سندھی سرائیکی سانجھ


آٹھ فروری کو ثقافت و سیاحت ڈپارٹمنٹ سندھ کی طرف سے آرٹس کونسل کراچی میں ”سندھی سرائیکی سانجھ“ کے نام سے پروگرام منعقد کیا گیا۔ سندھو ماتھری اور سرائیکی وسیب ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں، انہوں نے بہت کچھ لٹا کے بھی ”درد اور دریا“ کی شدت بھری گہرائی کا انتر کسی کو نہیں دیا ہے۔ دونوں کے اندر سے بہتی ہوئی نیا ان گنت کہانیوں کو جنم دیتی ہے۔ اس درد کے عمیق رشتے نے کئی افسانے جوڑے ہیں۔ وہ ثقافت، تہذیب و تمدن، لوک ادب شاعری سے اتنے مالامال ہیں کہ کئی بار لوٹ جانے کے باوجود ان کی قلندری دھمال یوں کی توں رواں دواں ہے۔

کبیر جی کہتے ہیں، ”یہ چادر کئی بار دھل چکی ہے پر اس کا رنگ جوں کا توں ہے“ ۔ ان کی آنکھوں کا سکوت، درد کی مسکراہٹ، ہجر کا خمار اور انتظار کی لذت کو کوئی دانا سمجھ نہیں پایا۔ یوں تو شدید انتظار کے درد کو بے دردی سے کئی شاعروں نے وزن در وزن دے کے روندا ہے اور لفظوں میں خماری بھر کے دلوں کو مخمور کرنے کی کوشش کی ہے پر اسی انتظار میں فطرت سے کچھ لمحوں کے لیہ ہی کی گئی باتیں جن میں صدیوں کے انتظار کے سمندر کی پیاس، کچی نیند کے گنگناتے خواب، پرندے، جنگل اور تنہائی سے لڑنا جھگڑنا کوئی کوی ان دانوں کو پرو نہیں پایا۔ یہ لوک ادب، لوک داستان اور لوک شاعری کا کہیں نہ کہیں حصہ ضرور ہیں۔

درد کی چاہت انسان کو صوفی مت کی اور کھینچ کے لے جاتی ہے۔ درد اندر کی سرحدوں کے تناؤ سے اور دنیوی رشتوں کے لگاؤ سے نکلنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ گوتم بدھ سکھ میں کچھ سیکھ نہیں پایا اسے جب محسوس ہوا دکھ ہی اصل دارو ہے تو وہ ہر آرام و آرائش کو چھوڑ کے خود کی کھوج میں نکل پڑتا ہے۔ خود کی کھوج درد و خوشی سے بہت ہی پری ہیں، بظاہر راستہ کٹھن ہے پر اتنی دوری نہیں۔ سنت کبیر بہت ہی خوبصورتی سے اس کو سمجھاتا ہے۔

”جیویں تل مانہیں تیل ہے، جیویں چقمق میں آگ،
تیرا سائیں تجھ میں ہے، جاگ سکے تو جاگ ”۔

کچھ لوگ اس راہ میں نکلنے کا سوچتے ہیں پر ان کا دھیان اوروں کی برائیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ چھوٹے، بڑے، برے، بھلے، اوچ، نیچ میں اس کی سوچیں ڈوب جاتی ہیں۔ غلام فرید بہت ہی مختصر لفظوں میں اس ان تمام مراحل سے نکلنے کا ہنر سکھاتا ہے، ”

نہ غریب نواں دیکھ کے ہسیا کر، نہ بڑی نظر نال تکیا کر
لوکاں دے عیب لبھدا ایں فریدا، کبھی اپنی اندر وی تکیا کر ”

فقیروں کے ساتھ چل کر سب کچھ چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔ صوفی مت کی جستجو کے مسافروں کی زبان ایک ہی ہے خواہ وہ کسی بھی علاقے، رنگ، نسل، مذہب سے تعلق رکھتے ہو۔ درد کے رشتے نے ان تمام پھولوں کو ایک ہی لڑی میں پرو کے رکھا ہے۔ وہ حد کی حدوں سے نکل کر بے حد کے باسی بن گئے ہیں۔ لطیف، فرید، سچل، بلے شاہ، کبیر، نانک، تلسی، میراں، باہو انہوں نے پابندیوں سے خود کو آزاد کیا ہے۔

صوفی مت سے جڑے شاہکار کردار دانائی کے بجائے دیوانگی کو اولیت دیتے ہیں۔ وہ ہر درد کو دوا سمجھتے ہیں اور اسی بڑے وثوق سے قبول کرتے ہیں۔ وہ آنسوؤں سے پاک اور سفاک بن جاتے ہیں۔ ”کوئی تو ہمدرد ہوا ہمارا، آپ نہ آئے آنسو آئے“ ۔ انہیں ہونے اور نہ ہونے کا انتر نہیں رہتا، وہ رجنیش اوشو کی زباں میں بنا بادشاہت کے ہی بادشاہ بن جاتے ہیں۔ وہ چاہت اور چنتا دونوں کی تفریق سے بالا ہو کر بس لین ہو جاتے ہیں۔

صوفی پرش کی آنکھوں کی روشنی آنسوؤں کے ساتھ بہتی نہیں پر دھونے سے اور بھی پاک ہو کے چمکنے لگتی ہے

سرائیکی وسیب کے باشندے شکایت نہیں حجت کرتے ہیں وہ حجت جو کبھی آشو لال کی زبانی میراں کے گھنگھرو باندھ کر ہمیں جھومنے پر مجبور کرتی ہے تو کبھی رفعت عباس کی تڑپ بن کر پورے سندھ کی یاترا کراتے ہے۔

ایاز گل نے خوب کہا ہے کہ ”فاصلے، فاصلے بڑھاتے ہیں“ اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ جب یہ فاصلے گلزار جی کی زباں میں ”بالشتوں سے ناپیں گے“ تو سرائیکی اور سندھی میں کہیں بھی دوری کی جگہ نہیں۔ یہ بات تاریخ کا حصہ رہے گے کہ سردار شاہ جس کا نیلے گگن کی ڈالی سے کئی تارے توڑ کے لانے کے ساتھ، ساگر کے منجدھار سے کئی موجیں موڑ کے بھی لاتا ہے، من ماہی گیر مچھیرا ہے تبھی تو درد اور دریا کے بات کر کے دونوں کو ایک دیکھنا چاہتا ہے۔

سانجھی یا سانجھ کا مطلب ایک یا ایکاگر میں ہونا۔ ”میں تجھے دیکھوں، تو مجھے دیکھ، دونوں ہوجائیں ایک“ ۔ جسے کرشن بھگوان گیتا میں کہتا ہے، ”ایک ہوم شوہوم“ جو تو ہے وہی میں ہوں۔ اور اس ایک ہونے سے دکھ، مشکلات اور تکلیفیں توڑی نہیں بلکہ جوڑتی ہے، ہجر کا انتظار بکھیرتا نہیں پر سمیٹتا ہے۔ پھر عشق اندھا نہیں رہتا اس میں نور آ جاتا ہے وہ نور جسے گرو نانک کہتا ہے ”ایک ہی نور سے سب جگ اپجا، کون چگے کون منڈے“ ۔

جسے شاہ لطیف کہتا ہے ”جہاں بھی نگاہ جائے وہاں صرف صاحب ہی صاحب نظر آئے“ ۔ صوفی منش کے دھر دھندش کی الٹی دھارا ہے، جسے شاہ لطیف کو ”آنکھیں بند ہونے سے سب نظر آتا ہے اور آنکھیں کھولنے سے کچھ بھی نہیں“ جسے سنت کبیر دھرمی کو دھکے کھانے اور پاپی کو سورگ جانے کا سندیش دیتا ہے۔ بس وہ ”گلھ اک نقطے دی ہے۔ شاکر شجاع آبادی فرماتے ہیں ؛

اساں اجڑے لوک مقدراں دے،
ویران نصیب دا حال نہ پچھ
توں شاکر آپ سیاں ا ایں
ساڈا چہرہ پڑھ حالات نہ پچھ ”

ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کچے دھاگوں سے بندھا ہوا رشتہ دن بہ دن اور دوسرے کے درد کو محسوس کر کے مضبوط ہو گا۔ اس طرح کے پروگرام نہ صرف دونوں اطراف کی ثقافت، تہذیب و تمدن کو اجاگر کریں گے پر آنے والی نسلیں اس گہرے رشتے سے ہمیشہ جڑی رہیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments