بھگتی تحریک: برصغیر کا روشن چہرہ


سماجی سائنس اور تاریخ کے طالب علم کے طور پر تقریباً ہم سب ہی روزمرہ کی بنیادوں پر دنیا بھر اور اپنے معروض میں برپا ہونے والی تحریکوں پر نظر رکھتے ہیں اور ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لفظ تحریک اپنی ترکیب میں یعنی، پس منظر، اغراض و مقاصد، عوامل، نتائج، موقف، طریقہ کار، زمان و مکاں کے معاملات، افراد کا کردار و اعانت وغیرہ کی بناء پر بسا اوقات پیچیدہ صورت اختیار کر سکتا ہے۔ کسی ایک کچی آبادی کے لیے مالکانہ حقوق کی تحریک ہو سکتی ہے، ملکی سطح پر بحالی جمہوریت کی تحریک بھی ہو سکتی ہے اور عالمی سطح پر دیکھا جائے تو انسانی حقوق کی تحریک، غلامی، نسل پرستی، تشدد، سامراجیت اور جنگ کے خلاف تحریک، احیائے علوم کی تحریک، حقوق نسواں، مزدوروں اور کسانوں کے تحریکیں وغیرہ کو شمار کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں عام طور پر تحریک سے مراد عوام کے جم غفیر کی بینر اور ڈنڈے سوٹے اور جھنڈے اٹھا کر سڑکوں پر جلوس معہ واشگاف نعرے بازی اور جلاؤ گھیراؤ سے لی جاتی ہے اور ہم جیسے کم علم اور کم عقل کہنا اور سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ”تحریک کا آغاز ہو گیا ہے“ ۔ تحریک کا یہ تصور انتہائی ناقص، سطحی اور ادھورا ہے۔ جلسے، جلوس، احتجاج، نشر و اشاعت، میٹنگ، سٹڈی سرکل، قید و بند وغیرہ کسی بڑی تحریک کا ادنیٰ اظہار اور ایک معمولی حصہ ہی ہوا کرتے ہیں۔

غلامی کے خلاف تحریک نے ہزاروں سال کا فکری ارتقائی سفر طے کیا اس کے بعد ہمیں سپارٹیکس کی مشہور زمانہ جدوجہد نظر آتی ہے۔ سپارٹیکس پر فلمیں بنیں، بیشمار رزمیہ داستانیں لکھی گئیں لیکن یہ سب کچھ غلامی کے خلاف تحریک کی کل تاریخ کا ایک آدھ صفحہ ہی شمار ہو سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا میں آج بھی غلامی کے خلاف تحریک جاری و ساری ہے۔

اسی طرح دوسری تحریکیں حقوق نسواں و شہری حقوق بھی اپنی منطقی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔ اپنے نتائج کے اعتبار سے تحریکیں اپنے مقاصد میں نہ تو کلی طور پر ناکام ہوتیں ہیں اور نہ ہی کامیاب۔ ان کے معاشرتی اثرات کے اعتبار سے ان کی کامیابی کا تناسب حاصل کیا جاتا ہے۔

آج برصغیر کی آبادی 2 ارب نفوس کے قریب ہے جو کہ دنیا کی کل آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔ اس بڑی آبادی کا شاید ہی کوئی فرد ہو ایسا ہو جس پر بھگتی تحریک نے اپنے کم یا زیادہ اثرات مرتب نہ کیے ہوں۔ مگر نہایت افسوس اور معذرت سے لکھنا پڑ رہا کہ پاکستان میں اس پر بہت کم لکھا یا زیر بحث لایا گیا ہے۔ دنیا کی دوسری تحریکوں کی طرح بھگتی تحریک بھی ہزاروں سالوں سے آج بھی جاری ہے اس پر بہت مواد انٹرنیٹ پر کتابی، آڈیو اور ویڈیو کی شکل میں موجود ہے۔ دوستوں اور قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اسے تفصیل سے ضرور دیکھیں۔ ہمارا دعویٰ ہے جو بھی دوست اس کا مطالعہ کرے گا وہ اپنے آپ کو اس کے اندر لازمی دیکھے گا۔

بھگتی تحریک اپنے لفظی معنی کے اعتبار سے محبت اور خدمت کی سماجی تحریک ہے۔ عدم تشدد۔ مذہبی رواداری، نسلی بنیادوں پر استوار ذات پات اور برادری ازم کے خلاف، سماجی انصاف و برابری، ہندوستان پر آریائی و ہن اقوام کے سامراجی قبضے اور ان کے نافذ کردہ معاشرتی امتیازات کی علمی و منطقی بنیادوں پر مخالفت اس کے راہنماء اصول رہے ہیں۔ بھگتی تحریک نے اپنی پوری تاریخ میں کبھی سیاسی رنگ نہیں پکڑا یہ اپنے اول اور آخر میں ایک سماجی اور علمی تحریک ہی رہی ہے یہ بھی اس کا ایک مثبت، دلچسپ اور گہرا پہلو ہے۔

بھگتی تحریک کب، کہاں سے اور کن لوگوں نے شروع کی اس پر بیشمار ابہام ہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ یہ ہندوستان پر آریائی اور ہن اقوام کے حملوں اور آباد کاری کے نتیجے میں ہونی والی معاشرتی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے یا ردعمل کے طور پر شروع ہوئی۔ بھگتی تحریک کے مختصر پس منظر کے طور پر ہم یہاں کچھ تاریخی لیکن مستند یا غیر متنازعہ حقائق کو رقم کر رہے ہیں۔

تاریخ اس بات پر متفق ہے کہ ڈراوڑ نسل کے لوگ ہی برصغیر کے اصل باشندے یا مالک تھے۔ ڈراوڑ برصغیر میں کہاں سے وارد ہوئے اس بارے ماہرین کی رائے کے مطابق قریباً 50 ہزار سال قبل افریقہ سے آئے تھے۔ انہوں نے ناصرف ہڑپہ اور موہنجوداڑو کی تہذیبوں کی بنیاد رکھی بلکہ سناتن دھرم (قدیم ہندو مت) بھی ترتیب دیا۔ ڈراوڑ لوگ جو زبانیں استعمال کرتے وہ آج کل تامل، تیلگو، ملیالم اور کناڈا کے ناموں سے پہچانی جاتی ہیں۔ سنسکرت، ہندی اور اردو بعد کی باتیں ہیں۔

آج سے تقریباً 5 ہزار سال پہلے یوریشیا سے نسلاً آریائی باشندوں کے جتھے برصغیر پر مرحلہ وار مگر غیر منظم طریقے سے حملہ آور ہوئے۔ مقامی باشندوں کا بری طرح سے قتل عام کیا گیا، باقی ماندہ کی زمینیں جائیدادیں چھین کر اور انہیں اچھوت قرار دے کر بارہ پتھر باہر کر دیا گیا یا وہ خود ہی رضاکارانہ طور پر جنوبی برصغیر اور سری لنکا کے جنگلوں اور ویرانوں میں بھاگ گئے۔ یہاں سے ویدک دور کا آغاز ہوتا ہے اور یہی بھگتی تحریک کا بھی نقطہ آغاز ہے۔

حملہ آور اقوام نے نا صرف دراوڑوں کے شہروں، کھیت کھلیانوں پر قبضہ کر لیا بلکہ سناتن دھرم میں اپنے مطلب کی ترامیم کر کے اپنے راج پاٹھ کو مضبوط کیا۔ مثال کے طور پر قدیم دیوتا مہادیو شیو شنبھو کے ساتھ وشنو اور برہما اور قدیم دیوی مہا کالی کے ساتھ لکشمی، پاروتی اور سرسوتی کا بھی اضافہ کر کے قدیم چار جاتی نظام کو خالصتاً نسلی بنیادوں پر نافذ کر دیا۔ ان طریقوں سے آریاؤں نے دراوڑوں سے ان کا قدیمی دھرم بھی چھین لیا۔

آریائی فتوحات کے بعد زندہ بچ جانے والی دراوڑ قوم نے جنگلوں اور ویرانوں کی راہ لی اور فاتحین کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کی روش اپنائی جو کہ آج تک جاری ہے۔ اس وقت برصغیر میں 700 سے زیادہ دراوڑ قبائل اور اچھوت قومیں موجود ہیں جو ہندو ہوتے ہوئے بھی ہندو تسلیم نہیں کیے جاتے۔ بقول بھگوان منو ”ہندو سے مراد جو چار جاتی کے اندر ہے اور اس کے باہر جو بھی ہے وہ ملیچھ ہے“ ۔ چمار، چوہڑے، کول، بھیل، گونڈ، بکروال، جپسی، ناگا، کوہلی، ناتھ یا جوگی اور راجستھان کے کلبیلیا قدیم دراوڑوں کے ہی مشہور قبائل ہیں۔ انہیں نچلی یا کمتر ذات، دلت، ہریجن وغیرہ کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔

یہ بھی محض خیال ہے کہ آریائی لوگ دیوی دیوتاؤں کے معاملات، چار جاتی معاشرتی نظام اور دوسرے الوہی علوم یوریشیاء سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ آریائی براہمنوں نے قدیم سناتن دھرم میں ہی اپنے مطلب کی ترامیم و تاویلات کر کے کام چلایا۔ سناتن دیوتاؤں کے بت کالے رنگ کے تھے انہیں سفید کر لیا گیا۔ سناتن دھرم میں بھی چار جاتی کا تصور تو موجود تھا مگر ذات کو انسانی صلاحیتوں کی بنا پر طے کیا جاتا۔

ویدک دور میں ان کو نسلی بنیادوں پر مستقل کر دیا گیا۔ سناتن دھرم میں ستی کی رسم کا کوئی تصور نہ تھا یہ بھی ویدک دور کی ایجاد تھی۔ سناتن دھرم میں عورت کو آزاد انسان کی حیثیت حاصل تھی مگر چالاک براہمن نے عورتوں کو دیوی کا درجہ دے کر قید میں کر لیا۔ آریاؤں نے چاروں ذاتوں کو آپس میں ہی بانٹ لیا تھا۔ دست کاری اور کاشتکاری پر شودر، تجارت اور دوسرے انتظامی معاملات پر ویش، فوج اور راج پاٹھ پر کھشتری اور مذہب اور فکری معاملات کی رکھشا پر براہمن مامور ہوئے۔ عام خیال یہ ہے کہ شودر ذات دراوڑ نسل سے تعلق رکھتی ہے مگر یہ خیال درست نہیں۔ زندہ بچ جانے والا کوئی بھی دراوڑ آج دن تک آریائی اقوام کے قابو میں نہیں آیا۔ ہمارے جو دوست آج کے ہندومت جو کہ آر۔ ایس۔ ایس اور شوسینا کا مت ہے کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے منوسمرتی کا مطالعہ ضرور کریں۔

برصغیر پر آریائی اقوام کے قبضے اور آباد کاری کے بعد بلحاظ آبادی و نسل برصغیر دو واضح حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ آریائی، ویدک یا جدید ہندو اور قدیم دراوڑ ہندو۔ دراوڑ قبائل نے اپنے اپنے طریقہ کار کے تحت مزاحمتی تحریک (بھگتی تحریک ) کا آغاز کیا۔ ان لوگوں نے آج تک آریائی یا براہمن کی سماجی اور سیاسی برتری کو تسلیم نہیں کیا۔ اس تحریک نے کبھی بھی متشدد یا سیاسی رنگ نہیں اپنایا البتہ دونوں فریقین کے مابین سماجی فاصلوں کے باوجود علمی مباحثوں کا کلچر عام رہا۔

برصغیر کے مختلف علاقوں میں، مختلف ادوار میں مختلف طریقوں اور زاویوں سے بھگتی تحریک رواں رہی ہے۔ ذات پات کی نسلی تقسیم کا خاتمہ اس کا اولین مقصد رہا۔ ناتھ جوگیوں نے اس تحریک میں ہمیشہ متحرک کردار ادا کیا۔ ماضی بعید کے مشہور ناموں میں بابا عادھی ناتھ، بابا گورکھ ناتھ، بال ناتھ، رام انوجا جبکہ ماضی قریب کے مشہور ناموں میں بھگت کبیر، سوامی رام آنند، میرا بائی، بابا گرونانک شامل ہیں۔

تحریک کے تمام بھگت ہمیشہ براہمن کے قائم کردہ ذات پات کے نظام کے خلاف رہے ہیں اور ان کی تعلیمات کا محور و مرکز بھی یہی مسئلہ رہا۔ ماہرین کے مطابق جین مت کے بانی مہاویر، بدھ مت کے بانی گوتم بدھ اور سکھ مت کے بانی بابا گرونانک نے بھگتی تحریک سے متاثر ہو کر اپنے اپنے مت کی بنیادیں رکھیں۔ یہ بات قرین قیاس لگتی ہے کیونکہ ان تینوں مختلف مذاہب کا مرکزی خیال بھی ذات پات کے نظام کا خاتمہ ہے۔

خاندان غلاماں سے لے کر مغلیہ خاندان کے بادشاہوں نے بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر تحریک کو سپورٹ کیا کیونکہ سلاطین دہلی مسلم ہونے کے ناتے ذات پات کے خلاف تھے۔ محمد بن تغلق، اکبر اعظم، جہانگیر نے اپنے اپنے دور حکومت میں ستی کی رسم پر پابندی لگائی۔ بادشاہ سکندر لودھی کے دور میں اس وقت کے ایک سخت گیر اور با اثر مسلم عالم دین شیخ تقی نے بادشاہ کو بھگت کبیر کے متعلق انتہائی سخت شکایت لگائی۔ چنانچہ کبیر کی بادشاہ کے حضور پیشی ہوئی۔ ایک لمبی تلخ و شیریں بحث کے بعد بادشاہ نے کبیر کو باعزت بری کر دیا۔

برصغیر کے صوفی ازم کو اکثر علماء بغداد سے جوڑ کر کر دیکھتے ہیں اس میں جزوی سچائیاں ہو سکتی ہیں۔ صوفیاء اور صوفی شعراء کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو وہ حیرت انگیز طور پر بھگتی تحریک کی تعلیمات سے مشابہت رکھتی ہیں۔

جدید انڈیا کے بانی گاندھی جی کی سیاست کے راہنماء اصولوں حق گوئی، عدم تشدد، ستیہ گرہ (بھوک ہڑتال، کام سے ہڑتال اور ہجرت) اور سرودایا (محبت، بھائی چارہ، سچ، ایثار و قربانی، برابری) کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ تمام اصول اور طریقہ کار بھگتی تحریک کے مفکرین کے ہاں سے مل جائیں گے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ گاندھی جی بھی بھگتی تحریک کے متاثرین میں سے تھے اور نہرو گاندھی جی کے ہی پیروکار تھے۔ ان کے برعکس سوامی دیانند، نتھو رام گاڈسے اور مودودی جی ویدک ہندوازم کے پجاری ہیں۔ آج انڈیا کے اندر سب سے بڑی سیاسی لڑائی ہی یہ ہو رہی ہے کہ ملک نے بھگتی کے اصولوں کے تحت چلنا ہے یا ذات پات جیسی انسانیت دشمن روایات کے تحت چلنا ہے۔

بھگتی تحریک انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال کا مشترکہ ورثہ ہے۔ پاکستان میں بھی اس کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ صوفی شعراء کی تعداد شاہ عبدالطیف بھٹائی سے لے کر میاں محمد ؓبخش تک کوئی ایک سو سے اوپر تک ہے کی شاعری و تعلیمات معاشرہ میں انسان دوستی، معاشرتی ناہمواری، سماجی انصاف، امن، حق و سچ کا سبق عام کر رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments