خدائی طاقت کے دعویدار؟


دنیا بھر میں قانون کی عدالتیں ہوتی ہے چند سال پہلے تک ہم پاکستان میں بھی یہی سنتے آرہے تھے کہ قانون کی عدالت میں، قانون کی نظر میں، قانون کے سامنے۔ مگر اب پاکستان میں قانون کی عدالت نہیں بلکہ عدالتوں کا قانون چلتا ہے۔ برا یا بھلا ہو افتخار چوہدری کی بحالی کے لئے ایک کامیاب وکلاء تحریک کا ۔ جس میں سیاسی جماعتوں سمیت عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ڈکٹیٹر اور آمر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔

مگر بد قسمتی سے اس تحریک کا افسوس ناک پہلو یہ نمودار ہوا کہ اداروں کی بجائے شخصیات کی مضبوطی کا تصور اجاگر ہوا اور افتخار چوہدری نے اپنے عہدے پر بحالی کے بعد اس طاقت کا بھرپور اظہار کیا۔ اس کے دور کو سوموٹو کا دور کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد محترم ثاقب نثار نے مزید دو قدم آگے بڑھ کر سپریم کورٹ جیسے آئینی عدالت کو انوسٹی گیٹیو ایجنسی اور سپروائزری رول بھی دے دیا۔ ہم تو اس وقت بھی یہی رونا رو رہے تھے کہ یہ ذاتی بغض اور انا ء کی تسکین اور اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہو رہا ہے اور غلط اور غیر آئینی ہے مگر اب تو بچہ بچہ جانتا بھی ہے اور جنھوں نے نواز شریف کو ہٹانے اور عمران خان کو لانے میں کردار ادا کیا، وہ اعتراف بھی کر گئے۔

جس طرح جنرل باجوہ نے اپنے عہدے کے آخری دنوں میں اعتراف جرم کر کے مستقبل میں ادارے کے لئے غیر جانبدار رہنے کا وعدہ کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موجودہ چیف جسٹس بھی اپنے سابقہ چیف جسٹس کی غلطیوں اور من مانیوں کا اعتراف کرتے اور مستقبل میں ملک و قوم کی فلاح کے لئے اپنے آپ اور اپنے ادارے کو غیر جانبدار رکھ کر صرف آئین و قانون کی تشریح تک محدود کرتے۔ مگر افسوس صد افسوس۔ کہ اعتراف جرم اور غیر جانبداری تو درکنار، چیف جسٹس صاحب تو اپنے پیشرو سے بھی دو ہاتھ آگے نکل کر خدائی طاقت کے دعویدار بن گئے۔

مثلاً ایک ہی شخص کے فائدے کے لئے آئین کے ایک ہی آرٹیکل کی دو دفعہ دو قسم کی تشریحات کرنا بلکہ آئین کو بدلنا کیا ہے کیا کسی جمہوری ملک میں فرد واحد کے لئے ایسے اختیارات کی گنجائش ہے؟ ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمات پر جلد بازی میں سوموٹو لینا، حکومت ریاست اور بار کی درخواستوں کو رد کرنا، ہم خیال ججز کے ذریعے الیکشن کمیشن حکومت اور سٹیٹ بنک کے اختیارات پر قبضہ کرنا اور کسی لاڈلے کو کھیلنے کے لئے چاند فراہم کرنے کی تگ و دو کیا خدائی طاقت کا حصول نہیں۔

سو سے زیادہ مقدمات میں مطلوب ایک شخص ساٹھ ارب روپے کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ توشہ خانہ چوری کیس میں ان پر فرد جرم عائد ہوتی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اس گرفتاری کو قانونی قرار دیتی ہے مگر پھر ملزم اپنے پارٹی عہدیداروں کے ذریعے سپریم کورٹ پیغام پہنچانے کی ہدایت کرتا ہے، پیغام پہنچتا ہے اور چیف صاحب۔ تمام آئینی و قانونی حدود و قیود اور اپنے منصب کے قانونی اور اخلاقی تقاضے بالائے طاق رکھتے ہوئے ریمانڈ پر دیے ہوئے ملزم کو فوری بلانے کے احکامات صادر فرماتے ہیں۔

نہ صرف ریمانڈ میں دیے گئے ملزم کو حاضر کیا جاتا ہے بلکہ تاریخ نے ایک چیف جسٹس کی زبان سے وہ شرمناک جملہ بھی سن لیا کہ وہ بھری عدالت میں ایک ایسے ملزم سے جس پر نہ صرف فرد جرم عائد ہو چکی ہے بلکہ جس کی ہدایات پر ان کے کارکنوں نے دو دن میں ملک کا ستیا ناس کر دیا۔ فرماتے ہیں کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔ چیف صاحب۔ کہنے کو تو یہ ایک جملہ ہے جو آپ نے فرط جذبات میں ادا کر دیا اور اس وقت آپ کو اس لئے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے کہ آپ آئین و قانون سے ماورائی خدائی طاقت کے دعویدار بن چکے ہیں مگر یہ جملہ مرتے دم تک آپ کا پیچھا کرتا رہے گا۔

پھر دنیا نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے درجن بھر ججز کو اس خدائی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے دیکھا۔ اور انھوں نے چیف جسٹس کی خواہش اور ہدایات کی روشنی میں ایسی ایسی رعایتیں دی۔ جس کا انھوں نے تقاضا بھی نہیں کیا تھا۔ بے شرمی اور غلامی کی انتہا دیکھئے کہ ایک ہی دن میں ایک شخص کو ہر حال میں رہا کر نے کے لئے ایک ہی عدالت کے چار بینچز نے دن رات ایک کر دیا ہے۔ عوام کے لئے یہی عدالت جمعہ کے روز ساڑھے گیارہ بجے بند ہوجاتی ہے مگر لاڈلے کے لئے صبح آٹھ بجے آنے والے ججز صاحبان رات آٹھ بجے تک نہ صرف موجود رہے بلکہ معاون سٹاف کی ذمہ دار بھی خود لے کر فیصلے ٹائپ کرتے اور جاری کرتے رہے۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کی جانب سے جو بھی درخواست آتی حتی کہ زبانی فرمائش پر بھی احکامات جاری کیے جاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حیران کن نہیں بلکہ شرمناک طور پر یہاں تک احکامات جاری کیے کہ انہیں کسی نامعلوم مقدمے میں بھی گرفتار نہ کیا جائے۔ بقول رانا ثناء اس فیصلے کے مطابق اگر عمران خان باہر دو چار قتل بھی کردے تو انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکے گا۔ کیا یہ خدائی طاقت کی دعویداری نہیں؟

پھر وہی اسلام آباد ہائی کورٹ جس نے دو دن پہلے عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دے دی تھی ان کو نہ صرف ضمانت پر رہا کرتے ہیں بلکہ اس کیس میں کارروائی بھی روک دیتے ہیں جس میں ان پر فرد جرم عائد ہو چکی ہے۔ وہی لوئر کورٹ جس نے عدت میں نکاح کیس میں تمام فریقین کو سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ فیصلہ صادر فرماتے ہیں کہ یہ کیس تو ان کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں۔ کیونکہ انہیں بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ خدائی طاقت کے دعویدار کیا چاہتے ہیں۔

جہاں تک چار دن میں سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصانات اور اس میں سیکیورٹی اداروں کی کمزوری کا سوال ہے۔ یہ ایک اور شرمناک کہانی ہے۔ اگر یہ سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت افسران کے حکم پر ہوا ہے تو اس پر انکوائری بنا کر افسران پر فوج کو دنیا بھر میں رسوا کرنے کا مقدمہ چلایا جائے۔ اگر یہ سب کچھ موقع پر موجود جوانوں کی کمزوری عدم صلاحیت یا اس وجہ سے ہوا ہے کہ انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہو تو پھر جواب دیا جائے کہ قبائلی اضلاع سمیت ملک بھر میں دہشت گردوں کو بے دردی سے کیوں قتل کیا جاتا ہے۔

کل پرسوں عدالت اور پارلیمنٹ کے درمیان کیا ہوتا مجھے اس سے سروکار نہیں مگر پاکستان کی تاریخ میں یہ ضرور لکھا جائے گا کہ افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کے بعد عطا بندیال ایک ایسے چیف جسٹس بن گئے تھے جنھوں نے صدر وزیر اعظم انتظامیہ مقننہ اور تمام ریاستی اداروں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر خدائی طاقت کا دعوی کر دیا تھا اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہوا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments