سانحہ 9 مئی


سوال یہ ہے کہ اچانک یہ فساد کیوں برپا ہوا؟ جبکہ بات تو ایک معمول کی گرفتاری کی تھی جس کی کسی قسم کی کوئی پریشانی نا تھی کیونکہ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس بندیال ان کے خیر خواہ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو پھر کیا آفت آ پڑی کہ 9 مئی کو چند گھنٹوں میں ہی ایک منظم شر پسندی شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی ایک منظم فوج کے کئی گھروں اور گاڑیوں کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا؟

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عمران احمد نیازی جو مملکت کے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں وہ اپنے سیاسی فائدے کی خاطر اس طرح کا سیاسی خودکش حملہ کر سکتے ہیں؟ سانحہ 9 مئی ہوئے دو ہفتے گزر چکے ہیں گرد بیٹھ رہی ہے بہت سی معلومات قارئین کو مل چکی ہیں۔ واقعات کی پرتیں کھل رہی ہیں، صاف ہوتا مطلع گواہی دے رہا ہے کہ 9 مئی کا یہ سانحہ نا ہی کوئی سیاسی سرگرمی تھی اور نا ہی وقتی مقامی سیاسی ابال۔ شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ پاکستان کے خلاف مکمل طور پر ایک خوفناک بین الاقوامی منصوبہ تھا جو عمران احمد نیازی کی مقامی سیاسی طاقت کی مدد سے رو بہ عمل لایا جانا تھا۔ گرفتاری محض ایک بہانہ تھا۔ عمران احمد نیازی یا ان کی جماعت اس فساد اور جلاؤ گھیراو میں کس سطح تک شامل تھے میں اس سے لاعلم ہوں نا یہ بات ہماری بحث کا موضوع۔ یہ سوچ ہرگز کوئی ثبوت بھی نہیں ہے کہ یہ محض ایک اتفاق تھا کہ یہ سارے واقعات عمران احمد نیازی صاحب کی گرفتاری والے دن وقوع پذیر ہو گے؟

لیکن اگر جزئیات کو ملا کر دیکھا جائے تو خیال کی تصویر ایسے بنتی ہے کہ گرفتاری کے بعد اس خوفناک منصوبے کے تحت فوجی تنصیبات پہ بلوائیوں کے ذریعے حملے کروا کر ردعمل کو کیش کیا جانا تھا۔ رد عمل یہ کہ جب بلوائی فوجی سنٹرز اور املاک پہ ہلہ بولیں گے تو ظاہری بات ہے فوج مذاکرات میں نہیں پڑے گی بلکہ بلوائیوں سے سختی سے نمٹے گی اور اگر فوج کے اس ردعمل میں کچھ اموات ہو گئیں تو اسے تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پروپیگینڈا سیل کے ذریعے دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں پھیلا دیا جائے گا جس کے نتیجے میں فوج کے ہی اندر سے قیادت کو اس کا ذمہ دار گردانتے سائیڈ لائن کرنے کی بات ہو گی اور یوں فوجی قیادت اور حکومت وقت کو بے دخل کر دیا جائے گا۔

ان واقعات کے ساتھ ساتھ سوال یہ بھی ہے کہ وہ کون سی وجوہ ہیں جو اتنے بڑے فساد کا سبب بنیں؟ اگر سوال کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو جانکاری ملے گی کہ خطے میں چائنہ سی پیک تیزی سے ختم کرنا چاہتا ہے، چینی گوادر میں تجارتی اور ایکپسو سنٹر تیزی رفتاری سے فنکشنل کر رہے ہیں اور ان کی توجہ وہاں ہی مرکوز ہے۔ اس کے علاوہ تاپی (TAPI) پراجیکٹ فائنل مراحل کی بات چیت انہی ہفتوں میں اسلام آباد میں ہو رہی ہیں۔ چائنہ کی مدد سے پاکستان وسطی ایشیائی ممالک خصوصاً تاجکستان کو اس بات پر مکمل رضامند کر چکا ہے کہ وہ ممالک اپنی تمام کی تمام برآمدات کو پاکستانی بندرگاہوں پہ لائیں۔ قارئین کرام 2014 میں سی پیک کو سبوتاژ کیا جانا ان شکوک کو یقین میں بدلتا ہے۔

آپ اس سارے ”گھڑمس“ میں امریکی مہرے زلمے خلیل زاد کے عمران احمد نیازی کی حمایت میں بیانات کو بھی ذہن میں رکھیں تو آپ کو حالیہ ”فسادی فلم“ زیادہ سمجھ آئے گی۔ اس حالیہ فساد کو بین الاقوامی سطح سے مکمل حمایت اس لیے حاصل ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے خطی اسٹریٹجک بلاک میں جانے کی بجائے امریکی بلاک میں ہی رہے۔ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر استعماری منصوبہ سازوں کی جڑیں ہمارے ملک میں کتنی مضبوط ہیں اس کا ہلکا سا ٹریلر آپ 9 مئی کو دیکھ چکے ہیں۔ منصوبہ سازوں کے ناپاک ارادوں کے ساتھ پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کا ہونا بھی ذہن میں رکھیئے۔

اس حوالے سے چند گزارشات ہیں کہ جان رکھیئے مستقبل میں پاکستان میں خانہ جنگی کروانے کی مزید کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔ اگر ہم نے پاکستان کو شام بننے سے بچانا ہے تو ہمیں فیصلہ کن اقدامات کرنے پڑیں گے۔ سول قیادت کو ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔ اگر اس وقت سخت اقدامات نہ کیے گئے تو پھر شام کی طرح پورا ملک برباد کروا کے اور لاکھوں لوگ مروا کر بھی شاید امن قائم نہ ہو پائے گا۔ مستقبل کے سیاسی فیصلوں اور اقدامات پہ تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوں۔ ملک میں ایسے فساد اور جتھہ بازی کی کسی کو ہرگز اجازت نا دی جائے۔

حکومت مکمل تیاری کے ساتھ جتھہ بازی اور سیاسی تحریک کا فرق عوام کو سمجھائے۔ سول سوسائٹی، ادیب، استاد، لکھاری سب کمر بستہ ہو کر عوام کو سیاسی برداشت اور رواداری سکھائیں۔ خصوصاً یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں کانفرنسز و سیمینارز کے ذریعے عوام الناس کو آگاہی دیں۔

یاد رکھیئے سزا کے بغیر آپ پیار پوچے سے کسی فسادی سے یہ بات نہیں منوا سکتے کہ اس نے ایک ان دیکھے منصوبے کی تکمیل کی خاطر اپنا ہی ملک برباد کر دیا ہے۔ سیاسی بات چیت کے بعد قوانین کو قوت سے منوایا جاتا ہے۔ ملک کی سلامتی کی بھی ایک ریڈ لائن ہوتی ہے اور یہ ریڈ لائن کراس کرنے والے کو ریاست کو کچلنا ہوتا ہے۔

تمام سیاسی جماعتیں کو چاہیے کہ وہ سیاسی حقوق کی آڑ میں فسادیوں کے ساتھ جمہوریت اور انسانی حقوق نہ کھیلیں۔ ملک کے ساتھ دشمنی کرنے والوں کو ختم کرنا ضروری ہے ورنہ وہ آپ سب کو آپ کے جمہوری نظام سمیت بحیرہ عرب میں غرق کر دیں گے۔ یہ جمہوریت کے نام پر سیاسی فسادی اسی طرح ہمارے ملک و معاشرے کے لیے خطرناک ہیں جیسے دہشتگرد تھے۔ اس کا بندوبست کیجیئے نہیں تو ہاتھ سے دی گئیں گرہیں منہ سے کھولنی پڑیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments