کیا گوادر کی حق دو تحریک کے رہنما کی ’غیر متوقع‘ رہائی کی وجہ نو مئی کے واقعات بنے؟

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، گوادر


hidayat
حال ہی میں ضمانت ملنے پر گوادر کی ’حق دو تحریک‘ کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان نے ایک بار پھر ’پُر امن اور جمہوری‘ مزاحمت کی کال دی ہے۔ اس مزاحمت کی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ ’اپنے حقوق حاصل کرنے کا یہی ایک راستہ ہے۔ پھر بیشک دوبارہ گرفتاری دینی پڑے۔‘

حق دو تحریک کے مولانا ہدایت الرحمان کو گوادر میں احاطہ عدالت سے رواں سال جنوری میں کارِ سرکار میں مداخلت اور دیگر فوجداری مقدمات میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی حالیہ ضمانت نے جہاں ان کے کارکنان کو خوش کر دیا ہے وہیں کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔

مولانا ہدایت الرحمان کی ضمانت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک بھر میں پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان کی گرفتاریاں جاری ہیں جبکہ خود پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی مختلف مقدمات میں یکِ بعد دیگرے ضمانتیں منظور ہوتی نظر آئی ہیں۔

جن مقدمات میں عمران خان کو اعلیٰ عدالتوں سے ضمانتیں ملیں ان میں پاکستان کی افواج کے خلاف ورغلانے یا بغاوت کا مقدمہ اور فوج پر الزامات لگانے جیسے مقدمات شامل ہیں۔

دوسری جانب مولانا ہدایت الرحمان جنوری میں عدالت کے سامنے اپنے اوپر لگے 17 مقدمات میں گرفتاری دینے پہنچے تھے جب انھیں بی بی سی کو انٹرویو دینے کے فوراً بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔

ان کی گرفتاری کے بعد ان کی جماعت اور کارکنان کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ اب ان کی ضمانت بمشکل ہی ممکن ہو سکے گی۔ اور اگر ہوئی بھی تو اس میں خاصا عرصہ لگے گا۔

بی بی سی اردو سے گوادر میں بات کرتے ہوئے خود مولانا ہدایت نے بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’میرے خلاف جعلی مقدمات درج کیے گئے۔ منصوبہ تو یہی تھا کہ مجھے بند رکھنا ہے کیونکہ کوئی ٹھوس مقدمہ تو ہے نہیں۔‘

’اب وہ مجھے الیکشن تک بند رکھیں یا الیکشن کے بعد تک، اس کا انحصار اداروں پر ہی تھا۔‘

gawadar

’عمران خان پر ضمانتوں کی بارش ہو رہی تھی اور میری ضمانتیں مسترد ہو رہی تھیں‘

مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ ’اب ظاہر ہے کہ عدالتوں پر بھی دباؤ تھا۔ ایک طرف پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پر ضمانتوں کی بارش ہو رہی تھی اور دوسری جانب میری ضمانتیں مسترد ہو رہی تھیں۔

’اگر عدالتوں پر دباؤ نہ ہوتا تو میری یہ ضمانت بھی مسترد ہو جاتی جیسے کہ ہم توقع کر رہے تھے۔‘

مولانا ہدایت الرحمان گوادر میں جماعتِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل رہ چکے ہیں اور حق دو تحریک کے بانی بھی ہیں۔ گوادر کے ماہی گیروں کے مسائل ہوں یا پھر فوجی چیک پوسٹوں پر عام عوام سے روزانہ کی پوچھ گچھ، مولانا ان تمام معاملات پر برملا بات کرتے اور احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔

گوادر کے عوام کے مطابق ان کے احتجاج کے نتیجے میں چیک پوسٹوں پر تذلیل ہونے کے واقعات میں کمی اور پانی کے مسائل کے کچھ حد تک بہتر ہوئے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان پر مقامی طور پر تنقید نہیں ہوتی لیکن رواں سال جنوری میں سی پیک روڈ پر دھرنے کے بعد ان کی احاطہ عدالت سے گرفتاری نے سب کو یہ سوچنے پر مجبور ضرور کیا کہ کیا وہ خود پر لگے الزامات سے بری ہو سکیں گے یا نہیں؟

اعلیٰ عدالتوں سے عمران خان کو ’بلینکٹ ریلیف‘ ملنے کی بات جب موضوعِ بحث بنی تب مولانا ہدایت الرحمان کی ضمانت کی درخواست بھی سپریم کورٹ پہنچی تھی۔ عمران خان کو پاکستان کی افواج کے خلاف بھڑکانے کے مقدمہ میں اور پاکستان کی فوج پر الزامات لگانے کے مقدمے میں بآسانی ضمانت مل چکی تھی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مولانا ہدایت الرحمان کی ضمانت مشکل میں پڑجاتی اگر نو مئی کو فوجی تنصیبات پر مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سےحملہ نہ کیا گیا ہوتا۔ اور اداروں کا دھیان دوسری جانب نہ جاتا۔

گوادر سے ہی تعلق رکھنے والے حق دو تحریک کے کارکن محمد ماجد نے کہا کہ ’جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس (جسٹس عمر عطا بندیال) نے عمران خان کو دیکھ کر کہا کہ آپ کو دیکھ کر اچھا لگا تو ہماری بچی کچی امید بھی ختم ہو گئی کہ مولانا کبھی باہر آ سکیں گے کیونکہ ظاہر ہو چکا تھا کہ عدالتوں کا دھیان کس طرف ہے۔‘

pti

’مولانا ہدایت الرحمان کو ملنے والی ضمانت عدالت کا ایک بیلنسنگ ایکٹ لگ رہا ہے‘

پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار رفیع اللہ کاکڑ نے کہا کہ مولانا ہدایت الرحمان کو ملنے والی ضمانت ’عدالت کی جانب سے ایک بیلنسنگ ایکٹ لگ رہا ہے، ورنہ (مولانا ہدایت الرحمان) کی ضمانت تو بہت پہلے ہو جانی چاہیے تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس تصور کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عدالت نے کسی سیاستدان کی بڑھ چڑھ کر طرفداری کی ہے۔

’ان حالات میں عدالتیں مولانا ہدایت الرحمان کے ذریعے باآسانی اس تصور کو اور خود پر اٹھنے والے سوالوں کو رد کر سکتی ہیں۔ جو کہ انھوں نے مولانا کی ضمانت کو منظور کرکے کیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مولانا کی ضمانت میں نو مئی کے واقعات کا بہت بڑا ہاتھ ہے جس کے بعد اداروں کی پی ٹی آئی کی جانب پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھنے کو ملی۔‘

رفیع اللہ کاکڑ نے کہا کہ ’مولانا اب اس طرح سے اداروں کے لیے بہت بڑا مسئلہ نہیں رہا جتنا نو مئی کے واقعات سے پہلے خیال کیا جارہا تھا۔‘

جبکہ یہ بات بھی زیرِ بحث ہے کہ عمران خان کے دورِ حکومت سے پہلے زیادہ تر سیاستدانوں، چاہے وہ اعلیٰ قیادت سے ہوں یا سیاسی ورکر، ان کو جیل کاٹنی پڑی ہے۔

رفیع اللہ کاکڑ نے کہا کہ ’اُن سیاستدانوں کو تو ضمانتیں نہیں ملیں۔ لیکن جس رفتار اور جس انداز سے عمران خان کو ضمانتیں ملی ہیں اور ایڈوانس میں بھی ملی ہیں، یعنی عدالت میں مقدمہ جانے سے پہلے ہی مل گئی ہیں، تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ حالیہ دور میں کسی سیاستدان کو عدالت سے اس قدر ریلیف ملنے کی مثال کم و بیش ہی نظر آتی ہے۔‘

جبکہ مولانا نے کہا کہ وہ گوادر کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ’مزید جدوجہد‘ کریں گے۔ اور اگر ملک میں انتخابات ہوئے تو اس میں حصہ بھی لیں گے۔

لیکن رفیع اللہ کاکڑ نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’مولانا اگر اب احتجاج کرتے ہیں تو اب ادارے ان کے ساتھ سختی کا مظاہرہ بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ انھوں نے نو مئی کے ہنگاموں کے بعد کیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’بلوچستان کی تاریخ میں عام دنوں میں بھی ادارے خاصی سختی دکھاتے ہیں تو اب تو حالات پہلے سے ہی خاصے گرم ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments