کیا سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس کا نام ہے؟


چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے کے لئے عدالتی کمیشن کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا ہے اور کمیشن کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ یہ کمیشن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کیا گیا تھا اور اس میں اسلام آباد اور بلوچستان ہائی کورٹس کے چیف جسٹس ارکان کے طور پر شامل تھے۔ کمیشن کا پہلا اجلاس معنقد ہو چکا ہے جبکہ دوسرا اجلاس ہفتہ کو طلب کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کا یہ حکم غیر متوقع نہیں ہے لیکن جس طریقے سے چیف جسٹس اپنی پسند کے ججوں پر مشتمل بنچ بنا کر اہم آئینی، سیاسی اور حکومتی امور میں ’فوری‘ انصاف فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس سے اعتماد سازی کی بجائے افتراق پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ آج کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اس امر پر اصرار کیا کہ عدالت حکومت کا احترام کرتی ہے لیکن حکومت اس کے کام میں مداخلت کر رہی ہے جو غیر آئینی ہے اور اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ دوگھنٹے پر محیط سماعت کے دوران چیف جسٹس نے صرف زیر غور معاملہ تک محدود رہنے کی بجائے ایک بار پھر اس قانون کا حوالہ بھی دیا جس کے ذریعے چیف جسٹس کے سو موٹو اختیارات ریگولیٹ کرنے اور بنچ بنانے کے لئے قواعد و ضوابط میں تبدیلی کی گئی تھی۔ اس طرز گفتگو سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگرچہ جسٹس عمر عطا بندیال خود کو غیر جانبدار اور غیر متعلقہ امور سے لاتعلق ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے تمام اقدامات اور فیصلے ایک خاص ایجنڈے کے تحت انجام پارہے ہیں۔ اسی لئے وہ ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران زیر غور امور تک محدود رہنے کی بجائے ادھر ادھر کے معاملات کو گھسیٹ کر تبصرے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ طریقہ بطور جج ان کی اصابت اور غیر جانبداری کے بارے میں شبہات پیدا کرتا ہے۔

چیف جسٹس نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے کو آئینی اصول کے خلاف قرار دیا اور حکومت کی بدنیتی کی طرف اشارہ کیا۔ مباحثہ کے دوران بنچ میں شامل ججوں نے اس پہلو پر بھی اصرار کیا کہ اس کمیشن کے ذریعے درحقیقت سپریم جوڈیشل کونسل کو غیر موثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ کسی جج کا احتساب صرف جوڈیشل کونسل میں ہی ہو سکتا ہے۔ اس صول کو تسلیم کرلینے کے بعد فطری طور سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ملک کے متعدد ججوں کے خلاف ریفرنس اور شکایات سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی جا چکی ہیں۔ چیف جسٹس کی غیر جانبداری کو مشکوک سمجھتے ہوئے قومی اسمبلی جسٹس عمر عطابندیال کے خلاف ریفرنس لانے کے سوال پر غور بھی کر رہی ہے۔ جسٹس بندیال کو خود بھی اندازہ ہے کہ حکومتی حلقوں میں اس قسم کے احساسات کیوں پائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ انہوں نے مسلسل اعتراضات سامنے آنے کے باوجود اہم آئین و سیاسی معاملات میں چند پسندیدہ و ہم خیال ججوں کو ساتھ ملاکر حکم صادر کرنے کا سلسلہ بند نہیں کیا۔ اس طرح وہ آئین کی بالادستی تو یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہوں گے لیکن ان کی اپنی پوزیشن مسلسل تنازعات کا شکار رہے گی۔ ججوں کے خلاف الزامات پر فیصلہ کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بھی طلب نہیں کیا گیا۔

جسٹس عمر عطابندیال کو ادراک ہونا چاہیے کہ وہ چند ماہ میں چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہونے والے ہیں۔ چیف جسٹس کے طور پر اپنے دور کے بارے میں مثبت تاثر قائم کرنے کے لئے ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ خاص طور سے 9 مئی کے سانحہ اور واقعات کی وجہ سے قومی منظر نامہ پر رونما ہونے والے حالات میں اداروں کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی لئے عسکری قیادت سے توقع کی جا رہی ہے کہ ایک غلطی کی اصلاح کے لئے مزید دو چار غلطیاں کر کے قوم کے لئے مسائل پیدا نہ کیے جائیں۔ یہی امید سپریم کورٹ سے بھی باندھی جاتی ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کرگزشتہ سال ڈیڑھ سال کے دوران ہونے والی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے جسٹس عمر عطا بندیال، سپریم کورٹ میں یک جہتی، عدالتی انتظام میں توازن اور اپنے رویہ میں نرمی پیدا کر کے بطور چیف جسٹس ایک مثبت اور قابل تحسین میراث چھوڑنے کا اہتمام کر سکتے تھے۔ لیکن آئین کی تفہیم کے نام پر حکومت اور پارلیمنٹ کے ساتھ تنازعہ بڑھا کر وہ مسلسل اس مقصد میں ناکام ہو رہے ہیں۔

ملک میں اس وقت شدید سیاسی تناؤ کی صورت حال ہے جبکہ معاشی طور سے قومی معیشت سخت دباؤ میں ہے۔ پاکستان میں پائے جانے والے وسیع الجہت بحران کی متعدد وجوہات ہیں لیکن معیشت کے حوالے ملک میں پایا جانے والا انتشار، تصادم اور بے یقینی سب سے اہم وجہ ہے۔ اس موقع پر ہر ادارے اور فرد کو تصادم و تنازعہ کم کرنے اور کوئی خوشگوار حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ ذمہ داری صرف سیاسی لیڈروں پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ اداروں کو بھی اس میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے۔ سیاسی افتراق کی موجودہ صورت حال میں حکومت و اپوزیشن کے سیاست دان یکساں طور سے بحران کی نوعیت سمجھنے اور ملک و قوم کو اس سے پہنچنے والے نقصان کا احساس کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ بیانات سے بڑھ کر عملی اقدامات کے ذریعے تنازعہ کو بڑھانے اور خود اپنے لئے سیاسی امکانات پیدا کرنے کا جذبہ قومی ذمہ داری پر غالب ہے۔ ایسے میں اداروں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود اس تنازعہ میں حصہ دار نہ بنیں۔ چیف جسٹس، سپریم کورٹ کی حد تک جانبداری کے تاثر کو مستحکم کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ آڈیو لیکس کے معاملہ پر کمیشن کے خلاف آج کی سماعت اور فوری طور سے جاری ہونے والا حکم صرف حکومت کے ساتھ تنازعہ ہی میں اضافہ نہیں کرے گا بلکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ میں تقسیم کو مزید گہرا کرے گا۔

حکومت پر الزام لگانے سے سپریم کورٹ کی یک جہتی اور عزت و احترام میں اضافہ نہیں ہو سکتا ۔ اس کے لئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو خود عملی اقدام کرنے کی ضرورت تھی۔ آج سپریم کورٹ کے بنچ نے بجا طور سے اس آئینی اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کمیشن قائم کرنے کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا ہے کہ حکومت نے اس بارے میں چیف جسٹس سے مشورہ نہیں کیا۔ لیکن اس معاملہ پو غور کے لئے انہوں نے خود اپنی سربراہی میں بنچ بنا کر اپنی غیر جانبداری کو مشکوک بنا دیا۔ کیوں کہ زیر بحث آڈیو لیکس میں خود چیف جسٹس کے متعلقین بھی ملوث ہیں۔ ایسے میں صرف یہ کہنے سے آئین سرفراز نہیں ہو جائے گا کہ ججوں کے خلاف صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے بلکہ انہیں اس عالمگیر اصول انصاف پر بھی عمل کرنا چاہیے تھا کہ اگر کسی معاملہ میں کسی جج کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق ہو تو اسے اس مقدمہ کی سماعت سے گریز کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس اگر خود اس بنچ سے علیحدہ رہتے اور ان ججوں کو بھی بنچ میں شامل نہ کیا جاتا جن پر موجودہ حکومت بار بار جانبداری کا الزام عائد کرتی رہی تو کوئی بھی بنچ شاید یہی فیصلہ کرتا لیکن اس کی نوعیت مختلف ہوتی اور اسے زیادہ قابل اعتبار سمجھا جاتا۔

اس کے علاوہ اگر چیف جسٹس واقعی اس بات سے پریشان ہیں کہ بیرونی عناصر یعنی حکومت سپریم کورٹ میں تقسیم پیدا کرنے کا سبب بنی ہے تو اس پر ریمارکس دینے کی بجائے بہتر ہوتا کہ اس حکومتی فیصلہ کے خلاف درخواستوں پر کارروائی شروع کرنے کی بجائے وہ اپنے ساتھی اور جانشین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے درخواست کرتے کہ وہ ایسے متنازعہ کمیشن کی سربراہی قبول کرنے سے گریز کریں۔ دستیاب معلومات کے مطابق ایسی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل کے دلائل میں کہا گیا ہے کہ آڈیو لیکس کی تحقیقات سے پہلے یہ نکتہ اہم ہے کہ وہ کون سے ادارے ہیں جو شہریوں کی فون گفتگو ریکارڈ کرتے ہیں اور پھر انہیں نشر کر کے بعض مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی کمیشن کے قیام کے بعد یہی اعتراض کیا تھا۔ واضح رہے تحریک انصاف بھی کمیشن کے قیام کے خلاف درخواست دہندگان میں شامل ہے۔ ایسے میں چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم بنچ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس میں یہ اضافہ کر سکتا تھا کہ آڈیوز کی حقیقت جاننے کے علاوہ یہ تحقیقات بھی کی جائیں کہ کون سا سرکاری ادارہ اس قسم کی غیر قانونی ریکارڈنگ میں ملوث ہے۔

چیف جسٹس نے البتہ ایسا کوئی مصالحانہ رویہ اختیار کرنا ضروری نہیں سمجھا بلکہ حکومت کے خلاف دھؤاں دار ریمارکس کے ذریعے ججوں کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ حالانکہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے سب سے اہم یہ ہوتا کہ چیف جسٹس فوری طور سے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کرتے۔ خود کو بھی احتساب کے رضاکارانہ طور سے پیش کرتے اور دیگر ججوں کے خلاف شکایات پر فیصلوں کرنے کا اہتمام کیا جاتا۔ خود احتسابی کے ایسے مظاہرے کی غیر موجودگی میں صرف یہ اعلان کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کہ کون سا ادارہ ججوں کا احتساب کر سکتا ہے۔ جب اس ادارے کو غیرفعال رکھا جائے گا تو ججوں کو مقدس گائے بنانے کے اصول پر ضرور سوال اٹھائے جائیں گے۔ اس وقت یہی صورت حال دیکھنے میں آ رہی ہے۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کا اعتبار بحال کرنے کا ایک نایاب موقع گنوا دیا ہے۔

یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ چیف جسٹس اگرچہ سپریم کورٹ کے منتظم ہوتے ہیں لیکن سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس کا نام نہیں ہے۔ کسی بنچ میں شامل ہو کر جب وہ کسی مقدمہ پر غور کرتے ہیں تو انہیں بھی دوسرے ججوں کی طرح انفرادی رائے کا حق ہی حاصل ہوتا ہے۔ صرف چیف جسٹس کے وقار، اختیار اور دائرہ کار کے بارے میں تنازعہ کھڑا کرنے سے انصاف فراہم کرنے والے اس اہم ترین ادارے کی اہمیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس کا وقار بھی تب ہی بلند ہو سکتا ہے جب وہ ساتھی ججوں میں گروہ بندی کی صورت حال کی سرپرستی نہ کریں اور سپریم کورٹ کے وقار میں اضافہ کے لئے کام کریں۔

چیف جسٹس نے آج سماعت کے دوران ایک موقع پر کہا کہ ’ہمارے پاس اخلاقی طاقت اور انصاف کے علاوہ کوئی دوسرا نظام نہیں ہے‘ ۔ بدقسمتی سے جسٹس بندیال کا طریقہ کار نہ شفاف انصاف فراہم کر رہا ہے اور نہ ہی اس سے عدالت عظمی کی اخلاقی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments