سید صاحب


سید صاحب المعروف ”پیر و مرشد“ بھیس بدلنے کے ماہر تھے۔ کبھی کلین شیو، کبھی مونچھیں، کبھی داڑھی مونچھیں رکھ لیتے تھے۔ کبھی موٹے ہو جاتے اور کبھی بڑے سمارٹ ہو جاتے۔ ان کو دیکھ کر ہمیں تو گرگٹ کی یاد آ جاتی تھی۔ نجانے کب وہ اپنا رنگ بدل لیں کوئی نہیں جانتا بلکہ وہ خود بھی نہیں جانتے تھے۔

ان کے گرد ہمیشہ لوگوں کا ہجوم رہتا جو ان کے مرید کہلاتے تھے۔ سید صاحب کا ایک ہی اصول تھا، ’اس کو زیادہ دعائیں دی جائیں گی جو زیادہ کھانا کھلائے گا‘ ۔ ہم نے جب بھی سید صاحب کو دیکھا ان کو لذیذ کھانوں کے درمیان پایا اور ان کے منہ کو جگالی کی حالت میں پایا۔ ان کی پسندیدہ غذا حلوہ تھی۔ وہ ہر کھانے کے بعد ضرور تناول کرتے تھے بلکہ ان کا دل کرتا کہ حلوہ کی ایک پلیٹ ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں۔ جب دل کرے منہ میٹھا کرتے رہیں۔

سید صاحب بڑے جلالی واقع ہوئے تھے۔ فوراً غصہ میں آ جاتے تھے۔ ذرا کوئی شے ان کے مزاج کو گراں گزری نہیں اور وہ ناراض ہوئے نہیں۔ ایک بار انھوں نے اپنے مرید سے ایک سپیشل قسم کے چھوٹے گوشت کی فرمائش کی جو بھکر کے خاص علاقے میں ملتا تھا۔ مرید نے خاص طور سے دس کلو گوشت شاہ صاحب کی خدمت میں پیش کیا جس میں سے دو کلو شاہ صاحب نے کھایا اور کھانے کے بعد فوراً ناراضگی کا اظہار کیا کہ یہ وہ گوشت نہیں جس کا انھوں نے کہا تھا، مرید نے ان کے ساتھ جھوٹ بولا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن ہے کہ شاہ صاحب مرید سے ناراض ہیں۔ شاہ صاحب کے خاص چیلے سے جب ان کی وجہ ناراضگی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا، جناب والا! وہ شاہ صاحب ہیں ان کا اپنا مزاج ہے اور اب تمھیں منہ نہیں لگانا چاہتے، تمھارا کردار اس ڈرامہ میں یہیں تک تھا جو ختم ہوا۔

ایک اور دفعہ مرید نے اپنا قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ شاہ صاحب نے ان کے ذمہ دس سوہن حلوہ کے ڈبے لگائے۔ جب وہ دس ڈبے لے کر ان کے پاس پہنچا انھوں نے تحفہ قبول کرتے ہوئے فرمایا، تم نے اتنی تکلیف کیوں کی تو مرید نے کہا، جناب کا حکم تھا۔ سوچتے ہوئے کہنے لگے، تمھارا تحفہ قبول کر لیا ہے مگر تمہیں یہ لانے کو کس نے کہا تھا؟ مرید یہ سب سن کر دنگ رہ گیا اور اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ ایک اور مرید اپنا قصہ سناتا ہے کہ وہ دو بکرے لے کر ان کی خدمت میں پیش ہوا بحکم شاہ صاحب۔ تحفہ رکھتے ہوئے شاہ صاحب نے فرمایا، تم مریدین بھی بہت تکلیف کرتے ہو حالاں کہ مجھ فقیر کو دنیاوی مال و متاع سے کیا لینا دینا۔

شاہ صاحب جس کے ذمہ بھی کام لگاتے پھر ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتے اور اس وقت تک اس کا پیچھا نہ چھوڑتے جب تک کام ہو نہ جائے۔ ان کو انکار سے نفرت تھی اور دلائل رد کرنے میں وہ ماہر تھے۔ ان کا کہنا تھا اطاعت کرنے والوں کو دلائل اور سوال سے کیا لینا۔ اس لیے وہ مکمل اور غیر مشروط اطاعت کے داعی تھے اور اپنے مریدوں کو اس پر کاربند کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments