سانحہ 9 مئی: مجرموں کی گرفت کب ہو گی؟


اگست 2011 کا واقعہ ہے۔ شمالی لندن کے ایک نسبتاً پسماندہ علاقے ٹوٹنہم میں پولیس کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ اس ہلاکت کے بعد شہریوں نے مظاہرے شروع کر دیے۔ جلد ہی یہ مظاہرے، فسادات میں تبدیل ہو گئے اور مختلف علاقوں میں پھیل گئے۔ شہریوں نے دکانوں، عمارتوں اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی۔ املاک کو جلا دیا۔ دکانوں اور سٹوروں میں لوٹ مار شروع کر دی۔ برطانیہ کی تاریخ کے یہ بدترین فسادات 4 دن تک جاری رہے۔ اس کے بعد قانون حرکت میں آیا اور حالات پر قابو پا لیا گیا۔

اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعلان کیا کہ ”انسانی حقوق کے بارے میں جعلی فکرمندی کو رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔ لوٹ مار کرنے والوں کی تصاویر پہچان کر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی“ ۔ اور پھر واقعتاً یہی ہوا۔ کم وبیش تین ہزار افراد گرفتار ہوئے۔ عدالتیں دن رات کھلی رہیں۔ استغاثہ کے وکیل ملک کے مختلف حصوں سے لندن آن پہنچے۔ ہنگامی بنیادوں پر ملزموں کے خلاف مقدمے چلے۔ انہیں سزائیں دے کر جیل بھجوایا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق ہر مجرم کو اوسطا 16.8 ماہ قید کی سزا ملی۔ سنتے ہیں کہ یہ سزائیں ان سزاؤں سے چار گنا زیادہ تھیں جو عمومی حالات میں ایسے جرائم کے ارتکاب پر دی جاتی ہیں۔ لندن فسادات میں وہ کم عمر بچے جو چھوٹے موٹے جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔ انہیں بھی معاف نہیں کیا گیا۔ ایک گیارہ سالہ بچی کو فسادات کے دوران ایک دکان کے شیشے توڑنے پر جیل بھجوایا گیا۔ ایک بارہ سالہ بچے کو ایک سٹور سے شراب کی بوتل چرانے پر آٹھ ماہ قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک خاتون کو دو جانگیے چرانے پر جیل بھیجا گیا۔ جلاؤ گھیراؤ سے لے کر لوٹ مار کرنے والے تک کو سزائیں دی گئیں۔ اسے کہتے ہیں قانون کا تحرک اور انصاف کی حکمرانی۔

اب ذرا پاکستان کی طرف نگاہ ڈالئے۔ 9 مئی کو تحریک انصاف کے شر پسند حامیوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ جی۔ ایچ۔ کیو پر چڑھ دوڑے۔ ریڈیو پاکستان پشاور کی تاریخی عمارت کو نذر آتش کیا۔ کور کمانڈر ہاؤس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مویشی منڈی کو آگ لگا دی۔ گاڑیوں کا شو روم جلا دیا۔ شہداء کی تصاویر اور نشانیوں کو اکھاڑ پھینکا۔ ایدھی ایمبولینس سمیت بیسیوں بسوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ ڈنڈے لہراتے، نعرے لگاتے، گالیاں بکتے خوف و ہراس پھیلاتے رہے۔

لوٹ مار کرتے رہے۔ لیکن اتنے دن گزرنے کے بعد اب تک ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے؟ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نت نئے اعلانات ضرور کر رہی ہیں کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ افواج پاکستان کا ترجمان ادارہ آئی۔ ایس۔ پی۔ آر بھی ایک سے زیادہ مرتبہ بیانات جاری کر چکا ہے کہ دنگے فساد میں ملوث لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ تاہم نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ فی الحال یہ سب زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔

تاحال معمولی پکڑ دھکڑ کے علاوہ عملی طور پر کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ پنجاب کی صوبائی حکومت کی حالت زار ملاحظہ ہو۔ بقول وزیر اطلاعات انہیں اطلاع ہے کہ زمان پارک میں شرپسند چھپے بیٹھے ہیں۔ لیکن ان شر پسندوں کو پکڑنے کے لئے انہیں عمران خان کی اجازت درکار ہے۔ کئی دن سے آنیاں جانیاں ہو رہی ہیں۔ کیا دنیا کے کسی ملک میں اس طرح ہوتا ہے؟ کیا کیجئے کہ پاکستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔

اس سانحے کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں جو تاخیر ہو رہی ہے اس پر خود حکومت کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی صاحب نے بھی حکومتی سست روی کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ 2011 ”کے لندن فسادات کے اگلے دن حکومت نے اعلان کیا کہ عدالتیں چوبیس گھنٹے کھلی رہیں گی۔ نہ کوئی جے۔ آئی۔ ٹی بنی، نہ کوئی کمیشن۔ سرسری سماعت کے بعد سزائیں دے دی گئیں۔ سانحہ نو مئی کو بارہ دن گزر گئے ہیں۔

ہم ابھی تک تقریروں سے کھیل رہے ہیں۔ حکومت صرف باتیں کر رہی ہے۔ ابھی تک کارروائی نہیں کی“ ۔ صدیقی صاحب نے درست جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ پارٹی قائدین کے نہایت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ بہت اچھا ہو کہ وہ میڈیا پر بیان جاری کرنے تک محدود نہ رہیں۔ انہیں چاہیے کہ اپنی پارٹی کے اندر یہ معاملہ اٹھائیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی توجہ اس جانب مبذول کروائیں۔

اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ دنگے فساد کے بعد ملزموں کی فوری نشاندہی کی جاتی۔ ان کو گرفتار کر کے ان پر مقدمے قائم کیے جاتے۔ لندن فسادات کی طرز پر عدالتیں دن، رات کھلی رہتیں۔ ملزموں کے خلاف مقدمے چلتے اور انہیں فوری سزائیں ہوتیں۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔ ہمارے عدالتی نظام کا جو حال ہے اس سے انصاف کی امید رکھنا عبث ہے۔ سانحہ 9 مئی کے بعد عدالتوں کا طرز عمل ہمارے سامنے ہے۔ یہ وہ عدالتیں ہیں جو شراب کی ایک بوتل برآمد ہونے پر بھی سوموٹو نوٹس لے لیا کرتی تھیں۔

ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ دنیا میں پاکستان کا تماشا بنا کر رکھ دیا گیا، لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ اندازہ کیجئے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا جج، اس سارے دنگے فساد، لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کو نظر انداز کر کے کرپشن کے ایک کیس میں زیر حراست عمران خان کو عدالت میں دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ انہیں خوش آمدید کہتا ہے۔ ان کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کرتا ہے۔ اور انہیں سرکاری مہمان قرار دے کر رخصت کر دیتا ہے۔ اس صورتحال میں عوام انصاف کی کیا توقع کریں؟

منظر نامہ یہ ہے کہ سرکاری اور نجی املاک کی اینٹ سے اینٹ بجانے والوں اور لوٹ مار کرنے والے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے حکومت ملی نغموں پر مبنی اشتہارات بنانے میں مصروف ہے۔ کور کمانڈر ہاؤس، ریڈیو پاکستان وغیرہ کو جیسے عجائب گھرکا درجہ دے دیا گیا ہے۔ مختلف وفود کے دورے ہو رہے ہیں اور ان دوروں کی میڈیا کوریج۔ سوال یہ ہے کہ مجرموں کا حساب کب ہو گا؟ سچ یہ ہے کہ ہم اعتدال اور توازن سے عاری قوم ہیں۔

اس وقت ساری قوم کو حب الوطنی کا درس دیا جا رہا ہے۔ بلند بانگ دعوے ہو رہے ہیں کہ شہدا ء کی توہین کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔ جی۔ ایچ۔ کیو پر حملہ کرنے والے شر پسندوں کو سزائیں ملیں گی۔ شر پسندوں کو ضرور سزائیں دیجئے۔ لیکن یاد رکھیے کہ فسادات کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ اسی تحریک انصاف نے 2014 کے دھرنے میں فساد مچایا تھا۔ سرکاری ٹیلی ویژن پی۔ ٹی۔ وی پر چڑھ دوڑے تھے۔ موجودہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے عمران خان کو ٹیلی فون پر یہ خبر دی تھی کہ ہمارے لوگوں نے سرکاری ٹی وی پر قبضہ کر لیا ہے۔

عمران خان نے انہیں اس کارکردگی پر شاباش دی تھی۔ کیا اس حملے کے حوالے سے کوئی کارروائی ہوئی؟ کیا پی۔ ٹی۔ وی سرکاری املاک میں شمار نہیں ہوتا۔ عمران خان نے سر عام بل جلائے۔ لوگوں کو سول نافرمانی کی ترغیب دی۔ سپریم کورٹ کا راستہ روکا۔ پولیس والوں کو پھانسی دینے کی بات کی۔ ان کے حامیوں نے پولیس والوں کی مار پیٹ کی۔ ان کے سر پھاڑ ڈالے۔ ان کی تذلیل کی۔ کیا پولیس ہمارا ادارہ نہیں ہے؟ ان کے جوانوں کی کوئی عزت آبرو نہیں تھی؟ کس طرح شیخ رشید احمد جلاؤ، گھیراؤ کی ترغیب دیتے رہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کفن لہراتے اور قبریں کھلواتے رہے۔ ان شر پسندوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ اشتعال پھیلانے والوں کی گرفت کیوں نہیں ہوئی۔ بیشتر کو عدالتوں نے باعزت بری کر دیا تھا۔ اس وقت ریاست نے ان سیاسی شر پسندوں کو ڈھیل دی تھی۔

بہرحال اب دیکھنا یہ ہے کہ سانحہ 9 مئی میں ملوث شرپسندوں، انہیں اشتعال دلانے والوں اور آڈیو لیکس میں جلاؤ گھیراؤ پر شاباشی دینے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments