دہشت گردی اور افغان اسلحہ منڈی


سکیورٹی ذرائع کے مطابق خیبر پختونخوا میں پچھلے ایک ماہ کے دوران 136 آپریشنوں میں 306 دہشت گرد گرفتار کئے گئے، گرفتار ہونے والے دہشت گردوں سے 74 راکٹ لانچر 67 دستی بم، 8 مارٹر گولے 5 لائٹ مشین گنوں اور 4 بارودی سرنگوں کے علاوہ 2 ہزار 975 کلاشنکوفیں، 18 ہزار 380 رائفلیں اور دوسرا جدید اسلحہ و گولہ بارود برآمد کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ آپریشن باجوڑ، خیبر، سوات، لکی مروت، جنوبی و شمالی وزیرستان میں کئے گئے۔ مناسب ہوتا اگر عوام کی معلومات کے لئے یہ بھی بتادیا جاتا کہ دہشت گردوں سے برآمد ہوئے اسلحہ میں سے کتنا اسلحہ وہ ہے جو ماضی میں امریکی و نیٹو افواج افغانستان سے انخلا کے وقت چھوڑ کر گئیں اور بعدازاں افغان اسلحہ کی منڈی سے دہشت گردوں نے مذموم مقاصد کے لئے خریدا۔ تین سو سے زائد دہشت گردوں کی گرفتاری اور بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود کی برآمدگی سے یقیناً امن دشمن قوتوں کو دھچکا پہنچا ہوگا مگر یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں اس وقت دہشت گردوں کے مختلف گروپ اور خصوصاً کالعدم ٹی ٹی پی کے جتھے امن دشمن کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

افغانستان کی اسلحہ منڈی سے حاصل کئے گئے جدید اسلحہ اور بالخصوص رات کی تاریکی میں دہشت گردوں کی معاونت کرنے والی جدید ساخت کی گنوں وغیرہ کی بدولت حالیہ عرصہ میں انتہائی افسوسناک واقعات رونما ہوئے۔ گزشتہ روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں پاسنگ آﺅٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے بلاشبہ درست بات کہی کہ ملک میں دہشت گردوں کے معاونین اور سہولت کاروں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ ہمیں ظاہری اور پوشیدہ دونوں طرح کے دشمنوں سے نمٹنے کےلئے موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ ہمارے ہاں جس بنیادی سوال اور ضرورت کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا ہے وہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ اعتماد سازی کے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے ان کی رہائی اور آبادکاری کے پیچھے کس کا کیا مفاد تھا؟ یہ درست ہے کہ اب تواتر کے ساتھ یہ کہا جارہا ہے کہ ماضی میں اندازوں کی غلطی ہوئی۔ کیا محض غلطی کا اعتراف کافی ہے یا ان لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بھی جو دہشت گردوں سے اعتماد سازی کے نام پر مذموم مقاصد کے حصول کیلئے سرگرم عمل تھے۔ اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب ہمارے خفیہ اداروں کے پاس آزاد ذرائع کے مقابلہ میں زیادہ ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے دوران افغانستان میں چھوڑا گیا اسلحہ و گولہ بارود اور دوسرا جدید سامان کابل، قندھار، ہرات وغیرہ کی غیرقانونی اسلحہ منڈیوں میں کھلے بندوں فروخت ہورہا ہے تو کیا کسی سطح پر افغان حکومت کے ذمہ داروں کو اس امر کی جانب متوجہ کر کے یہ کہا گیا کہ وہ اس معاہدے کی پاسداری کریں کہ افغان سرزمین خطے کے ممالک کے خلاف استعمال ہوگی نہ ہی دہشت گردوں کے مختلف الخیال گروپوں کو محفوظ ٹھکانوں اور وسائل کی فراہمی ہو گی؟

امر واقعہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے سلسلے کے ڈانڈے افغانستان سے جا ملتے ہیں۔ افغان حکام لاکھ اس امر کا دعویٰ کریں کہ وہ دوحا معاہدے کے تحت اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ نہ صرف افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لئے مسلسل استعمال ہورہی ہے بلکہ سرحدی مقامات پر ہونے والی بعض کارروائیوں میں دہشت گردوں کو افغان طالبان کے بااثر ذمہ داران کی کھلی اعانت حاصل رہی بالخصوص سرحد پر لگی باڑوں کو کاٹنے اور سرحدی علاقوں میں کارروائیوں کے مراحل میں۔

پاکستانی عوام کو امن و امان برقرار رکھنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کے پرعزم کردار و عمل پر کامل بھروسہ ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پولیس اور سکیورٹی فورسز نے بے مثال قربانیاں بھی دی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کو ازسرنو منظم ہونے کا موقع کیسے ملا کیا ۔داخلی طور پر کچھ قوتوں نے سہولت کاری کی؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اعتماد سازی کا پروگرام اصل میں خاص فہم اور مقاصد کے لئے سہولت کاری تھی؟ بلاشبہ پچھلے ایک ماہ کے دوران خیبر پختونخوا میں پولیس اور سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں اہداف کے حصول کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھارکھی۔ افسروں اور جوانوں کی شہادتوں کے باوجود عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے قابل فخر خدمات سرانجام دی گئیں۔ ضرورت بہرطور اس امر کی ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس اور سکیورٹی فورسز کو بھی جدید اسلحہ اور وسائل فراہم کئے جائیں۔ اسی طرح حالیہ ایک ماہ کے درمیان دہشت گردوں سے برآمد ہوا اسلحہ اور گولہ بارود اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گردوں کے پیچھے موجود قوتیں کیا عزائم رکھتی ہیں اور اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے کس حد تک جا سکتی ہیں۔ ان حالات میں بہت مناسب ہو گا کہ جہاں پولیس اور سکیورٹی فورسز کو جدید خطوط پر منظم کیا جائے وہاں سیاسی جماعتیں اور سماج سدھاری کے مشن میں مصروف تنظیمیں بھی آگے بڑھ کر رائے عامہ کو دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف منظم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ امن دشمنوں سے جاری جنگ پوری قوم کی مشترکہ جنگ ہے ہم امید کرتے ہیں کہ عوام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اپنے کردار کی ادائیگی سے پہلو تہی نہیں برتیں گے تاکہ اگلی نسلوں کو محفوظ پرامن اور ترقی کی طرف گامزن پاکستان سونپا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments