گوا میں شنگھائی اجلاس


بھارت کے شہر گوا میں منعقد ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت نے پاک بھارت تنازعہ کے بند زخموں کے منہ کھول دیے، دونوں ممالک کے سفارتکاروں، بپھرے ہوئے میڈیا اور تجزیہ کاروں نے ماضی کی تلخیوں کو زندہ کرنے میں سبقت لے جانے کی کوشش میں کئی سنگ میل عبور کر لئے۔ 1947 میں برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد سے دونوں پڑوسی ممالک کے مابین تعلقات کبھی ہموار نہیں رہے تاہم بھارت میں مودی سرکار قائم ہونے کے بعد صورت حال زیادہ گمبھیر ہوئی خاص کر 2019 میں کشمیر میں ہندوستانی فوج کانوائے پر خود کش حملہ نے اس وقت کشیدگی بڑھا دی جب نئی دہلی نے حملہ کا الزام پاکستان پر لگایا۔

2019 ہی میں، نئی دہلی نے اپنے زیر کنٹرول کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اس دیرینہ تنازعہ کو زیادہ گنجلک بنا دیا تاہم ان پیچیدہ مسائل کے باوجود پاکستانی وزیر خارجہ کے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے گوا جانے کا فیصلہ بھارت کے لئے غیر متوقع تھا، ان کا خیال تھا کہ پاکستان ویڈیو لنک پہ اکتفا کرے گا لیکن پاکستانی وزرات خارجہ نے مسٹر بھٹو کو بھارت بھیج کر بھارتی اشرافیہ کے لئے مشکل پیدا کر دی۔

بلاول بھٹو بھی اپنے سفر کے مضمرات بارے محتاط تھے، گوا روانگی سے قبل انہوں نے ٹویٹر پہ لکھا ”میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل میں پاکستانی وفد کی قیادت کروں گا، اجلاس میں شرکت کا فیصلہ شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر کے تئیں پاکستان کے مضبوط عزم کی عکاسی کرتا ہے“ ۔ امر واقعہ بھی یہی ہے کہ دورہ کے دوران پاکستان نے بھارتی وزیرخارجہ سے دوطرفہ امور پہ بات چیت کی کوئی درخواست نہیں کی تھی۔ اگرچہ کچھ تجزیہ کاروں نے، وزیر خارجہ کا شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لئے بھارت جانے کو حریفوں کے درمیان مستقبل قریب میں بات چیت کے لئے راہ ہموار بنانے کی مساعی سے تعبیر کیا لیکن مسٹر بلاول کی ہندوستانی ہم منصب سے ملاقات کے لیے سازگار ماحول کی عدم موجودگی دورہ پہ سایہ فگن رہی۔

چونکہ نئی دہلی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر کے کشیدگی بڑھائی اس لئے کسی بھی پاکستانی حکومت کے لئے بھارت کے ساتھ بات چیت کا انتخاب، اندرون ملک اس کے خلاف ردعمل پیدا کر سکتا ہے اس لئے بلاول کے لئے یہ ضرور تھا کہ وہ مودی حکومت سے محفوظ فاصلہ برقرار رکھے۔ بلاول بھٹو نے کہا، کشمیر میں بھارت کے 2019 کے اقدامات نے ماحول کو خراب کیا، چنانچہ اب یہ ذمہ داری بھارت پر ہے کہ وہ ایسا ماحول پیدا کرے جس میں بات چیت ہو سکے لیکن بھارتی الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے نریندر مودی کے لئے اس طرح کے مطالبات پر دھیان دینا ممکن نہیں ہو گا، شاید اسی لئے بلاول بھٹو بھی دو طرفہ محاذ پر کسی بھی اقدام کے لیے سفارتی لحاظ سے پیٹھ پیچھے ہاتھ باندھ کر ہندوستان گئے۔

اس سب کے باوجود، حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان نے شنگھائی کانفرنس میں شرکت کی دعوت اور پاکستانی صحافیوں کو بھارتی ویزے جاری کیے ، ہندوستانی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کے درمیان سائیڈ لائنز رابطے دونوں ممالک میں انتخابات کے بعد مستقبل میں بات چیت کے لیے کچھ زمین تیار کر گئے بلکہ کچھ نہ ہونے سے بہتر ہوا، اگرچہ مسٹر بھٹو دورہ بھارت سے زیادہ کچھ حاصل نہیں کر سکے لیکن خارجہ پالیسی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دورہ مکمل طور پر لاحاصل بھی نہیں تھا۔

قبل ازیں 2011 میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ہندوستان کا اس وقت دورہ کیا جب وہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ تھیں۔ مئی 2014 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے دہلی گئے۔ دسمبر 2015 میں سشما سوراج نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے چند دنوں بعد نریندر مودی نے اس پاکستان کا مختصر دورہ کیا، پاکستان کا آخری وزیر سطح کا دورہ سرتاج عزیز نے 2016 میں کیا تھا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی دعوت جنوری میں بھجوائی گئی، جب وزیر اعظم شہباز شریف نے العربیہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان، بھارت سے تین جنگوں کے بعد پرامن طور پہ رہنے کے لئے بات چیت کو تیار ہے۔

تاہم بعد میں وزیر اعظم آفس نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے کشمیر پر 2019 کے اقدامات کو منسوخ کیے بغیر مذاکرات ممکن نہیں ہوں گے۔ پاک و ہند کے درمیان تعلقات اس وقت شدید تناؤ کا شکار ہو گئے جب فروری 2019 میں ہندوستان کے جنگی طیاروں نے پلوامہ حملہ کے ردعمل میں بالاکوٹ میں جیش کے مبینہ کیمپ کو نشانہ بنایا، پھر اگست 2019 میں ہندوستان کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں منقسم کرنے کی پیش دستی نے جلتی پہ تیل کا کام کیا۔

اسی تناظر میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری کو دہشت گردی کی صنعت کو فروغ اور جواز فراہم کرنے والا ترجمان قرار دیا۔ مسٹر جے شنکر نے گوا میں شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ میٹنگ کے بعد کہا ”دہشت گردی کے متاثرین دہشت گردی کے مسئلہ کے حل کی خاطر دہشتگردی کے محرکین سے کیسے بات کر سکتے ہیں۔ مسٹر جے شنکر نے کہا، بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملک کے وزیر خارجہ کے طور پر یہاں آئے، جو کثیر جہتی سفارت کاری کا حصہ ہے، ہمیں اس سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتا“ ۔

ایس سی او کی میٹنگ میں بھی مسٹر شنکر نے دہشت گردی سے لڑنے کے لیے متحد کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا، دہشت گردی سے صرف نظر شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے برا ہو گا، ہمیں کسی بھی ریاست کو غیر ریاستی عناصر کے پیچھے چھپنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گوا میں ایس سی او کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں جن وجوہات کی بنا پر شرکت کا انتخاب کیا، اس میں دہشتگردی سے نمٹنے کی مشترکہ کوششوں کا احساس شامل تھا، دہشتگردی چونکہ تمام رکن ممالک کے لئے باعث تشویش تھی، اس لیے بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کی سوچ سے باخبر رہنا چاہتے تھے تاکہ مسئلہ کو اجتماعی طور پر حل کیا جا سکے۔

یہ جانتے ہوئے کہ بھارت دہشت گردی کے معاملے پر بالواسطہ طور پر پاکستان کو نشانہ بنائے گا، وہ اپنی بات بھی بتانا چاہتا تھا کہ پاکستان خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے، میڈیا سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا ہم خود دہشتگردی کے متاثرین میں سے ہیں اس لئے وہ کسی بھی طور دہشت گردی کی حمایت نہیں کر سکتے، سب کو ریاستی اور غیر ریاستی عناصر میں فرق کرنا ہو گا، پاکستان نے دہشت گردی اور منی لانڈرنگ کے استرداد کے لئے ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کی تعمیل کی، چنانچہ بھارت کے لئے دہشت گردی کو سفارت کاری کا ہتھیار بنانا مناسب نہیں۔

انہیں شنگھائی تعاون تنظیم کے موجودہ سربراہ کے طور پر ہندوستان کی ذمہ داری کے ایک حصے کے طور پر مدعو کیا جانا تھا، کسی ملک کے ساتھ اپنے دوطرفہ تعلقات کی خراب حالت کو جواز بنا کر پاکستان کو مدعو نہ کرنا سنگین سفارتی تنازعہ کا باعث بنتا۔ شنگھائی کانفرنس کو بلاول نے بھارتی حکمراں اشرافیہ سے ہٹ کر پریس کے ذریعے ہندوستانی عوام سے براہ راست بات کرنے کے موقع کے طور پر کو استعمال کیا۔ دسمبر 2022 میں اقوام متحدہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ”گجرات کے قصائی“ کہنے کے ردعمل میں بھارتی میڈیا نے انہیں 1971 میں پاکستان کی طرف سے بنگالیوں اور ہندوؤں کے خلاف جارحیت اور اپنی اقلیتوں سے ناروا سلوک کی یاد دلائی۔

مگر بھٹو زرداری کا بھارتی صحافیوں کو انٹرویوز میں اصرار رہا کہ پاکستان اس وقت تک بات چیت نہیں کرے گا جب تک بھارت آرٹیکل 370 میں ترمیم کر کے 5 اگست 2019 کے فیصلے کو واپس نہیں لیتا کیونکہ آرٹیکل 370 میں ترمیم اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان سے دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، بھارت کشمیر میں آبادی کا تناسب بدل کے مسلمانوں کو اقلیت بنانا چاہتا ہے، جان بوجھ کر پوری کشمیری قیادت کو جیلوں میں ڈالنا اشتعال انگیزی کے سوا کچھ نہیں۔

انڈیا کی طرف سے کشمیر میں شر انگیزی بڑھانے کو پاکستان ایک دہائی قبل شروع ہونے والے CPEC منصوبے کے خلاف بھارتی سازشوں کے طور پہ دیکھتا ہے۔ دہشتگردی کے لئے غیر ریاستی اداکاروں کی پشت پناہی کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ نے کلبھوشن یادیو کے معاملہ کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی پاکستان میں سرکاری سطح پہ دہشت گردی کے ثبوت کے لئے نیوی کے سینیئر افسر گلبھوش کے اعترافات کافی ہیں۔ انڈیا ٹو ڈے سے انٹرویو میں بلاول نے کہا، بھارت کے ممبئی حملوں کے مجرموں کو پکڑنے میں مقدمے کی پیروی میں عدم تعاون اور گواہوں کو جرح کے لیے پاکستان نہ بھیجنے کی وجہ سے معاملہ وہیں رک گیا، انہوں نے سمجھوتہ ایکسپریس حملہ میں مارے جانے والوں کو سزا نہ ملنے کے علاوہ بلقیس بانو گینگ ریپ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے، بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو بھی اٹھایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments