سیاسی بحران میں ابھرنے والے پریشان کن سوال


ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے۔ سانحہ 9 مئی کے بعد رونما ہونے والی صورت حال میں حکمران جماعتیں اپنی سیاست کے دروازے کھلے دیکھ رہی ہیں۔ اس پر جشن کا سماں ہے کہ تحریک انصاف کو شدید توڑ پھوڑ اور مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت خوش ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر اقتدار پر طویل عرصہ تک قبضہ برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ ایسے میں چند سوال عام پاکستانیوں اور اس ملک میں جمہوریت کا بول بالا دیکھنے والوں کو پریشان کر رہے ہیں۔

ملک کے عوام دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ روپیہ کی قدر میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اس کا براہ راست اثر عام شہری کی قوت خرید پر پڑتا ہے۔ گھروں کا بجٹ بنانا، بنیادی ضرورتیں پوری کرنا بلکہ ملک کے ایک بہت بڑے طبقے کے لئے دو وقت پیٹ بھرنا سب سے بڑا اور اہم ترین مسئلہ ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے اس اہم اور بنیادی معاملہ پر بات کرنے یا عوام کو معلومات فراہم کرنے کی بجائے گزشتہ ہفتہ عشرہ سے سیاسی بیان بازی اور افواج و شہدا کے ساتھ اظہار یک جہتی کا ایک بے ہنگم شور بپا کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم سمیت تمام وزرا کسی نہ کسی حوالے سے 9 مئی اور تحریک انصاف کا ذکر کر کے مجرموں کو سزا دلوانے اور دہشت گردوں کو ختم کرنے کا یقین دلا رہے ہیں۔ لیکن یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ جس حکومت کے سربراہ اور ان کے وزیر خزانہ گزشتہ تین چار ماہ کے دوران آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پانے اور ایک ارب ڈالر کے لگ بھگ رقم وصول کرنے کے وعدوں کو پورا نہیں کرسکے، وہ تحریک انصاف کے بارے میں بلند بانگ دعوؤں کو کیسے پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

عام شہری یہ تو نہیں سمجھ سکتا کہ کہ آئی ایم ایف کیا ہے اور اس سے طے پانے والے معاہدے کے ملکی معیشت اور اس کی اپنی بہبود پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں لیکن وہ یہ تو نوٹ کر سکتا ہے کہ وزیر خزانہ کے بعد وزیر اعظم متعدد مواقع پر اعلان کرچکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی ساری شرطیں پوری ہو چکی ہیں، بس اب ایک ارب ڈالر قومی خزانے میں آنے ہی والے ہیں۔ اس کے بعد کوئی پیش رفت نہیں ہوتی۔ کوئی بھی ذمہ دار وزیر اعظم یا وزیر خزانہ ایسی کسی صورت میں اپنے ناقص بیان پر معذرت کرتا اور تفصیلی طور سے ان مشکلات کو عوام کے سامنے پیش کرتا جن کی وجہ سے آئی ایم ایف سے معاہدہ طے نہیں ہو پا رہا۔

یہ دعوے کرنے سے آخر کیا فائدہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی ہر شرط پوری کردی ہے بس اب اسے فیصلہ کرنا ہے۔ اس قسم کی بیان بازی سے جو تصویر بنتی ہے، اس میں تو یہی قیاس ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کسی زبردست ولن کا نام ہے اور ہماری حکومت منت سماجت سے اسے قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ ہمیں نقصان نہ پہنچائے۔ یا یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پاکستانی حکومت کی کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف کا دل نہیں پسیجا اور اس وقت عام لوگوں کو جس بھی مشکل کا سامنا ہے، اس کی ذمہ داری اسی ادارے پر عائد ہوتی ہے۔ حالانکہ پاکستانی عوام کی ضرورتیں پوری کرنا حکومت کا کام ہے۔ خاص طور سے ایسی حکومت جو بیک وقت عوام کی نمائندگی کی دعویدار بھی ہو اور انتخابات سے فرار بھی چاہتی ہو۔

ملکی معیشت کو درپیش مسائل کسی بیان یا وضاحت سے کم نہیں ہوسکتے لیکن حکومت اہم معاملات کے تمام پہلوؤں پر عوام کو اعتماد میں لے کر ان کی اعانت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کر سکتی ہے۔ حکومت اگر عوام کو اس قابل نہیں سمجھتی یا اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ عام لوگوں کو معاشی اونچ نیچ کے بارے میں بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا تو اس کے سیاسی تدبر کے علاوہ جمہوریت پسندی کے دعوؤں کے بارے میں شبہات پیدا ہونا یقینی امر ہے۔ حکومت کے لئے عوام کو اعتماد میں لینے کا سب سے موثر طریقہ پارلیمنٹ ہے۔ وہاں بیان دے کر تمام اونچ نیچ سے آگاہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ملک کے شہری دیکھ سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو سپریم قرار دلوانے کی دعویدار حکومت کے نمائندے جب بھی ایوان میں تشریف لاتے ہیں تو ان کی تقریریں سیاسی مخالفین کو نشانہ بناتی ہیں یا ان اداروں کے خلاف آگ اگلتی ہیں، جہاں سے انہیں حسب خواہش تعاون میسر نہیں آتا۔

پارلیمنٹ کو اشتعال انگیزی اور ملک میں سیاسی و ادارہ جاتی تقسیم کے لیے استعمال کر کے مسلسل عوام کی توہین کی جا رہی ہے۔ جب عوام میں یہ تاثر قوی ہونے لگے گا کہ پارلیمنٹ ان کی فلاح کی بجائے طاقت ور اشرافیہ کے مفادات کی جنگ کا پلیٹ فارم بنا ہوا ہے تو وہ کیسے اس ایوان یا وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں پر اعتبار کریں گے؟ اس صورت حال کی ذمہ داری کسی صورت تحریک انصاف یا عمران خان پر عائد نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کے سو فیصد ذمہ دار شہباز شریف اور متعدد پارٹیوں کی اتحادی حکومت ہے۔ تاہم وہ ایک کے بعد دوسرا موقع تلاش کر کے اپنے اس کردار سے نظر چرانا چاہتی ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد چند ماہ سابقہ حکومت کی ناکامیوں کے قصے بیان کر کے گزارے گئے۔ پھر سیلاب کی صورت حال میں ہمدردیاں سمیٹنے اور اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی گئی اور اب سانحہ 9 مئی کا قصہ بیان کرتے ہوئے تمام عوامی مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں حکمران جماعتوں سے سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر ان کے پاس اقتدار حاصل کرنے کے سوا ملکی معیشت درست کرنے اور عوام کو سہولت دینے کا کوئی منصوبہ ہی نہیں تھا تو انہیں آخر تحریک عدم اعتماد لانے اور ملک میں ایک نئے انتشار کو دعوت دینے کی کیا ضرورت تھی۔

ان دعوؤں سے بھوکے لوگوں کا پیٹ نہیں بھرا جاسکتا کہ عمران خان مرضی کا آرمی چیف لاکر طویل عرصہ تک اقتدار میں رہنا چاہتے تھے، اس لئے انہیں ہٹا کر یہ منصوبہ ناکام بنانا ضروری تھا۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر عوام کسی ایک پارٹی یا لیڈر کو اقتدار دینا چاہتے ہیں تو کسی بھی طاقت کو اس کا راستہ روکنے کی اجازت کیوں کر دی جا سکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے زیادہ کسی کو یہ تجربہ نہیں ہے کہ آرمی چیف کسی کو بھی مقرر کیا جائے، اس عہدہ پر فائز شخص اپنے ادارے کے مفاد کا تحفظ کرے گا اور وہ اسے ہی قومی مفاد سمجھے گا جس کے بارے میں اس کے ساتھی کور کمانڈرز میں اتفاق رائے ہو گا۔ کسی بھی آرمی چیف کو کسی سیاست دان سے صرف اتنی ہی دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ فوج کے مفادات اور رہنما اصولوں میں کس حد تک معاونت کرتا ہے۔ اس لئے عمران خان پر مرضی کا آرمی چیف لاکر ملکی سیاست کا نقشہ بدلنے کا منصوبہ بنانے کی افواہیں بے بنیاد اور حقیقت حال سے برعکس محسوس ہوتی ہیں۔ آرمی چیف کو کسی نے بھی مقرر کیا ہو، اگر فوج ملکی آئین کے تحت انتظام کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے تو انتخابات میں ایک نااہل اور نکمی حکومت کو شکست دی جا سکتی ہے۔ شہباز شریف کو اس وقت یہی خطرہ لاحق ہے۔

معاشی مسائل کے علاوہ انسانی حقوق کی صورت حال اس وقت پاکستان کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ سانحہ 9 مئی کے بعد سول حکومت نے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے اور ملک کی قیادت کرنے کی بجائے، سارا اختیار فوجی قیادت کے سپرد کر دیا ہے تاکہ کسی طرح تحریک انصاف کو ختم کیا جا سکے۔ اس سے ہر سطح پر انسانی حقوق کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔ کوئی یہ تقاضا نہیں کرتا کہ 9 مئی کے جلاؤ گھیراؤ اور تشدد میں ملوث لوگوں کے ساتھ رعایت برتی جائے لیکن ملک میں نظام قانون کام کر رہا ہے۔ بظاہر آئینی حکومت ہے۔ اس لئے جنگی حالات پیدا کرنے اور شہریوں کو سزائیں دینے کے لئے فوج کے حوالے کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس وقت تحریک انصاف کے ان گنت کارکنوں کو کسی الزام کے بغیر قید کیا گیا ہے۔ ان میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے بارے میں افسوسناک خبریں سامنے آتی رہی ہیں لیکن حکومت نے سول سوسائٹی یا انسانی حقوق کمیشن جیسے کسی ادارے کے ذریعے گرفتار شدگان کی بہبود کے بارے میں تصدیق کروانے کی بجائے، اس معاملہ کو بھی تحریک انصاف کے خلاف اشتعال و نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کیا ہے۔

گزشتہ رات وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی پریس کانفرنس کا یہی مقصد تھا۔ اس پر تحریک انصاف کا رد عمل بھی یک طرفہ ہے۔ اس سے بڑھ کر رنج و الم کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ زیر حراست خواتین کی عزت و جان کی حفاظت یقینی بنانے کی بجائے، اب خواتین کی حرمت کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے۔ حکومت کو اس معاملہ میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسے شہریوں اور بالخصوص زیر حراست خواتین کی صورت حال کے بارے میں یقین دہانی کروانی چاہیے اور غیر جانبدار انسانی حقوق کے اداروں کے ذریعے ان اقدامات کی تصدیق کروانے کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ اس کے وکلا کو تمام زیر حراست اراکین اور بطور خاص خواتین تک رسائی دی جائے۔ اس معاملہ کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کے لئے استعمال کرنے سے حکومت سرخرو نہیں ہو گی۔

عمران خان پر بھی لازم ہے کہ وہ جوشیلی تقریروں میں وقفہ کریں اور ہوش مندی سے پارٹی کی صورت حال اور زیر حراست کارکنوں کی ابتلا پر غور کریں۔ ان کی مشکلات کم کرنے کے لئے ٹھوس اور قابل عمل تجاویز سامنے لائیں۔ ایک طرف حکومت سانحہ 9 مئی پر فوج کی فریق بن کر ملک میں جبر و تسلط کا ماحول پیدا کر رہی ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف چیف جسٹس کو اپنا ’ہمدرد‘ سمجھتے ہوئے، کوشش کر رہی ہے کہ سارے معاملات سپریم کورٹ ہی حل کردے۔ سپریم کورٹ نے 9 مئی کے واقعات کا نوٹس نہیں لیا۔ اسی طرح کسی مقدمہ کی سماعت کے دوران ججوں نے بھی کوئی ایسا تبصرہ نہیں کیا جس سے اس معاملہ پر عدالت عظمی کی تشویش سامنے آتی۔ اس سے عمران خان کو سمجھنا چاہیے کی کوئی بھی ادارہ آگ کو اپنے دامن کی طرف بڑھنے کی دعوت نہیں دے گا۔ بہتر ہو گا کہ سیاست دان مل کر باہمی احترام کے ماحول میں اتفاق رائے سے مسائل کا حل تلاش کر لیں۔ اسی طرح ملک کو ایک نئے جابرانہ و آمرانہ دور سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

آج عمران خان نے ایک بار پھر روایتی جوش سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت سے کہا ہے کہ وہ دو تین ہفتے میں تحریک انصاف کے جتنے چاہے رہنما توڑ لے، اس کے بعد انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ پیچیدہ اور گنجلک سیاسی صورت حال میں الزام تراشی اور بار بار الٹی میٹم دینے سے کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان کو بھی پتہ ہے کہ اگر ایک کے بعد دوسرا لیڈر تحریک انصاف چھوڑ رہا ہے تو یہ شہباز حکومت کے بس کا کام نہیں۔ ضد اور انا پرستی کی بجائے اب مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ فوج کو سیاست سے باہر رہنے کے بارے میں اس کا عہد یاد رکھنے کی تاکید کی جا سکے اور ملک کی جمہوری قوتیں مضبوط ہو سکیں۔

اس سے قبل حکومت جولائی میں نگران حکومتیں قائم کر کے اکتوبر میں انتخابات کروانے کی پیش کش کر چکی ہے۔ بہتر ہو گا کہ عمران خان اسے بنیاد بنا کر بات چیت کی درخواست کریں۔ وہ خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھنے کی روش چھوڑیں اور سیاسی لیڈروں سے ماضی کو بھلا کر مستقبل کے لئے اتفاق رائے کی درخواست کریں۔ کمیٹیاں بنانے اور غیر واضح اعلانات کرنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن کا یہ مشورہ صائب ہے کہ عمران مشکل سے نکلنے کے لئے کسی ویڈیو بیان میں سانحہ 9 مئی کی غیر مشروط مذمت کریں اور توڑ پھوڑ و تشدد میں تحریک انصاف کی شرکت پر قوم سے معافی مانگیں۔ ایسا بیان عمران خان کو ذمہ دار اور قد آور لیڈر ثابت کرے گا اور موجودہ بحران کے حل کا راستہ ہموار کرنے میں معاون ہو گا۔ ایسے بیان کے بعد حکومت کے پاس عمران خان سے بات چیت نہ کرنے اور تحریک انصاف کو مسلسل نشانہ بنانے کا کوئی جواز بھی نہیں رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments