بحران سے نکلنے کے لئے ضد چھوڑنا پڑے گی


وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا ہے۔ اس حوالے سے پانچ رکنی حکومتی وفد نے تحریک انصاف کے تین رکنی وفد سے ملاقات کی ہے۔ دو گھنٹے کی ملاقات میں فریقین نے اپنی اپنی پارٹی کی قیادت کا موقف پیش کیا۔ اب کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے کے لئے کل دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔

اس دوران سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخاب کروانے کے سوال پر سماعت مکمل کرلی ہے۔ چیف جسٹس نے بعد میں حکم جاری کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم رات گئے تک سپریم کورٹ کا کوئی حکم سامنے نہیں آیا تھا۔ اس سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ کا بنچ بھی سیاسی سطح پر منعقد ہونے والے مذاکرات کے نتیجہ کا انتظار کر رہا ہے۔ اگر ایک آدھ روز میں حکومت اور تحریک انصاف میں انتخابات کی تاریخوں کے بارے میں اتفاق رائے ہوجاتا ہے تو شاید سپریم کورٹ بھی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کے بارے میں اپنے حکم میں تبدیلی گوارا کر لے بصورت دیگر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آج کی سماعت کے دوران بھی یہی کہا ہے کہ اگر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو ’ملک کا آئین بھی موجود ہے اور ہمارا فیصلہ بھی برقرار ہے‘ ۔

چیف جسٹس کے ریمارکس اپنی جگہ اہم ہوسکتے ہیں لیکن حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات میں اس وقت تک کسی بریک تھرو کا امکان دکھائی نہیں دیتا جب تک عمران خان پنجاب اور خیبر پختون خوا میں فوری انتخابات کے بارے میں اپنی پوزیشن تبدیل کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ آج کی بات چیت کے دوران شاہ محمود قریشی کی قیادت میں تحریک انصاف کے وفد نے جو تین مطالبات پیش کیے ہیں، وہ یوں ہیں : 1 ) قومی اور صوبائی اسمبلیاں مئی کے دوران توڑ دی جائیں۔ اور پنجاب میں انتخابات کو 14 مئی کے بعد ملتوی کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی جائے۔ 2 ) اگر حکومت آئینی ترمیم پر اتفاق کرتی ہے تو تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفے واپس لئے جائیں۔ 3 ) ملک بھر میں اس سال جولائی میں انتخابات منعقد ہوں۔

اس سے پہلے وزیر اعظم شہباز شریف کے اعلان کے مطابق حکومت تحریک انصاف کے ساتھ صرف ایک ہی نکتہ پر بات چیت کے لئے تیار ہوئی ہے کہ ملک بھر میں انتخابات ایک ہی وقت میں منعقد کروانے پر اتفاق رائے کیا جائے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ قومی اسمبلی اگست میں اپنی مدت پوری کرے گی جس کے بعد نگران حکومت قائم ہوگی اور اکتوبر نومبر تک انتخابات منعقد ہو سکیں گے۔ تحریک انصاف کے مطالبات میں اس ٹائم لائن پر اتفاق کرنے کا اشارہ نہیں دیا گیا۔ گو کہ تحریک انصاف کے لیڈر اس سے پہلے یہ کہتے رہے ہیں کہ اگر حکومت ضمانت دے کہ اکتوبر میں انتخابات ہوجائیں گے تو وہ انتظار پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے پنجاب میں انتخابات کے بارے میں جاری کیے گئے حکم کو برقرار رکھنے پر اصرار کی وجہ سے تحریک انصاف نے بھی اپنی پوزیشن تبدیل کی ہے۔ اس بات کا امکان دکھائی نہیں دیتا کہ حکومت تحریک انصاف کے مطالبہ پر اگلے ماہ کے دوران اسمبلیاں توڑنے پر راضی ہو جائے گی۔

ایک درمیانی راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف اکتوبر میں انتخابات پر اتفاق کر لے اور جواباً حکومتی اتحاد تحریک انصاف کے مستعفی ارکان کو واپس قومی اسمبلی میں آنے کی اجازت دے دے۔ البتہ اس قسم کا معاہدہ کرنے سے پہلے آئینی ترمیم کے مسودہ پر اتفاق رائے ضروری ہو گا۔ محض پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کے حکم کو غیر موثر کرنے کے لئے کوئی آئینی ترمیم کافی نہیں ہوگی بلکہ اگر تحریک انصاف اور سب پارٹیاں سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرسکیں تو پارلیمنٹ کی بالادستی اور اس کے قانون سازی کے اختیار پر سپریم کورٹ کی نگرانی کم کرنے اور آئینی تشریح کے نام پر چند ججوں کی مرضی تھوپنے کے طریقہ کو ختم کرنے کے لئے بھی ضروری اصلاحات متعارف کروائی جائیں۔ بظاہر ایسی اصلاحات تحریک انصاف کے لئے قابل قبول نہیں ہوں گی کیوں کہ وہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو مکمل سیاسی حمایت فراہم کر رہی ہے۔ البتہ اگر عمران خان اور ان کے ساتھی سیاسی صورت حال کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کا حوصلہ کرسکیں اور ملک میں پارلیمانی جمہوریت کو مستحکم کرنے اور فوج یا سپریم کورٹ جیسے طاقت ور اداروں کو آئینی حدود کا پابند رکھنے کے لئے اتفاق رائے کر لیں تو یہ ملک میں جمہوری نظام کی کامیابی کے لئے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے کر نہ صرف اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کی ہے بلکہ سپریم کورٹ کی مداخلت کے خلاف پارلیمان کو مستحکم اور با اختیار کرنے کا اہم اور قابل ستائش اقدام کیا ہے۔ تحریک انصاف کو ضرور یہ اقدام اپنی سیاسی شکست محسوس ہوگی لیکن کھلے دل سے غور کیا جائے تو اس میں شہباز شریف یا حکومتی اتحاد میں شامل پارٹیوں کی بجائے ملک کے پارلیمانی جمہوری نظام کا فائدہ ہے۔ تحریک انصاف اسی نظام میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس لئے پارلیمنٹ کی تقویت کے لئے ہونے والے کسی بھی اقدام سے تحریک انصاف کو بھی فائدہ ہو گا۔ اس وقت سپریم کورٹ اگرچہ عمران خان مخالف جماعتوں کے لئے چیلنج بنی ہوئی ہے لیکن اگر پارلیمنٹ مضبوط ہوتی ہے تو مستقبل میں آنے والی کوئی بھی حکومت خود کو محفوظ محسوس کرسکے گی اور سپریم کورٹ بھی پارلیمنٹ کے فیصلوں کو ماننے پر مجبور ہوگی۔ تحریک انصاف نے اگر سیاسی نفرت کی وجہ سے اس موقع کو ضائع کیا تو یہ ملک میں پارلیمانی نظام اور اداروں کے درمیان آئینی توازن کے لئے مناسب فیصلہ نہیں ہو گا۔

حکومتی اتحاد یہ واضح کرچکا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلہ کو تین دو کی بجائے چار تین کا فیصلہ مانتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے 4 اپریل کو پنجاب میں انتخابات کے بارے میں جو حکم دیا تھا، وہ عملی طور سے موجود نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ اس بنیاد پر جاری ہوا تھا کہ سپریم کورٹ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کا حکم دے چکی ہے۔ اگر یکم مارچ کو ان دو صوبوں کے انتخابات کے بارے میں لئے گئے سوموٹو اقدام کو مسترد کیا گیا تھا تو بعد میں سہ رکنی بنچ کے پنجاب میں انتخابات کروانے کے فیصلہ کی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں ہے۔ حکومت اسی نکتہ پر اصرار کر رہی ہے جبکہ چیف جسٹس بظاہر اسے نظر انداز کرنے کا طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اب پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لے کر وزیر اعظم کا یہ اعلان زیادہ اہم ہو چکا ہے کہ سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے اختیار کو کچلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سپریم کورٹ کو بھی پارلیمنٹ کے اس رویہ کو نوٹ کرنا چاہیے اور خاص طور سے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کے مکتوب کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ حکومت کا موقف واضح ہے۔ اس کے باوجود اگر سپریم کورٹ ان کی حکومت ختم کرنے کا اقدام کرتی ہے تو وہ اس کے لئے تیار ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری نے اصرار کیا ہے کہ پارلیمنٹ اب مزید ایک وزیر اعظم کو توہین عدالت کے نام پر نا اہل کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر فاضل جج حضرات بھی اگر غور کریں تو وہ بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کسی وزیر اعظم کو نا اہل کرنے سے عدالت عظمی کی اتھارٹی یا تمکنت میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے مزید سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گا۔ اب یہ بحران ایسی شکل اختیار کر رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے سہ رکنی بنچ نے اگر ہوشمندی سے اس کا ادراک نہ کیا تو اس کے دوررس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے احکامات کے بارے میں اپنا موقف واضح کر دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو توہین پارلیمنٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ان حالات میں اگر سپریم کورٹ حکومت کو مزید دبانے کی کوشش کرے گی اور جواباً ججوں کو پارلیمنٹ کی استحقاق کمیٹی میں طلب کرنے کا قدام ہوتا ہے تو یہ سپریم کورٹ کے دامن پر بدنما داغ بن جائے گا۔

بہتر یہی ہو گا کہ حکومتی اتحاد اور تحریک انصاف انتخابات کے بارے میں اتفاق کر کے سپریم کورٹ سے درخواست کریں کہ وہ اپنی کارروائی روک دے۔ تاہم اگر کسی وجہ سے ایسا اتفاق رائے سامنے نہیں آتا اور سیاسی مذاکرات بدستور تعطل کا شکار رہتے ہیں تو سپریم کورٹ کو 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کا حکم واپس لے لینا چاہیے۔ اس تاریخ پر اصرار کر کے ملک کو غیر ضروری بحران اور تصادم کی طرف دھکیلا جائے گا جس سے نہ تو چیف جسٹس کو فائدہ ہو گا اور نہ ہی سپریم کورٹ کا ادارہ مضبوط ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments