ہزاروں سال قدیم علاقہ میلوحا کہاں تھا؟


میلوحا کہاں تھا؟ اس سوال پر مؤرخین اور محققین نے خوب بحث کی ہے۔ ماہرین نے سومیری اور میسوپوٹیمیا تہذیبوں کے ساتھ میلوحا کے تجارتی تعلقات کی روشنی میں بحث کی ہے، کسی نے بھی میلوحا یا میلوہا کے صحیح محل وقوع یا جگہ کی وضاحت یا نشاندہی نہیں کی ہے۔ سمیرین کی تحریروں کے مطابق بحرین کے ڈلمون اور پاکستان کے مکران اس وقت سمیرین اور میلوحا کے درمیان تھے۔ جب کہ میسوپوٹیمیا کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہندوستان کے ایک علاقے یعنی وادی سندھ میں واقع تھا۔ میسوپوٹیمیا کے متنی شواہد میلوحا کو موہنجو داڑو کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔ یقینی طور پر، میسوپوٹیمیا کے متنی محل وقوع اور وضاحت کو میلوحا کو موہنجو داڑو کے طور پر مانا جاتا ہے لیکن مستند رائے کے لیے تاریخی حوالوں کی ضرورت ہے۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ”میسوپوٹیمیا کے لوگ میلوحا کو سندھ کے علاقے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ دریائے سندھ کا قدیم نام میلوحا تھا“ (کارونیاکارا: 2003 : 169 ) ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ میلوحا کو دریائے سندھ کا دوسرا نام ’مہران‘ کہا سنجھا گیا ہے۔ میلوحا ملک کا نقشہ (Ghose: 2004 : 54 ) پوری وادی سندھ کو ظاہر کرتا ہے۔ نقشے میں انڈس سائٹ ’چاہوں جو دڑو‘ بھی درج ہے۔ چانہوں جو دڑو نواب شاہ سندھ، پاکستان کے قریب موہنجو دڑو سے شمال مغرب کی طرف 160 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

طاہر کا بیان ہے کہ ”تجارت میں اس کا کردار اہم تھا۔ میلوحا اثر و رسوخ کے علاقے میں مختلف قسم کی قیمتی اشیاء پائی جاتی تھیں۔ سونا اور موتی پائے جاتے تتھے۔ اس وقت دراوڑی زبانیں اپنے موجودہ مقام سے باہر بھی بولی جاتی تھیں، خاص طور پر مغربی ہندوستان (گجرات) اور ممکنہ طور پر جنوبی پاکستان (سندھ) میں بولی جاتی تھیں۔“ (طاہر: 2008 : 64، 120 ) ۔

کچھ ماہرین نے بحث کی ہے کہ ”توسی ماہر ایک قدم آگے بڑھتا ہے اور ہمیں یہ یقین دلاتا ہے کہ سندھ کے تاجر سومیر میں تیسرے ہزاریے قبل مسیح کے آخر میں آباد ہوئے تھے اور اس لیے وہاں تیزی سے ضم ہو گئے تھے، جیسا کہ ہم تیسری صدی کے اخر کی میسوپوٹیمیا کی تحریروں سے معلوم کرتے ہیں کہ میلوحا کے لوگ تیسرے ہزاریے قبل مسیح کے، آخر اور دوسرے ہزاریے کی شروعات میں یعنے اکاد کے سارگون کے وقت اور ار۔ سوئم خاندان کے خاتمے کے درمیان ( 3323 سے ​​ 2000 ) قبل مسیح) رہائش پذیر تھے۔ ثبوت کے طور پر اس نے ایک نوشتہ یا تحریر کا حوالہ دیا ہے جس میں ذکر کیا گیا ہے کہ میلوحوں نے اپنی دور دراز زمین سے لکڑی اور دیگر خام مال کی فراہمی کے ذریعے حکمران گوڈیا کے ذریعہ لاگاش میں نئے مندر کی تعمیر میں تعاون کیا۔

یہ بھی ذکر کیا جا سکتا ہے کہ تیسری دہائی ق۔ م کے اختتام تک، جب میلوحا کے ساتھ براہ راست تجارت متنی شواہد کے مطابق ختم ہو گئی تھی، ایک میلوحا گاؤں (ای۔ دورو میلوحا۔ حا) اور میلوحا کے رہائشی یا بیٹے (دوما میلوحا۔ حا) کا ذکر درجن بھر اقتصادیات میں کیا گیا ہے۔ ار سوئم خاندان کے متن، افراد اور قرضوں کی فہرست میں شامل ہے۔

ان کتابوں کے مطابق ایک دوسری عبارت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ”ملوحا کے بیٹے (دوما میلوحا) میلوحا ( سرزمین) کے ایک شخص نے ارور، بن عمار۔ لوکو کو، ٹوٹے ہوئے دانت کی ادائیگی کے طور پر 10 مثقال چاندی بھیجی تھی۔“ (پرکاش، مادھوری: 2008 : 92 ) (چندر، پانڈے : 2010 ؛ 333 ) اگروال بیان کرتے ہیں کہ ”میسوپوٹیمیا کے ادبی حوالوں کی بنیاد پر موہلی بھی میسوپوٹیمیا کی طرف سے میلوحا سے درآمد کی جانے والی اشیاء کی ایک تفصیلی فہرست بھی بنائی ہے، جو عام طور پر سندھ کی تہذیب سے وابستہ رہی ہیں :، سونا، چاندی، تانبا، آبنوس۔ کچھوے کا خول، ایک پرندہ جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کچھ مرغی جیسا تھا، مور، کتے، بلیاں اور بندر ہیں۔“ (اگروال: 2008 : 100 ) ۔

طاہر یہ بھی انکشاف کرتا ہے کہ ”واضح طور پر ایسا لگتا ہے کہ ایک اتفاق رائے سامنے آیا ہے کہ میلوحا، جغرافیائی طور پر، اب پاکستان میں شامل بیشتر صوبوں کو پنجاب اور سندھ کے طور پر احاطہ کرتا ہے“ (طاہر: 2008 : 4 ) ۔

سوال یہ ہے کہ میلوحا کہاں تھا؟ مورخین نے صرف اس کا جواب دیا ہے کہ ”میسوپوٹیمیا میں وادی سندھ کے سمندر کی موجودگی جیسے شواہد کی وجہ سے، اب اسے عام طور پر وادی سندھ کا علاقہ مانا جاتا ہے۔“ (فگن، درانی: 2015 : 358 ) میگا ائر بک 2019 صفحہ نمبر 2 پر ظاہر کرتی ہے کہ سمیرین کے متن میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ میلوحا سندھ میں تھا اور یہ تجارتی راستوں سے سمیری تہذیب سے منسلک تھا اور ان کے درمیان دلمون اور مکران واقع تھے۔

اس سوال کے جواب میں گیونڈیش بتاتے ہیں کہ ”میسوپوٹیمیا کی تحریر میں مکران اور میلوہا کے ساتھ تجارت جو ہندوستان (انڈس، سندھ) میں تھا، بیان کیا گیا ہے۔ میلوہحا کا شہر یا مقام موہنجو داڑو یا ہڑپہ سمجھنا جاہیئے۔ میسوپوٹیمیا کی متنی معلومات مزید بتاتی ہیں کہ میلوحا ایک تہذیب و ثقافت کا نام ہے جہاں پانی کی فراوانی تھی، ہر گھر میں پانی کے کنویں اور غسلخانے تھے اور پانی کا ایک مرکزی تالاب (گریٹ باتھ؟ ) تھا۔ جب کہ کھدائی کے دوران موہنجو دڑو پر مرکزی تالاب (گریٹ باتھ) ظاہر ہوا تھا اور موہنجو دڑو کے ہر گھر میں پانی تھا۔ کمروں کے کمروں کو بنا دیا گیا تھا لیکن یہ حوالہ میلوحا کو موہنجو دڑو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔“ (Gevendish: 2006 : 312 ) ۔

احمد حسن دانی لکھتے ہیں کہ یقینی طور پر میلوحا سے مراد ’ملاح‘ یا ’موہانہ‘ ہے جو دریا یا سمندر کے آدمی تھے۔ ” (دانی: 22 ) ۔ جریدہ“ دی آرکیالوجیکل ریویو (جلد 4، 1995، صفحہ 205 ) صرف دانی کی رائے کی تائید کرتا ہے اور اس کا ذکر کرتا ہے کہ ”ملاح یا مہانہ (کشتی چلانے ہالے ) کے ساتھ مقام کا تعلق کافی قریب ہے۔ یہ میلوحا ہے جس کی شناخت اب عام طور پر سندھ تہذیب کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ میرے خیال میں غالباً تیسری دہائی قبل مسیح میں موہنجو دڑو کی بستی کو مہانہ (ملاح) ’میلوہیں‘ ، ’میلوہینا‘ میلوہیں یا ’موہینا‘ یا موہینا کے نام سے پکارا جاتا ہو گا لیکن میسوپوٹیمیا اور سومیرین نے اپنی زبان کے مطابق اسے میلوحا یا میلوہا کہا ہو گا۔ پھر مقامی طور نام موہیں یا مہیں رہ گیا ہو گا۔ بعد میں 1922 ء میں کھدائی کے بعد ماہرین آثار قدیمہ نے اسے موہنجو داڑو کا نام دیا۔

قیاس قرین ہے کہ میلوہا یا میلوحا ملاح یا موہانہ قبیلہ ہے کا بگاڑ ہو جنہیں ان کی کام یا پیشے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وادی سندھ میں ملاحوں یا مہانہ کی بستیوں کو میلوہا کہا گیا ہو لیکن جس میلوحا کا ذکر ہے وہ شاید ملاحوں یا مہانوں کی ایک اہم اور بڑی بستی تھی جسے غالباً میسوپوٹیمیا اور سمیری باشندے میلوحا گاؤں کہتے تھے۔ اور ممکنہ طور پر، میلوہا کا تلفظ مہانہ کی تحریف ہے۔

مقامی طور پر، موہنجو دڑو کو ’موہین یا موہینجو جو دڑو‘ کہا جاتا ہے۔ برطانوی دور کے سروے ریکارڈ میں موہن جو دڑو کے قریب موہے جی ماڑی کے بھی آثار ہیں۔ تاہم، مارشل گوینڈیش کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موہنجو دڑو میلوہا (شاید مہمانوں یا ملاحوں ) کی ہی بستی تھی۔

یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ کچھ لوگ اسے موئن جو دڑو (مرنے والوں کا ٹیلہ) کہتے ہیں جو مناسب نام نہیں ہے کیونکہ موہنجو دڑو سمیت تمام دریافت شدہ قدیم ٹیلے مردہ لوگوں کی باقیات ہیں۔

بہرحال میلوہن متن یا رسم الخط کے مترجم کا ذکر شو الیشو کے طور پر کیا گیا ہے لیکن کچھ تاریخی بیانات میں بتایا گیا ہے کہ شو الیشو اکادین بادشاہ بھی تھا۔ سمیری تحریروں میں انڈس اسکرپٹ بھی نقش ہے۔ تاہم، یہ مستند طور پر واضح کرنے اور شناخت کرنے کے لیے مناسب اور مستند تحقیق کی کوشش کی جانی چاہیے کہ میلوحا یا میلوہا موہنجو دڑو کا قدیم نام تھا یا یہ پوری وادی سندھ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

کتابیات
کارونیاکارا لیلا، 2003، بدھ مت کی جدید کاری
گھوس سنوجیت، 2004 لیجنڈ آف رام
طاہر نعیم، 2008، وادی سندھ کی تہذیب ’دی میلوہاس‘
پرکاش شرما، مادھوری شرما، کدمبینی پانڈے، 2008، دی لوسٹ سرسوتی تہذیب
گووند چندر پانڈے، دیبی پرساد چٹوپادھیائے، 2010، دی ڈان آف انڈین سولائزیشن
طاہر نعیم، 2008، وادی سندھ کے لوگ ’دی میلوہاس‘
اگروال دھرم پال، 2008، قدیم دھاتی ٹیکنالوجی اور جنوبی ایشیا کی آثار قدیمہ دھرم پال
اگروال فاگن برین ایم، درانی نادیہ، 2015، پیپل آف ارتھ
گیونڈش مارشل، 2006، دنیا اور اس کے لوگ دانی، پاکستان کی تاریخ تھرو ایجز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments