کے ضمیر نے بالکل کچوکے نہ لگائے۔

میں ایسے روایتی مردوں سے بھی ملا جو اپنی بیوی کے لیے لیڈی ڈاکٹر تلاش کرتے تھے اور اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بننے اور تعلیم حاصل کرنے سے منع کرتے تھے اور اپنے اس تضاد سے بے خبر تھے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنے بچوں اور نوجوانوں کو سوال کرنے کی تحریک دے۔ اگر انہوں نے زندہ قوموں میں شمار ہونا ہے تو ان کے نوجوانوں میں سائنس اور فلسفہ ’طب اور نفسیات کی تعلیم اور تنقیدی شعور عام ہونا چاہیے۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پچھلے ایک ہزار سال سے مسلمانوں نے الکندی اور الفاربی جیسے فلسفی اور الرازی اور ابن سینا جیسے سائنسدان پیدا کرنے بند کر دیے ہیں۔

اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کا تنقیدی سوچ سے بھرپور تعارف نہیں کروایا اور ہم نے انہیں مدلل بات کرنی نہیں سکھائی۔

ایک سیلولر انسان دوست ہونے کے ناتے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر شہری کو اپنا مذہب اور اپنا ایمان رکھنے کا پورا حق ہے لیکن جہاں تک دنیاوی معاملات میں ترقی کا تعلق ہے اس کا انحصار سائنس کی جدید تحقیقات پر ہے اور ان تحقیقات کے لیے ضروری ہے کہ ہم گھروں اور سکولوں ’کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایک ایسی فضا قائم کریں جہاں بچے اور نوجوان اپنے والدین اور اساتذہ سے ہر موضوع پر سوال کر سکیں اور وہ ان کو گستاخ کہہ کر خاموش کرنے کی بجائے ان کے سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کریں۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے بزرگ اور ہمارے نوجوان ہمارے استادوں اور ہمارے شاگردوں میں وہ مکالمہ ناپید ہے جو سائنس اور فلسفے کی ترویج کے لیے ناگزیر ہے۔

ہمارے بچوں کی سوچوں پہ کب سے پہرے ہیں
کہاں سے آئے گا آزاد نوجواں کوئی؟

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments