سوات دھماکہ: دہشت گردی یا حادثہ؟


کبل سوات میں قائم سی ٹی ڈی تھانے میں گزشتہ سے پیوستہ روز ہونے والے دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 18 سے تجاوز کر گئی ہے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 5 قیدی بھی شامل ہیں۔ ابتدائی طور پر حکام کا یہ موقف سامنے آیا کہ دھماکہ شارٹ سرکٹ سے لگنے والی آگ سے ہوا۔ پولیس حکام اب تک اسی موقف پر نہ صرف قائم ہیں بلکہ وہ خودکش حملے یا بارود سے بھاری گاڑی کے عمارت سے ٹکرائے جانے کی اطلاعات کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے عوام الناس سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں۔

بتایا جا رہا ہے کہ دھماکوں کی تحقیقات کے لئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ اس امر کی اطلاعات بھی ہیں کہ متاثرہ عمارت سے ملحقہ بعض علاقوں میں عارضی طور پر آمدورفت کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ یہ اطلاع درست ہے تو اس سے پولیس کے موقف سے زیادہ ان خبروں کے درست ہونے کا تاثر پختہ ہو گا جنہیں افواہیں قرار دیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ گزشتہ روز دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک پولیس اہلکار نے اپنے بیان میں کہا کہ جس کمرے میں دھماکہ ہوا وہ مرکزی عمارت سے ہٹ کر بنایا گیا تھا اور یہ کہ اس کی بجلی پہلے سے ہی منقطع تھی۔

عیدالفطر کے دوسرے روز سی ٹی ڈی تھانے میں بارہ منٹ کے وقفے سے ہونے والے دو دھماکوں میں 5 قیدیوں سمیت 18 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز 9 پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ پولیس لائن میں ادا کردی گئی ان دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد کے حوالے سے پولیس اور ہسپتال انتظامیہ کے بیانات میں بھی تضاد ہے۔ پولیس کے مطابق 70 افراد زخمی ہوئے جبکہ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق 18 نعشوں کے علاوہ 51 زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا۔

اصولی طور پر عوام الناس کے مختلف طبقات اور مرحومین و زخمیوں کے ورثا کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ پولیس حکام کے ابتدائی بیانات میں موجود تضادات اور دھماکے والی جگہ کی بعض تصاویر نے شبہات کو پختہ کیا۔ پولیس حکام کے مطابق دھماکے والی جگہ کی عمارت پرانی تھی جبکہ تصاویر سے اس موقف کی تصدیق نہیں ہوتی۔ اسی طرح کا معاملہ شارٹ سرکٹ سے لگی آگ سے متعلقہ عمارت کے تہہ خانے میں رکھے بارودی مواد میں دھماکے ہوئے کے حوالے سے ہے جبکہ زخمی اہلکاروں کے مطابق جہاں بارود رکھا گیا تھا وہ مختصر عمارت مرکزی عمارت سے ہٹ کر ہے اور اس کی بجلی پہلے سے ہی منقطع تھی۔

بیانات کے اس تضاد نے ہی ان خبروں کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا جنہیں پولیس حکام افواہیں قرار دے رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا سمیت ملک کے دوسرے علاقوں میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کی بے مثال قربانیوں اور بہادری کے ساتھ آپریشنوں کے عمل کو کامیاب بنانے پر دو آراء ہرگز نہیں۔ حالیہ واقعہ کے بعد جن خبروں پر (پولیس حکام انہیں افواہیں قرار دیتے ہیں) ملحقہ علاقوں اور باقی ماندہ حصوں کے لوگوں میں بحث شروع ہوئی اس کی بنیادی وجہ وہ اطلاعات تھیں کہ دہشت گردوں کے پاس نہ صرف رات کی تاریکی میں دیکھنے والی دوربینیں ہیں بلکہ انہی اوقات میں ہدف کو نشانہ بنانے والا جدید اسلحہ بھی ہے دو اڑھائی ہفتے قبل ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت کے علاوہ گزشتہ سے پیوستہ روز پشاور کے قریب سکیورٹی فورس کی ایک چوکی پر دہشت گردوں کے رات کی تاریک میں حملوں میں اس طرح کے جدید اسلحہ کے استعمال کے شواہد سامنے آئے ہیں جو افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز نائٹ آپریشنوں میں استعمال کرتی رہی ہیں۔

کبل سوات میں پیش آئے افسوسناک واقعہ کے حوالے سے عین ممکن ہے کہ پولیس حکام کا موقف ہی درست ثابت ہو اور یہ دہشت گردی کی واردات نہ ہو البتہ پولیس حکام کا موقف زخمی اہلکاروں کے بیانات کی وجہ سے شک کے دائرے میں بہرطور آ گیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں جاری دہشت گردی کی حالیہ لہر بالخصوص سانحہ پولیس لائنز پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان و لکی مروت کے بعض افسوسناک واقعات کی وجہ سے عوام اور انتظامی حکام کے درمیان اعتماد سازی میں جو کمی در آئی موجودہ حالات میں اس سے صرف نظر کرنا بہت مشکل ہو گا۔

حالیہ واقعہ اگر دہشت گردی کی بدولت نہ بھی ہوا ہو تب بھی یہ سوال اہم ہے کہ بھاری مقدار میں رکھے گئے گولہ بارود کے لئے جو حفاظتی انتظامات ہونے چاہئیں تھے انہیں نظرانداز کیوں کیا گیا پھر یہ کہ ابتداً یہ دعویٰ کیوں کیا گیا کہ دھماکے شارٹ سرکٹ سے لگنے والی آگ سے ہوئے؟ بظاہر ان اطلاعات کو بھی نظرانداز کرنا مشکل ہو گا کہ اموات اس سے زیادہ ہیں جو بتائی جا رہی ہیں۔ بہرطور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس سارے معاملے میں سب ویسا نہیں جیسا بتایا جا رہا ہے۔

شک و شبہ بلاوجہ نہیں اس لئے پولیس حکام کو سنجیدگی کے ساتھ اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ عوام الناس ان کے ابتدائی موقف پر یقین کرنے کو کیوں تیار نہیں۔ ہماری دانست میں اس کی وجہ پچھلے برس کے بعض واقعات اور وہ کھوکھلے دعوے ہیں جن کی وجہ سے اعتماد سازی میں کمی ہوئی۔ پچھلے برس جب مسلح گروہ سوات اور ملحقہ علاقوں میں لوگوں سے بھتہ لینے کے علاوہ اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کر رہے تھے عین اس وقت صوبائی حکومت کا ترجمان یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ مقامی لوگ اور میڈیا غلط بیانی کر رہے ہیں۔ مسلح جتھوں کی کارروائیاں نہیں ہو رہی ہیں بلکہ ایک کالعدم تنظیم کا کمانڈر چند ساتھیوں کے ہمراہ اپنی بیمار بہن سے ملنے کے لئے علاقے میں آیا تھا۔ یہ پھلجھڑی اس وقت چھوڑی گئی جب ایک حساس ادارے کے افسر سمیت متعدد پولیس والوں کی دہشت گردوں نے ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ہم ایک معاہدہ کے تحت علاقے میں آئے ہیں۔ مغویوں کو معاہدے کی خلاف ورزی پر تحویل میں لیا گیا۔ کبل سوات کے حالیہ واقعہ کی آزادانہ تحقیقات پر عوام کا اعتماد قائم کرنے کے لئے پولیس اور انتظامی حکام کو اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کرنے کے ساتھ کم سے کم وقت میں تحقیقات مکمل کر کے حقائق سامنے لانا ہوں گے۔

اس امر کا مدنظر رکھا جانا بھی انتہائی ضروری ہے کہ عوام انتظامی حکام اور پولیس میں باہمی اعتماد وقتی نہیں مستقل ضرورت ہے۔ اسی طرح صوبے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھی موثر کارروائیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ واقعہ کے حوالے سے یہ سوال بہت اہم ہے کہ آبادی سے ملحقہ علاقے میں بھاری مقدار میں گولہ بارود کیوں رکھا گیا۔ امید واثق ہے کہ تحقیقات کرنے والے حکام تمام پہلوؤں کو سامنے رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).