اک ستم اور مری جاں، ابھی جاں باقی ہے


رواں سال پانچ مئی بروز جمعہ میں اور میری گھر والی فیض آباد سے صبح 10 : 30 بجے، فیصل بس سروس کی بس نمبر BSN 765 سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے۔ ہم سے اگلی نشست 34 اور 35 میں بیٹھی خواتین میں سے ایک خاتون نے دوران سفر طبیعت کی خرابی کی بنا پر دو ایک مرتبہ شاپروں میں قے کر دی۔ شاپروں کو وہیں سیٹ کے نیچے فرش پر ڈال دیا، ان کے پاس شاید اس کے علاوہ کوئی متبادل بھی نہیں تھا۔ بس دن کے تقریباً 1 : 30 پر بھیرہ ریسٹ ایریا رکی۔

تمام مسافر ریسٹ ایریا میں اتر گئے۔ میں اترنے والوں میں آخری مسافر تھا۔ بھیرہ ریسٹ ایریا میں فیصل بس سروس کا عملہ ڈرائیور سیٹ پر بیٹھ کر لکھت پڑھت کرتا ہے۔ میں نے بس سے باہر جاتے جاتے ان حضرت کو واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ فلاں سیٹ کے نیچے صفائی کروا دیجئے۔ ان صاحب نے اسی وقت صفائی والے کو بلا بھیجا۔ دیگر مسافروں کے ساتھ میں بھی بس میں واپس آیا۔ گاڑی چلا ہی چاہتی تھی کہ صفائی کے عملے کا ایک شخص آیا اور مہذب طریقے سے نشست نمبر 34 پر بیٹھی خاتون سے صفائی کرنے کی اجازت چاہی جو انہوں نے فوراً دے دی۔

شاپر اٹھا کر اور خوشبو دار فنائیل سے متاثرہ علاقے میں ماپ لگا کر عملے کا شخص واپس چلا گیا۔ بہ ظاہر یہ ایک معمول کی کارروائی ہے لیکن یہ معمولی بات ہر گز بھی نہیں۔ واقعی ریسٹ ایریا میں فیصل بس سروس کے تمام عملہ نے ثابت کر دیا کہ وہ مسافروں کی بہبود اور آرام کے لئے دل سے مستعد ہیں۔ لاہور بس ٹرمینل پر میرے پاس اگر تھوڑا سا بھی وقت ہوتا تو میں فیصل موورز کی کسٹمر سروس میں جا کر اس واقعے کی تعریفی رپورٹ کرتا۔ لیکن کوئی بات نہیں یہ کالم بھی ایک طرح کی تعریف ہی ہے۔ فیصل موورز کے اعلی حکام، کسٹمر سروس، بس کا عملہ، صفائی کا عملہ، الغرض ہر ایک چھوٹا بڑا تعریف کے لائق ہے۔

اب آئیے تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں۔ دو دن بعد ہم لوگ پاکستان ریلوے کی تیزگام سے 7 مئی کو لاہور اسٹیشن سے کراچی کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارا ڈبہ / کوچ نمبر 7 اور کمپارٹمنٹ نمبر E تھا۔ ہماری نیچے اور آمنے سامنے والی 1 اور 4 نمبر برتھیں تھیں۔ ریل گاڑی 1 : 35 کے بجائے 1 : 45 پر دس منٹ دیر سے روانہ ہوئی۔ موبائل چارجنگ کی مقرر کردہ جگہ پر موبائل چارجنگ لکھا ہوا تو ضرور تھا مگر چارجنگ پوائنٹ پر ایک گتا لگا دیا گیا تھا۔ کمپارٹمنٹ میں دونوں کھڑکیوں کے درمیان والی ٹیبل کے نیچے کچرا دان کی جگہ ایک درخشاں ماضی کی یاد دلا رہی تھی جہاں ڈبے کی دیوار میں کوڑے دان کی مخصوص جگہ پر کچرا دان کی عبارت تو موجود تھی لیکن کوڑے دان ماضی کے دھندلکے میں کہیں غائب ہو چکا تھا۔ کوچ کی ایک جانب دو واش روم تھے۔ ایک ایسٹرن اور دوسرا کموڈ۔ جب کہ دوسری جانب صرف ایسٹرن ہی تھا۔ ملتان اسٹیشن سے حالاں کہ تمام ڈبوں کی ٹنکیوں میں پانی بھرا گیا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر جلد ہی پانی ناپید ہو گیا۔ ادھر کھڑکیوں کے درمیان پنکھا موجود تھا مگر صرف تیز ترین رفتار پر چلتا تھا۔ اس کا کنٹرول بھی قصہ پارینہ ہو چکا تھا۔ کوئی ایک مسئلہ ہو تو بات بھی کی جائے!

مسرور بھائی المعروف مسرور انور نے شمیم آرا پروڈکشن اور ہدایت کار لئیق اختر کے لئے نثار بزمی صاحب کی موسیقی اور مہدی حسن کی آواز میں گولڈن جوبلی فلم ”صاعقہ“ (1968) میں ایک ایسا گیت لکھا جو آج بھی قدم قدم پر ستائے ہوئے عوام کی ترجمانی کرتا ہے :

اک ستم اور میری جان ابھی جاں باقی ہے
دل میں اب تک تیری الفت کا نشاں باقی ہے

گویا قدم قدم پریشان عوام پاکستان ریلوے کی سہولیات کی عدم دستیابی، ریل گاڑیوں کا گھنٹوں دیر سے پہنچنا، بجلی کی علانیہ اور غیر علانیہ لوڈ شیڈنگ کی اعصابی جنگ، سوئی گیس کی بندش، کمر توڑ مہنگائی، سرکاری محکموں میں جوتا گھسائی، اور ایک ٹیبل سے دوسری ٹیبل پر ٹھوکریں کھانا، تھانے کچہریوں کے دھکے اور تاریخوں پر تاریخیں پڑنا، شہروں میں پانی کی عدم دستیابی کے پہاڑ جیسے مسائل، اس کے باوجود بوند بوند پانی کو ترسنے کے بعد بھی اپنی سوکھی زبانوں سے کہہ رہے ہیں کہ ابھی جاں باقی ہے۔ ابھی مزید تکالیف سے مقابلے کا حوصلہ رکھتے ہیں! اس جاں بلب عوام کے دل کی بھی تو کوئی آواز سنے! یہ روح کی گھائل قوم پھر بھی وطن سے محبت کا نشاں لئے فخر سے پھرتی ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ کسی بھی دو چیزوں کا باہم موازنہ کرنا درست نہیں جیسے فیصل موورز بس سروس اور پاکستان ریلوے۔

لیکن پھر عوام کرے تو کیا کرے؟ اب بھی پاکستان ریلوے میں لوگ کثیر تعداد میں سفر کرتے ہیں۔ اکانومی، اے سی اسٹینڈرڈ، بزنس کلاس، اے سی سلیپر اور پارلر۔ تمام ہی درجے فل جاتے ہیں۔ کبھی کبھار قسمت کے دھنی ریل گاڑیوں سے اپنی منزل مقصود پر وقت پر پہنچ بھی جاتے ہیں۔ میری تو حسرت دل کی دل ہی میں رہی کہ کبھی میں بھی پاکستان ریلوے کی کسی عوامی ریل گاڑی سے ’‘ ٹچ ٹائم ”پر پہنچ کر اپنا اور محلے کا نام روشن کروں! پاکستان ریلوے کے ذمہ داروں سے عرض ہے کہ تمام درجوں میں مسافروں کو جو کم سے کم سہولیات ملنا چاہئیں وہ آخر کیوں فراہم نہیں کی جاتیں؟ آخر فیصل موور بس سروس کا انتظام اور مسافروں کو سہولیات کی فراہمی وہاں کیوں ہاتھ کے ہاتھ کر دی جاتی ہے؟ پاکستان ریلوے ہم سب کا قومی ادارہ تھا، ہے اور رہے گا۔ اب کی دفعہ 15 مئی کو کراچی سے راولپنڈی تیزگام کا 28 گھنٹے کا سفر بہت تکلیف سے گزرا۔ وہی واش روم میں پانی کا نہ ہونا! وہی سب پرانی کہانیاں!

صرف دو تین ریل گاڑیوں میں بہت زیادہ کرایہ لے کر جدید ترین سہولیات مہیا کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ کیا یہ طبقاتی کشمکش پیدا نہیں کی جا رہی؟ ہم نے بھی اب سوچ لیا کہ آئندہ پاکستان ریلوے کے بجائے فیصل موور بس سروس سے سفر کریں گے جہاں ہاتھ کے ہاتھ نہایت معمولی شکایت بھی فوراً دور کر دی جاتی ہے۔

وزارت ریلوے سے عرض ہے کہ اسے کہتے ہیں اعتماد کا رشتہ!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).