”ہم جنس پرستوں“ کو سعودی عرب میں داخلے کی اجازت


حالات کا جبر بہت ہی بے رحم ہوتا ہے، جو قومیں جان بوجھ کر یا کسی خوامخواہ کے مغالطے یا تکبر و رعونت کی وجہ سے اپنے عصر سے بیگانہ رہتی ہیں وہ آہستہ آہستہ زوال کے بلیک ہول میں کہیں گم ہوجاتی ہیں اور قصہ پارینہ بن جاتی ہیں، بعد میں آنے والی نسلیں ان کے زوال کی کہانیاں کتابوں میں پڑھتی رہتی ہیں اور انہیں پتا چلتا ہے کہ کتنی بڑی بڑی سلطنتیں اور تہذیبیں جو خود کو بہت اہم تصور کرتی تھیں زمین بوس ہو گئیں اور وقت نے انہیں انتہائی سفاکی اور بے رحمی کے ساتھ بجھا کے رکھ دیا اور اب آنے والی نسلیں انہیں عبرت کے طور پر پڑھتی رہیں گی۔

جو قومیں ارتقائی مراحل پر نظر رکھتی ہیں اور وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر آگے بڑھنے کی جستجو کرتی رہتی ہیں وہی دنیا کے نقشے پر تادیر قائم رہتی ہیں، اس کے علاوہ بقا کا کوئی دوسرا پیمانہ نہیں۔ حالات کے جبر یا معیشت کے بدلتے تقاضوں نے ایسے ایسے رجعت پسند یا سخت گیر قسم کے معاشروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جو عظمت رفتہ کے سنہری سپنوں میں کھوئے ہوئے تھے اور ”نغمہ خودی“ کے مسحور کن نشے میں اس قدر محو تھے کہ کوئی دوسرا موقف، رائے یا نقطہ نظر اختیار کرنا تو دور کی بات ہے سننے تک کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے تھے لیکن وقت کے بے رحم تھپیڑوں نے انہیں ان کے سخت اور بے لچک اصول و ضوابط سمیت لتاڑ کے رکھ دیا۔

ایران کو دیکھ لیں جہاں حالات کے جبر نے انہیں مورل پولیس کا خاتمہ کرنے اور پردے کے نام پر خواتین کے خلاف جبری حربوں کو واپس لینے پر مجبور کر دیا اور صدیوں کے اس جبری بت کو توڑنے کا سہرا یا کریڈٹ ایران کی بہادر خواتین کو جاتا ہے جنہوں نے احتجاج کی صورت میں سڑکوں پر نکل کر ثابت کر دیا کہ ”ہم کمزور نہیں ہیں، باشعور ہونے کے علاوہ ہمیں اپنے جسم پر کسی دوسرے کی حکمرانی قبول نہیں“

شہزادہ سلمان کا ”ویژن 2030“ حالات کے جبر کی جیتی جاگتی مثال ہے جس میں وہ تمام اقدامات کئے جا رہے ہیں جو انہیں بدلتی دنیا کی صف بندی میں ایک نمایاں مقام پر لا کھڑا کریں، پیٹ کے تقاضے بڑے بڑوں کو وہ سب کچھ کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جن کا تصور کبھی انہوں نے خواب میں بھی نہیں کیا ہوتا، ان تمام کڑوے حقائق کی جھلک سعودی حکام کے حال ہی میں لیے جانے والے اقدامات و فیصلوں میں آپ کو دکھائی دے گی۔

مثلاً سرزمین مقدس جو کہ اسلام کا نقطہ آغاز ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا روحانی مرکز سمجھا جاتا ہے میں کچھ ایسے اقدامات کیے گئے ہیں یا سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے جنہیں مذہبی فکر ناجائز یا گناہ کبیرہ تصور کرتی ہے مثلاً

1۔ سنیما کلچر کو موجودہ تقاضوں و رجحانات کے عین مطابق یعنی گلیمرس کی رنگینیوں سمیت بحال کیا گیا۔
2۔ دنیا بھر سے خاص طور پر انڈیا سے نامی گرامی اداکاراؤں کو مدعو کیا گیا، جنہوں نے انہی زرق برق اور بولڈ قسم کے کاسٹیوم میں پرفارم کیا جن کے متعلق مذہبی فکر کا ماننا ہے کہ ایسے لباس اور جسم کی وجہ سے زلزلے اور عذاب آتے ہیں مگر سعودی حکومت نے ایسا کوئی برا شگون ذہن میں لائے بغیر کھلے دل کا مظاہرہ کیا۔

3۔ ہالووین فیسٹیول کا انعقاد ہوا اور شیطانی ماسک یا پرسونا لگا کے سعودی باشندوں اور ایلیٹ نے خوب انجوائے کیا اور اپنی اپنی بساط کے مطابق بھرپور ”من چاہییاں“ کیں، جائز و ناجائز کے پیمانوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لمحہ موجود سے خوب حظ اٹھایا۔

4۔ خواتین کے پردے کو ”چوائس“ سے منسلک کر دیا گیا اور اس کا فیصلہ خواتین کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ جیسا بھی گیٹ اپ اختیار کرنا چاہیں کر سکتی ہیں، کوئی مخصوص پابندی نہیں ہوگی۔

5۔ خواتین کو بغیر کسی محرم کے سفری آزادی دے دی گئی اور ان کو ڈرائیونگ کی پابندی سے بھی آزاد کر دیا گیا۔

6۔ ویلنٹائن ڈے انتہائی تزک و احتشام اور جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور اپنے من پسندوں کو رنگ برنگے پھولوں سے نوازا جاتا ہے۔

https://edition.cnn.com/travel/article/saudi-arabia-lgbt-tourists/index.html

اور اب حال ہی میں سعودی عرب نے ہم جنس پرستوں کو بھی اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دے دی ہے اور واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ ”سعودی عرب ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے سیاحوں کو اپنی سرزمین پر خوش آمدید کہے گا“ ان تمام اقدامات کا جائزہ لیں اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹھنڈے دل سے ذرا ٹھہر کے سوچیں کہ

” آج کی دنیا میں تعصب کی گنجائش سکڑتی جا رہی ہے اور انفرادیت کو بنیادی انسانی حقوق کے ضمن میں ایک اہم ستون کا درجہ حاصل ہو چکا ہے“ معاشرے مورل پولیسنگ یا ہارڈ اینڈ فاسٹ قسم کے بے لچک ضابطوں کو زبردستی دوسروں پر تھوپنے سے ترقی نہیں کرتے بلکہ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے سے آگے بڑھتے ہیں۔ مہذب دنیا انسانوں پر انویسٹ کرتی ہے ناکہ مورل پولیسنگ کے نام پر اپنا سرمایہ برباد کرتے ہوئے انہیں انسان سے ”اخلاقی روبوٹ“ بنانے پر مجبور کرتی ہیں۔

اسی ترقی یافتہ ماڈل کا ادراک عرب دنیا کے رہنماؤں کو بڑے اچھے طور پر ہو چکا ہے اور وہ آہستہ آہستہ انہی راہوں پر چلنے لگے ہیں جن راہوں پر چلنے سے یورپ آج ترقی و خوشحالی کی منزل تک پہنچ چکا ہے اور ان کے عوام وہ تمام بنیادی سہولیات انجوائے کر رہے ہیں جن ہر انسان کا پیدائشی حق ہوتا ہے۔

اب حالات کا جبر کہیں یا بدلتے تقاضوں کے آگے بے بس ہونا۔ عرب بادشاہ انفرادیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب وہ بھی مذہب کو ہر انسان کا ذاتی فعل قرار دے دیں گے، اس طرف سفر کا آغاز تو ہو چکا ہے۔

ہماری نظر میں ایل جی بی ٹی کمیونٹی کو اپنی سرزمین پر آنے کی اجازت دینا کوئی اچھائی یا برائی کا معاملہ بالکل نہیں ہے اور نہ ہی اس ایشو کو روایتی عینک سے دیکھا جانا چاہیے بلکہ اسے وقت کا تقاضا یا حقائق سے روگردانی کی بجائے کھلے دل سے تسلیم کر لینے کی طرف ایک قدم بڑھانا سمجھنا زیادہ مناسب ہو گا۔

ہمیں تو ”یوم حیا“ منانے والوں کی فکر ہے جن کا ایمان اپنے اپنے چنیدہ کو پھول کی چند پتیاں دینے پر ہچکولے کھانے لگتا ہے وہ ان مکروہات نما تبدیلیوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں یا سعودی حکام کے خلاف کوئی احتجاج یا بائیکاٹ وغیرہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں؟ یہاں تو یہ صالح بزرگ و نوجوان ذرا سے معاملہ پر سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں مگر حیرت ہے کہ اب تک مقدس سرزمین کے مکروہ اقدامات پر خاموش کیوں ہیں؟ ہم یہاں ”کافر کافر“ کھیل رہے ہیں جبکہ ہمارے محترم عربی مسلمان بھائی تعصبات سے اوپر اٹھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور یہود و نصاریٰ سے مل کر اپنی معیشت کو مضبوط بنانے میں لگے ہیں۔

وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگیوں کو آ سودہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور ہمیں یہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ ”ہمارے لوگ دین سے دور کیوں ہوتے جا رہے ہیں“؟ ہمیں ان مذہبی مفکرین کے موقف کا بھی انتظار ہے جو ویلنٹائن ڈے پر انتہائی افسردہ ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے روحانی مرکز میں تو سب ”ڈیز“ بڑے اہتمام سے منائے جانے لگے ہیں۔ ان گستاخیوں پر اتنا سناٹا کیوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments