لاڈلا شدت پسند


پاکستان میں کٹر جمہوری اور لبرل لوگ تحریک لبیک کو شدت پسند تنظیم کہتے تھے جبکہ 2017 سے 2022 تک تحریک لبیک کے فیض آباد، چوک یتیم خانہ، مریدکے اور حویلیاں میں 60 سے زائد کارکن جان بحق ہوچکے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف نے جمہوری اور لبرل لوگوں کی توقعات کے برعکس ثابت کر دیا ہے کہ وہ شدت پسند جماعت ہے۔ جس کے نزدیک ملک، آئین، قانون، حکم، عدالت، فوج اور حکومت صرف عمران خان کا نام ہے اس کے علاوہ سب ہمارے دشمن ہیں۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ، میانوالی ائر بیس کے باہر کھڑا جہاز، جی ایچ کیو پر حملہ، پشاور میں ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ پر حملہ، کراچی میں رینجرز کی چوکی جلانا، 60 سے زائد گاڑیاں جلانا جن میں پولیس کی گاڑیاں اور ایمبولینس بھی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ کوئی سیاسی جماعت نہیں کر سکتی بلکہ تربیت یافتہ شدت پسند ہی کر سکتے ہیں۔ عمران خان پاکستان کے پہلے سیاستدان نہیں جن کو گرفتار کیا گیا۔

پاکستان بننے کے فوری بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کو ٹائپ رائٹر چوری کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا، بھینس چوری، ٹریکٹر چوری، بجلی چوری سمیت کئی درجنوں عجیب و غریب مقدمات میں سیاستدانوں کو گرفتار کیا گیا، عمران خان کے دور حکومت میں ہی 58 کے قریب افراد کو نیب نے گرفتار کیا جبکہ مریم نواز کو دوسری مرتبہ کورٹ لکھپت جیل سے چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتار کیا گیا جو کیس مشرف دور میں ہی بنا اور اسی دور میں اس کیس کی فائل کلوز ہو گئی تھی، پھر اسی کیس میں نواز شریف کو بھی کورٹ لکھپت جیل سے گرفتار کیا گیا۔

عمران خان کی گرفتار پر جو ردعمل آیا میں نے اپنی زندگی میں ایسا ردعمل صرف دو مرتبہ دیکھا پہلی بار جب بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا دوسری بار جب تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کو گرفتار کیا گیا، پیپلز پارٹی اور تحریک لبیک کے کارکنوں نے جلاؤ گھیراؤ کیا، سڑکیں بلاک کی لیکن عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں نے سب سے پہلے کور کمانڈر لاہور کے گھر پر حملہ کیا، پھر جی ایچ کیو، پھر میانوالی ائر بیس پر حملہ کیا پھر اگلے دن پشاور میں ریڈیو پاکستان پر حملہ، تحریک انصاف کے کارکنوں نے شاید اس لیے ایسا کیا کہ رینجرز نے عمران خان کو گرفتار کیا تھا۔

تحریک انصاف کے لوگوں کا ایسا ردعمل میں میرے لیے کوئی باعث تعجب نہیں تھی کیونکہ پہلی بار 2014 میں ڈی چوک میں دھرنے کے دوران بھی وہ پولیس افسران اور اہلکاروں پر تشدد کرچکے ہیں، پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ کیا، سپریم کورٹ کے دیوار پر گندے کپڑے لٹکائے، پھر 2016 میں بھی ایسا ہی ہوا، پھر 2022 میں 25 مئی کو بھی لاہور اور اسلام آباد میں یہی کچھ ہوا، اب 9 اور 10 مئی کو بھی وہی تاریخ تحریک انصاف نے دوہرائی، ہر بار عدلیہ نے عمران خان اور ان کی جماعت کو ریلیف دیا۔

پارلیمنٹ حملہ کیس میں تحریک انصاف کی لیڈرشپ کو بھی انہی عدالتوں نے بری کیا اب فوجی تنصیبات پر حملے کے مقدمات میں بھی یقینی طور پر ایسا ہی ہو گا۔ پاکستان کی بھارت کے ساتھ تین جنگیں ہو چکی ہیں، 75 سال سے مسلسل بھارت پاکستان تخریب کاری کر رہا ہے لیکن آج تک بھارت نے کبھی جی ایچ کیو یا دیگر فوجی تنصیبات پر حملے کی جرات نہیں کی، بھارت کے کسی فوجی جنرل یا سیاستدان نے پاکستان کی فوج کے آرمی چیف اور دیگر افسران کے خلاف وہ الفاظ استعمال نہیں کیے جو عمران خان اور ان کی جماعت نے کیے۔

اگر پچھلے ایک سال کے مشاہدے کو دیکھا جائے تو تو عمران خان فوج کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھ رہا ہے جبکہ اسی فوج نے عمران خان کو حکومت دی اور چلائی۔ آج وہ فوج عمران خان کے نزدیک سب سے بڑی اس کی جان کی دشمن ہے۔ مسلسل جھوٹے اور بے بنیاد الزامات نے عمران خان کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔ عمران خان ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہے جس کو لگتا ہے کہ میرے علاوہ تاحال کوئی شخص ملک چلانے کا اہل نہیں ہے۔ جس طرح عمران خان کی جماعت نے فوجی تنصیبات پر حملے کیے اس سے سب سے زیادہ خوش بھارت ہو رہا ہے کیونکہ جو کام بھارت اربوں روپے خرچ کر کے کرتا ہے عمران خان کی جماعت نے مفت میں کر دیا ہے۔

عمران خان کے دور حکومت میں تحریک لبیک کے بندے بھی مارے گئے اور ان کو کالعدم بھی قرار دے دیا۔ آج تحریک انصاف نے باقاعدہ فوجی تنصیبات پر حملے کیے آگ لگائی پھر شہباز حکومت تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے سے گھبرا رہی ہے۔ شاید شہباز شریف کو ابھی بھی تحریک انصاف میں پرامن سیاسی جماعت ہونے کی جھلک نظر آ رہی ہے۔ شہباز شریف کا ضرورت سے زیادہ بزدلانہ رویہ ان کے اپنے ہی گلے پڑ رہا ہے۔ عمران خان کو گرفتار کر کے نیب نے الگ سے ہیرو بنا دیا ہے سونے پر سہاگہ جسٹس بندیال نے ان کی رہائی کا آرڈر کر کے کر دیا۔

اس سارے کھیل تماشے میں سب سے زیادہ ذلت شہباز شریف کو اٹھانا پڑی۔ جبکہ مریم نواز اپنے والد کے بیانیے کو تاحال زندہ رکھے ہوئے ہیں مریم نواز کے جارحانہ طرز سیاست سے شہباز شریف کو حکومت ملی لیکن شہباز شریف کی ترجیحات سے لگ رہا ہے وہ بہت مطمئن ہیں۔ عمران خان کی گڈی چڑھانے میں شہباز شریف کے بزدل پن کا بھی مرکزی رول ہے جو تیرہ ماہ سے مصلحت پسندی کا شکار ہیں۔ لاڈلا جتھوں اور بلوائیوں کی سیاست کے بعد شدت پسندی کی سیاست پر اتر رہا ہے لیکن شہباز شریف پر ابھی بھی نیم حکیم سیاست کا بھوت سوار ہے۔ اس سلسلے کو فی الحال بریک لگتی نظر نہیں آ رہی مجھے تو الیکشن بھی خونی نظر آ رہا ہے۔ تحریک انصاف جس طرح کا طرز سیاست اپنا چکی ہے اس سے واضح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے الیکشن پاکستان کے مہنگے ترین اور خونی الیکشن ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments