اسٹیبلشمنٹ حکمران رہی تو انتخابات بھی جعلی ہوں گے


تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں یہ انکشاف کرنے کے بعد کہ ’اسٹبلشمنٹ ہی ملک کی حقیقی حکمران ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ حکومتی اختیار سے دست بردار ہو جائے گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے‘ ۔ اب ایک ویڈیو پیغام میں دعویٰ کیا ہے کہ ’اسٹیبلشمنٹ کے بغیر عوام کی حمایت سے بننے والی حکومت ہی ملک کو مسائل سے نکال سکتی ہے۔ کیونکہ پاکستان کو بڑے فیصلوں سے ہی بچایا جاسکتا ہے‘ ۔ حیرت ہے کہ محض چوبیس گھنٹے کے دوران ایک لیڈر اتنے متضاد بیانات بھی دے سکتا ہے اور اسے ماننے والے بھی موجود ہیں۔

اب عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ جان قربان کر دیں گے لیکن کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے لیکن اسی تقریر میں بعد از 9 مئی اختیار کیا ہوا یہ ’نظریہ‘ بھی دہراتے ہیں کہ ’یہ مجھے آ کر سمجھا دیں کی میرے بغیر ملک کے مسائل کیسے حل کریں تو میں راستے سے ہٹ جاؤں گا‘ ۔ ان حالات میں یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ عمران خان کفن سر پر باندھ کر ’احمقوں کی جنت‘ کی طرف جانا چاہ رہے ہیں کیوں کہ انہوں نے خود بتایا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کبھی حکومتی اختیار سے دست بردار نہیں ہوگی۔ یا وہ کسی ایسے انقلاب کا آغاز کر رہے ہیں جس میں نتائج کی پرواہ کیے بغیر عوامی حقوق کے لئے جد و جہد کریں گے۔ کوئی بھی شخص ایک وقت میں دو متضاد کام نہیں کر سکتا لیکن یہ ہنر بھی عمران خان کے ہاتھ میں ہے کہ زبانی جمع خرچ میں کی حد تک وہ یہ کارنامہ بھی سرانجام دے لیتے ہیں۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ اسٹبلشمنٹ ملک میں ایک کمزور حکومت قائم کروانا چاہتی ہے تاکہ اس کے اختیار کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ لیکن وہ خود ایسی حکومت بنانا چاہتے ہیں جس پر اسٹبلشمنٹ کا کوئی اثر و رسوخ نہ ہو۔ کیوں کہ ان کے خیال میں ایسی ہی حکومت طاقت ور اور بڑے فیصلے کرنے کی اہل ہوگی۔ انہوں نے اس کی کوئی وضاحت دینا تو ضروری نہیں سمجھا کہ واضح اکثریت لے کر حکومت بنانے والی حکومت کیوں کر بڑے اور اہم فیصلے کرنے کے اہل ہوگی؟ ماضی میں دیکھا جا چکا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کو اسمبلیوں میں بڑی اکثریت حاصل تھی لیکن جب اسٹبلشمنٹ کے ساتھ ان بن ہوئی تو ان ’طاقت ور‘ حکومتوں کی ایک نہ چلی اور بندوق کے زور پر اقتدار سنبھالنے والے فوجیوں نے ان دونوں کو نشان عبرت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

یوں بھی 2018 میں انتخابات جیتنے کے بعد عمران خان کی سربراہی میں جو حکومت قائم ہوئی تھی، اسے ایک طاقت ور حکومت کہا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ ’ایک پیج‘ کی حکومت تھی۔ عمران خان بطور وزیر اعظم آرمی چیف کی ہر بات مانتے تھے اور آرمی چیف حب عمران میں مالی معاملات سے لے کر سفارتی شعبہ تک میں ہمہ وقت حکومت کا دست و بازو بنا ہوا تھا۔ ان دنوں تو یوں لگتا تھا کہ آرمی چیف کو حکومت کے ایلچی کے طور پر کام کرنے کے سوا کوئی دوسرا کام ہی نہیں ہے۔ سرحدوں کی حفاظت اور دیگر عسکری معاملات انہوں نے اپنے نائبین کے سپرد کیے ہوئے تھے۔ عمران خان کی خواہش پوری کرنے کے لئے نیب اور دیگر ریاستی ادارے مستعد تھے اور اپوزیشن لیڈروں کو چن چن کر جیلوں میں بند کیا جا رہا تھا۔ اپوزیشن پارٹیوں کو پارلیمنٹ میں بھاری نمائندگی حاصل تھی لیکن سینیٹ میں فیصلے عمران خان کی مرضی کے مطابق ہوتے تھے اور قانون سازی کے لئے صدر عارف علوی آرڈی ننس جاری کرنے کے لئے ہمہ تن گوش رہتے تھے کہ وزیر اعظم کا حکم صادر ہو اور وہ نیا قانون آرڈی ننس کی شکل میں ملک پر مسلط کریں۔ واضح رہے وہی صدر، شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی آئینی ذمہ داریوں کے بارے میں اتنے چوکنے ہو گئے ہیں کہ کسی قانون کو حرف بہ حرف پڑھے بغیر دستخط کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔

تحریک انصاف کی حکومت میں یہ کرشمے اسٹبلشمنٹ کے جلووں کی وجہ سے ہی دیکھنے میں آرہے تھے لیکن ایک بار پھر بڑی اکثریت لے کر حکومت بنانے کا خواب دیکھنے سے پہلے عمران خان قوم کو یہ تو بتا دیں کہ جب انہیں 2018 مکمل اختیار کے ساتھ وزارت عظمی ملی تھی اور جنرل باجوہ یا جنرل فیض حمید وزیر اعظم ہاؤس کے ایک اشارے پر پارلیمنٹ میں اکثریت ’مینیج‘ کرنے پر قادر تھے تو انہوں نے صادق سنجرانی کو چئیر مین سینیٹ بنوانے یا جنرل قمر جاوید باجوہ کو عہدے میں توسیع دینے کے علاوہ کون سا بڑا قومی کارنامہ سرانجام دیا تھا؟ اگر وہ اس کامل اختیار کے ساتھ جب ملک کا ’اصل حکمران ادارہ‘ بھی ان کے ساتھ ہمہ وقت اشتراک و تعاون پر راضی تھا، کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کرسکے اور نہ ہی قومی معیشت کی بحالی کے لئے ساختیاتی تبدیلیاں لا سکے تو اب وہ اسٹبلشمنٹ کو للکارتے ہوئے اگر اقتدار میں پہنچ بھی گئے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ اس بار بہتری کے کسی منصوبے پر عمل کرسکیں گے؟ اور کیا وجہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک نہیں کرے گی جو ماضی میں بھٹو اور شریف خاندان کے ساتھ کیا جا چکا ہے؟

عمران خان اب بھی ’چوروں لٹیروں‘ کے خلاف جنگ جیتنا چاہتے ہیں۔ یعنی ان کی سوچ میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اسی کو وہ نظریہ بتا کر پاکستانی عوام کو بیچنا چاہتے ہیں حالانکہ بدعنوانی کا یہ نظریہ پچاس کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں جی ایچ کیو میں ہی ایجاد ہوا تھا۔ اگر یہ بیان غلط محسوس ہو تو ملک پر مارشل لا نافذ کرنے والے سب فوجی جرنیلوں کے قوم سے پہلے خطاب کو نکال کر دیکھ لیا جائے جو بیانیہ ہی نہیں بلکہ الفاظ کے استعمال تک میں یکسانیت لئے ہوئے ہیں۔ اسی لئے ’میرے عزیز ہموطنو‘ جیسے فقرے کو ملک میں فوجی تسلط کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور کسی کو اسے سمجھنے میں مشکل کا بھی سامنا نہیں ہوتا۔

یہ سب جرنیل بھی قوم کو ’چوروں لٹیروں‘ سے نجات دلانا چاہتے تھے لیکن جب اقتدار کو طول دینے کے لئے سول چہروں کی ضرورت پڑتی تو انہی ’چوروں‘ میں سے بعض کو ’صادق و امین‘ کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا جاتا تھا۔ عمران خان تو بخوبی اس طریقہ سے آگاہ ہیں۔ کیوں کہ انہیں تو یہ سرٹیفکیٹ سپریم کورٹ کے ذریعے عطا ہوا تھا۔ کیا اس ملک میں معمولی سیاسی فہم رکھنے والا ایک بھی ایسا شخص تلاش کیا جاسکتا ہے جو اس بوالعجبی پر دانتوں میں انگلی نہ دباتا ہو کہ ملک کے وزیر اعظم کو تو اقامہ کے لئے اپنے بیٹے کی کمپنی میں عہدہ لینے، اس سے تنخواہ نہ لینے اور اسے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر ’صادق و امین‘ ماننے سے انکار کر دیا جائے لیکن عمران خان کو بنی گالہ کی خریداری پر ناقص و نامکمل معلومات کے باوجود اس اعزاز سے سرفراز کر دیا جائے۔ اور قربانی کے بکرے کے طور پر جہانگیر ترین کو نا اہل قرار دیا جائے۔

عمران خان طے کر لیں کی وہ کفن باندھ کر انقلاب کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں یا انتخابات کے ذریعے اکثریت لینے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ کیوں اسٹبلشمنٹ کے اختیار و طاقت کے بارے میں جو بیان انہوں نے گزشتہ روز بی بی سی انٹرویو میں دیا ہے اس کے مطابق تو اصل اختیار اسٹبلشمنٹ ہی کے پاس ہے۔ اسی لئے سیاست دان فوج کی خوشنودی کے لئے قطار لگائے کھڑے رہتے ہیں۔ خود عمران خان اس قطار میں دوسروں کو دھکا دے کر پہلی پوزیشن پر آنے کا مزہ لے چکے ہیں۔ اب وہ ڈرا دھمکا کر یہی مقصد دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ خود سوچیں کہ جس اسٹبلشمنٹ کو انہوں نے براہ راست تشدد کے ذریعے للکارا ہو وہ ایک بار پھر ان پر کیوں اعتبار کرے گی۔

عمران خان کا یہ مقدمہ از حد کمزور ہے کہ ان کے بغیر ملکی معاملات کیسے چلائے جائیں گے۔ ؟ عمران خان بہت مقبول ہوں گے اور شاید اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آئندہ حکومت ملنے پر کچھ بہتر کارکردگی دکھانے کے قابل بھی ہوں۔ لیکن کوئی ایک شخص کسی بھی ملک و قوم کے لئے ناگزیر نہیں ہوتا۔ عمران خان کو اپنے بارے میں اگر کوئی ایسی غلط فہمی ہے تو اسے دور کر لینا چاہیے۔

اگر موجودہ حالات میں کوئی پارٹی انتخابات کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے تو ایک بات واضح ہے کہ اسے قومی مفاد کی اسی تفہیم کو ماننا پڑے گا جس کا اعلان جی ایچ کیو سے کیا جاتا ہے۔ ماضی کے تجربات سے قوم یہ سبق تو ضرور سیکھ چکی ہے کہ ’قومی مفاد‘ کے ایسے اعلانات میں ملک کے عام لوگوں کی سہولت کا کوئی مقصد پنہاں نہیں ہوتا۔ اس ایجنڈے پر منعقد ہونے والے انتخابات کمپرومائزڈ ہوں گے کیوں کہ اسٹبلشمنٹ کو اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعے بہر حال سیاسی اقتدار پر قابض رہنا ہے۔ عمران خان خود اس کی گواہی دے چکے ہیں۔ پھر ان کے پاس ایسا کون سا بیانیہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ بات چیت میں ان کی بات مان کر اقتدار ان کے حوالے کرنے پر آمادہ ہو جائے۔

اگر اسٹبلشمنٹ کی مہربانی سے ہی اقتدار تک پہنچنا ہے تو انہیں دو کام کرنے ہوں گے : 1 ) دوسری ’کٹھ پتلی‘ پارٹیوں کے مقابلے میں اپنی خوبیاں بیان کرنا۔ 2 ) اس بات کا اعتراف کہ ماضی قریب میں ان سے جو گستاخی سرزد ہوئی تھی، اب وہ اس سے تائب ہوچکے ہیں۔

عمران خان اگر یہ دونوں کام کرنے پر راضی ہیں تو انہیں ویڈیو پیغامات میں اسٹبلشمنٹ سے جواب طلب کرنے کی بجائے خفیہ مواصلت سے معافی تلافی کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ انہیں بھی کسی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے کا پروانہ عطا ہو جائے۔ دوسری صورت میں اگر وہ واقعی سر پر کفن باندھے بیٹھے ہیں تو انہیں احتیاط سے 9 مئی کے وقوعہ کی تفصیلات کا مشاہدہ و مطالعہ کر لینا چاہیے۔ اس بار شاید چند ہزار لوگ بھی گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ زمان پارک کی ویرانی اور کسی اکڑ فوں کے بغیر ایک سے دوسری عدالت کا سفر انہیں حقیقت حال سمجھانے کے لئے کافی ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments