جمہوری تماشہ


کسی ملک کی سیاسی تاریخ کو دیکھ کر آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس قوم کا مستقبل کیسا ہو گا۔ اس بار عدلیہ اور پارلیمان میں گھمسان کا رن پڑا کیونکہ وہ کھل کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہو گئے تھے۔ عدلیہ واضح طور پر منقسم ہو گئی اور ججز نے متنازعہ فیصلے دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اداروں کے درمیان وقتی ٹکراؤ پیدا ہوا اور سیاسی کشمکش نے ملک و قوم کی نفسیات پر ناگہانی اور منفی اثرات مرتب کیے۔

اسی طرح الیکشن کمیشن، وزارت خزانہ اور وزارت دفاع کو بھی اس سیاسی رسہ کشی میں بہت بری طرح گھسیٹا گیا۔ سپریم کورٹ میں 53 ہزار عوام کے مقدمات اسی طرح زیر التوا پڑے رہے اور عدلیہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ یکے بعد دیگرے‘ خواص ’کے فیصلے سنتی رہی۔ اس سیاسی تماشے نے نہ صرف عوام کے اندر غیر یقینیت پیدا کی بلکہ ساری دنیا ہمارے سیاسی حالات کو دیکھ کر ہم پر ہنستی رہی۔ اس سے جہاں دنیا بھر میں ہمیں شرمندگی ہوئی وہاں عمومی طور پر ہمارے اندر احساس کمتری نے بھی جنم لیا۔

اس دفعہ کا ہمارا آئینی و سیاسی بحران ایک سال سے زیادہ عرصے پر محیط تھا کیونکہ جب سے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے کرسی سے اتارا گیا ایک طرف وہ مسلسل جلسے جلوس کرتے رہے اور عوام کو ایک قسم کے سیاسی بخار میں مبتلا کہے رکھا اور دوسری طرف وہ اپنی تقریروں اور بیانات میں حکومتی ارکان کو تواتر سے ’چور چور‘ کہتے رہے۔ حتی کہ عمرے پر گئے ہوئے نون لیگی ارکان کو ’مسجد نبوی‘ میں بھی۔ چور چور۔ کہا گیا اور ان سے ’بدزبانی‘ اور ’گالم گلوچ‘ تک کی گئی! تحریک انصاف کا یہ سیاسی بیانیہ مذہب کو ’انتقامی سیاست‘ میں بدلنے کی ایک انتہائی ’ناپاک‘ کوشش تھی جس کا بالآخر منطقی نتیجہ عمران خان کی گرفتاری اور 9 مئی کے ’ملک دشمن‘ اور ’باغیانہ‘ واقعات کی صورت میں ظاہر ہوا۔

ہمیں رک کر سوچنا چاہیے کہ بھلا جلسے جلوسوں اور ایک دوسرے پر ایسے بزدلانہ الزامات کا عوامی مسائل کے حل یا ملک کی معاشی ترقی سے کیا تعلق ہے؟ قارئین کو یاد ہو گا کہ جب میاں نواز شریف بیماری کے پچاس روپے کے ’اسٹام پیپر‘ پر لندن گئے تھے تو یہ عمران خان صاحب ہی کی حکومت تھی۔ صرف یہ جواز کہ تحریک انصاف کی حکومت نے عدلیہ کے ’فیصلہ‘ پر عمل درآمد کیا تھا، کافی نہیں ہے، کیونکہ تحریک انصاف ’کرپشن‘ کے خاتمہ کے جس بنیادی نعرے کی وجہ سے برسراقتدار آئی تھی، اس سے نہ کرپشن کی ’رقوم‘ واپس کروائی جا سکیں اور نہ ہی کرپشن میں کوئی کمی آئی، بلکہ پی ٹی آئی کے برسراقتدار آنے سے کرپشن مزید کئی گنا بڑھ گئی! پی ٹی آئی کے دور میں نون لیگ پر کرپشن کیسز بنائے گئے اور اس کے لیڈران کو سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا۔ آج پی ٹی آئی کے رہنما اور ورکرز ’دہشت گردی‘ کے الزامات میں سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

دنیا ایک ’مکافات عمل‘ ہے، کوئی بھی انسان جیسا عمل کرتا ہے اسی سے ملتا جلتا اسے انعام ملتا یا اسے اس کی سزا ملتی ہے یعنی جو تم کرتے ہو وہی تم بھرتے ہو!

یہ ایک ایسی سیاست ہے جس کو ’جمہوریت‘ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ سیاست ’انتقامی‘ سیاست پر مبنی ہے جس کا تعلق شخصیات سے ہے ’نظریات‘ یا ’نظام‘ سے نہیں ہے۔ آج انتخابات کرا دہے جائیں اور کوئی جماعت حکومت بنا بھی لے تو دوبارہ پھر انتقامی سیاست شروع ہو جائے گی، دوبارہ پھر ’دھاندلی‘ کے الزامات لگیں گے، دو تین سال حکومت چلے گی، اس کے بعد اپوزیشن احتجاج اور دھرنے شروع کر دے گی اور اسے پھر گرا دے گی۔ اسی کو ’سٹیٹس کو جمہوریت‘ کہتے ہیں جو گزشتہ چار دہائیوں سے ہمارے ملک میں رائج ہے اور ایک بار بھی ہمارا کوئی منتخب وزیراعظم اپنی مقررہ مدت پوری نہیں کر سکا ہے۔

معاشروں اور افراد کی ترقی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جہاں پلل امن و امان اور سیاسی استحکام پایا جاتا ہو، اور عوام کے اندر خود اعتمادی کی طاقت ہو۔ اگر کوئی قوم ’بے یقینی‘ اور ’عدم استحکام‘ کا شکار ہے تو عوام میں منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اس کی ترقی کرنے کی راہیں معدوم ہو جاتی ہیں۔ اس قسم کی صورتحال میں پڑھے لکھے لوگ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہو جاتا ہے کہ وہ اس ماحول میں اپنی ’ذہانت‘ سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ہیں، اور یا پھر وہ اسی ماحول میں رچ بس کر راتوں رات ترقی کرنے اور امیر بننے کے لئے اپنی ’سمارٹنس‘ سے اسے مزید گدلا کر دیتے ہیں۔

ہمارا حالیہ بحران اس کی بدترین مثال ہے کیونکہ عمران خان سے نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ کو بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں کہ جب وہ حکومت میں آئے گا تو پچھلے 75 سال سے رائج انداز سیاست میں جمہوری اصولوں کے مطابق تبدیلی لائے گا مگر وہ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ایسا کچھ نہ کر سکا بلکہ اس نے وہی پرانا انداز سیاست پہلے سے بھی زیادہ زور شور سے اپنا لیا۔

یہ سیاسی اصطلاح جسے ’سٹیٹس کو‘ ، کہا جاتا ہے ایک ایسا ہی دقیانوسی اور بدبو دار سماجی نظام ہے جس میں مدت سے کوئی تبدیلی نہ آئی ہو۔ ہمارے ہاں ’حقیقی تبدیلی‘ کی راہ میں حائل قوتیں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہیں۔ سیاسی عمل جب متعفن اور جامد ہو جاتا ہے تو وہ زندگی کے ہر میدان میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ عمران خان نے تبدیلی کے نام پر ایسی قوتوں کے ہاتھ مضبوط کہے ہیں جو قدیم عرصے سے ’اشرافیہ‘ میں شامل ہیں، کیونکہ پی ٹی آئی کے آدھے سے زیادہ لیڈران انہی پرانے امیر زادوں اور جاگیرداروں پر مبنی ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار کی غلام گردشوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ جب عمران خان حکومت میں نہیں ہیں تو انہوں نے اپنی ’فاش‘ غلطیوں سے دوبارہ انہی قوتوں کو اقتدار کے ’سنگھاسن‘ پر بیٹھنے کا موقع فراہم کیا ہے جن کی تین نسلیں کرسی پر بیٹھتی چلی آ رہی ہیں۔

ہم جب تک ’سٹیٹس کو‘ کے اس انداز سیاست سے دھوکہ دینے والے سیاست دانوں پر اعتبار کرتے رہیں گے ملک میں ترقی کا راستہ ہموار ہو گا اور نہ ہی ہماری مشکلات میں کوئی کمی آئے گی کیونکہ سماجی عمل اسی وقت رواں دواں ہوتا ہے جب چہروں کے ساتھ ساتھ نظریات اور اصولوں کو بھی تبدیل کیا جاتا ہے جبکہ ’سٹیٹس کو‘ بھی قائم ہو اور جمہوریت کا بھی دعوی ہو یا جو دین سے خالی ہو تو یہ ایسا نظام ہے جو ’آمریت‘ سے بھی بدتر ہے :

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو،
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments