عالمی یوم مزدور پر ، وفاقی نظامت تعلیمات کے محنت کش کی موت کا نوحہ


یکم مئی کو مزدور کے عالمی یوم کے طور منانے کا اہتمام کرنا ایک الگ بات ہے اور اس دن کی مناسبت سے محنت کش کو اس کے جائز حقوق دینے کے لیے عملی اقدامات کرنا بالکل ہی دوسری بات ہے۔ اگر تو ہم یوم مزدور صرف ایک دن کی چھٹی کے لیے منا رہے ہیں تو پھر یہ عالمی یوم اس محنت کش کی سراسر توہین کے مترادف ہے، جس کے نام پر عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے۔ کیونکہ بیچارے مزدور کو تو اس دن ہونے والی عام تعطیل کا بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ پاتا اور محنت کش کا یہ دن بھی سال کے دیگر 364 ایام کی طرح محنت و مشقت کی نذر ہوجاتا ہے ۔

یاد رہے کہ ماضی کی روایت کے مطابق امسال بھی عالمی یوم مزدور پر وفاقی حکومت، وفاق میں اور ہر صوبائی حکومت اپنے اپنے صوبوں کے سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والے محنت کش طبقہ کے لیے بلند و بانگ غیر حقیقی دعوے، سرکاری اعلانات اور سیاسی وعدے کریں گی۔ مثال کے طور پر مزدور کی کم سے کم اجرت میں معمولی اضافہ کی نوید سنائی جائے گی اور ہر سرکاری و نجی ملازم کی ملازمت کے تحفظ کا آئینی حق تسلیم کیا جائے گا۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جس وقت مذکورہ اعلانات کو سن کر ادھر ادھر سے پکڑ کر لائے گئے حاضرین محفل تالیاں بجاتے ہوئے مزدور زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہوں گے۔ عین اسی وقت وفاقی نظامت تعلیمات کے ایک ڈیلی ویجز ملازم اسد محمود کے گھر میں مجبور و لاچار مزدور کی موت کا سوگ منایا جا رہا ہو گا۔

کیونکہ محنت کشوں کے عالمی یوم سے ٹھیک 7 دن قبل 24 اپریل 2023 کو اسد محمود کا انتقال ہو گیا تھا۔ المیہ ملاحظہ ہو کہ اسد محمود گزشتہ 18 برس سے وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت، IMCG G۔ 10 / 2 اور IMCB F۔ 10 / 3 میں ڈیلی ویجز پہ الیکٹریشن/ پلمبر کی خدمات اس امید پر انجام دے رہا تھا کہ ایک دن اسے وفاقی حکومت کی جانب سے مستقل کر کے وہ تمام حقوق فراہم کر دیے جائیں گے، جن کا وعدہ آئین پاکستان میں ایک سرکاری ملازم کے ساتھ کیا گیا ہے ۔

مگر افسوس صد افسوس اپنی ملازمت کی مستقلی کا انتظار کرتے کرتے دوران سروس ہی اسد محمود، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پیارے ہو گئے اور اتنے طویل عرصہ تک پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے کے باوجود وفاقی نظامت تعلیمات کے پاس نہ تو مرحوم کی زندگی میں اسے دینے کے لیے کچھ تھا اور نہ ہی مرحوم کے پسماندگان کی دل جوئی کرنے کے لیے اب کچھ ہے۔ اسد محمود کی موت کے بعد اس کی بیوہ اور اس کے چھ بچے مکمل طور پر تہی دست اور بے آسرا ہو چکے ہیں۔

واضح رہے کہ اسد محمود نے 2005 میں وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت ادارے میں ملازمت کا آغاز کیا تھا اور 2013 میں وفاقی کیبنٹ کمیٹی نے سینکڑوں اساتذہ کے مطالبہ پر ڈیلی ویجز کی مستقلی کا نوٹیفیکشن جاری کر دیا تھا اور بعد ازاں تمام ملازمین کے میڈیکل ٹیسٹ بھی کلیئر ہو گئے تھے۔ لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا کہ آج دس سال کی طویل مدت گزرنے کے بعد بھی وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت ادارے میں کسی بھی ملازم کو جن میں اکثریت اساتذہ کی ہے کو نہ تو پوسٹنگ دی گئی اور نہ ہی انہیں مستقل کیا گیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسد محمود اور اس جیسے ہزاروں اساتذہ کی ملازمت کی مستقلی کی راہ میں بظاہر کوئی انتظامی یا قانونی رکاوٹ نہیں تھی۔ حد تو یہ ہے انہیں مستقل کرنے کے لیے ایف پی ایس سی کی منظوری بھی درکار نہیں تھی۔ لیکن وفاقی نظامت تعلیمات کی بیجا ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت ادارے میں ڈیلی ویجز پر ہی کام کرنے والے ملازمین اپنی زندگی کے 18 سے 20 قیمتی سال وفاقی تعلیمی اداروں میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے کے باوجود ڈیلی ویجز ملازمین کے طور کام کر رہے ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی ملازمت کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ چونکہ یہ تمام ڈیلی ویجز ملازم ہیں، لہٰذا، ان کی دوران ملازمت وفات ہو جانے کی صورت میں ان کے پسماندگان لواحقین اور ان کے معصوم بچوں کو پنشن، گریجویٹی وغیرہ کی مد میں ایک دھیلے کی بھی امداد نہیں میسر آتی۔

طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت اداروں میں ملازمت کرنے والے اساتذہ و دیگر عملے کو آٹھ آٹھ مہینے تنخواہیں بھی نہیں دی جاتیں۔ یوں یہ ملازمین طبیعی موت مرنے سے پہلے بھی سال میں کم ازکم ایک بار موت کا تلخ ذائقہ ضرور چکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یعنی جس وفاقی حکومت کا وزیراعظم اور اس کی کابینہ ہر برس یکم مئی کو ملک بھر کے نجی اداروں کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم اجرت کی ہر ماہ باقاعدگی سے ادائیگی کرے۔

اسی وفاقی حکومت کے بالکل ناک کے نیچے کام کرنے والے وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت اداروں میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے والے ہزاروں محنت کش کئی کئی مہینوں تک اپنی تنخواہوں کے لئے ترستے رہتے ہیں۔ یہ وفاقی نظامت تعلیمات کی جانب سے بے حسی کی انتہا اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وفاقی ادارے کے ماتحت ہزاروں ملازمین اتنے لمبے عرصہ تک پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے کے باوجود بھی اپنے تمام بنیادی حقوق سے محروم رہیں۔ جب وفاق کے ماتحت وفاقی نظامت تعلیمات کے اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کی ناقدری و کسمپرسی کا یہ عالم ہے تو پھر اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیں کہ ملک کے دیگر حصوں میں محنت کش طبقے کا کس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ استحصال کیا جا رہا ہو گا۔

وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز اساتذہ اور دیگر عملہ اس استحصالی نظام کے خلاف کئی برسوں سے نہ صرف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہے بلکہ معزز عدالت عالیہ میں اپنے حقوق کے لیے قانونی جنگ بھی لڑ رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایجوکیشن ریفارمز پراجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر ایک ڈیلی ویجز خاتون ٹیچر کی شکایت پر سابق وزیر مملکت برائے کیڈ طارق فضل چوہدری کو ہدایت کی تھی کہ ملازمین کی مستقلی کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔

لیکن وزارت کیڈ کے چند افسران نے سابق وزیرمملکت برائے کیڈ کی واضح ہدایت کے باوجود بھی اعلیٰ حکام کو اندھیرے میں رکھ کر ایسی سمری تیار کی۔ جس میں تمام ملازمین کو مستقل کرنے سے متعلق 2011 کی پالیسی کو یکسر نظرانداز کر دیا گیا تھا۔ تاہم مسلسل پانچ سے سات سال گزرنے پر ڈیلی ویجز اساتذہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں موقف اختیار کیا کہ اسی 2011 کی پالیسی کے تحت گزشتہ دورحکومت میں ایک لاکھ سے زائد ملازمین کو مستقل کیا گیا ہے جس کو سپریم کورٹ آف پاکستان بھی توثیق کر چکی ہے، اسی 2011 کی پالیسی کی روشنی میں موجودہ دورحکومت نے بھی دس ہزار سے زائد ملازمین کو مستقل کیا گیا تھا۔

جبکہ اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان بھی اپنے ایک مقدمہ میں ڈیلی ویجز خاتون ٹیچر (صفیہ بانو کیس) کو 2011 کی پالیسی کے تحت مستقل کرنے کا حکم سنا چکی ہے۔ علاوہ ازیں سلام آباد ہائیکورٹ کے متعدد ایسے فیصلے موجود ہیں جن میں ملازمین کو فوری مستقل کرنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ مگر تمام تر قانونی فیصلوں اور اساتذہ کے احتجاج کے باوجود ہر وفاقی حکومت، وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز اساتذہ اور دیگر عملے کو مستقل کرنے میں غیر ضروری انتظامی تساہل اور سنگین مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرتی آئی ہے۔

کیا ہم امید رکھ سکتے ہیں وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی عوام دوست حکومت ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرتے ہوئے وفاقی نظامت تعلیمات کے ماتحت اداروں میں کام کرنے والے تمام ڈیلی ویجز اساتذہ اور دیگر عملے کو فی الفور مستقل کر کے اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا ادھورا کام مکمل کرے گی؟ تاکہ اگلے برس یکم مئی کے دن ہم کسی دوسرے اسد محمود کی موت کا نوحہ نہ پڑھ رہے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments