سی پیک منصوبہ: کل اور آج


سنہ 1951 ء میں چین اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے تھے جو ایک قریبی اور باہمی مفاد پر مشتمل رشتے کی صورت آج تک قائم ہیں۔ 1960 اور 1970 کی دہائی میں جب چین کو عالمی تنہائی کا سامنا تھا تو پاکستان نے اس کا بھرپور ساتھ دیا اور ہر پلیٹ فارم پہ چینی سفارت کاری کے حق میں موجود رہا۔ یہی نہیں بلکہ چین کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک بھی پاکستان ہی تھا۔ ملٹری، ٹیکنالوجی اور معاشی مسائل میں مدد کے لیے چین بھی ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے جس سے پاکستان کو کئی مشکلات حل کرنے میں آسانی ہوئی ہے۔

1951 ء میں پاک چین سفارتی تعلقات تو قائم تھے مگر کبھی باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال نا ہوا تھا۔ جب پاکستان کی انڈیا اور چین کی کوریا سے جنگ چھڑی تو دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملا اور مستقبل میں کسی بھی خطرے سے نبٹنے کے لیے دونوں ممالک نے اپنی افواج کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا سوچا۔ یہ وہ وقت تھا جب بنیادی طور پر بیرونی خطرات سے نبردآزما ہونے کے لیے سفارتی تعلق استوار کیے گئے مگر بات چیت کے بعد معاشی معاملات پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کا اعادہ کیا گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب پاکستان کمیونزم کے خلاف امریکی قیادت میں مغربی اتحاد میں شامل ہوا کیونکہ اس نے اپنے مشرقی پڑوسی کو مستقل خطرہ کے طور پر دیکھا۔ اس پر بیجنگ کے شکوک و شبہات کے باوجود، دونوں ممالک نے محتاط رویہ اختیار کیا کہ کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف ہو۔

جب دونوں ممالک کے وزرائے اعظم 1955 میں بنڈونگ میں پہلی بار اعلیٰ سطح پر ملے تو اس سے باہمی تعلقات میں کافی بہتری آئی۔ دونوں طرف سے اعلیٰ سطحی مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق ہوا۔ اکتوبر 1956 میں چینی سربراہ چاؤ نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس پاکستان دورے کے دوران ان کی کافی فائدہ مند ملاقاتیں ہوئیں اور دیرپا دوستی کے تعلق کا احساس ہوا۔ اس کے بعد وزیراعظم پاکستان حسین شہید سہروردی نے بھی چین کا دورہ کیا۔ اس کے بعد وقت آتا ہے 2013 ء کا جب صدر پاکستان آصف علی زرداری چین کا دورہ کرتے ہیں اور چینی پریمئیر (وزیراعظم) لی کی چیانگ سے ملاقات کے بعد پاک چین دوستی کو بہتر کرنے کے لیے پاک چائنا اکنامک کاریڈور کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کرتے ہیں۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) ایک 62 بلین ڈالر کا کنیکٹیویٹی منصوبہ ہے جس کا مقصد مغربی چینی شہر کاشغر سے پاکستان کے بحیرہ عرب کی بندرگاہ گوادر تک تجارتی وسائل کو پھیلانا ہے، جو ایران اور خلیج فارس کی شپنگ لین کے قریب واقع ہے۔ یہ بیجنگ کے وسیع تر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا ایک اہم جزو ہے۔ 2015 میں شی جن پنگ پاکستان کا دورہ کرتے ہیں اور اس کے بعد سی پیک کے کاموں میں تیزی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مغربی ممالک کی جنوب ایشیائی ممالک میں بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو کم کرنے کے لیے بھی چین کو پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہمیشہ سے فائدہ مند رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک سی پیک کے حوالے سے اپنی من پسند رائے کے ذریعے اسے ”جیو پولیٹکس“ اور ”وسائل پر قبضے“ کی جنگ کا نام دیتے ہیں۔ مگر دیکھا جائے تو یہ منصوبہ پاکستان کے لیے نہایت مفید ہے۔

سی پیک سے پاکستان آنے والے وقت میں کئی حوالوں سے مستفید ہو سکتا ہے۔ ایک تو چین کی سرمایہ کاری سے علاقے میں ترقی کے مواقع دیکھنے کو ملیں گے دوسری طرف پاکستان کی علاقائی اہمیت میں اضافہ ہو گا۔ مزید یہ کہ معیشت کی بہتری اس طرح ممکن ہے کہ پاکستان تجارت کے حوالے سے ایک مرکزی حیثیت اختیار کر جائے گا جس کا براہ راست فائدہ مقامی انڈسٹری کو بھی ہو گا اور پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈیوں تک رسائی ملے گی۔ سی پیک سے چین، وسطی ایشیا، روس، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے ساتھ تجارت بڑھا کر پاکستان کی معیشت میں بڑا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

مزید یہ کہ سی پیک کے حوالے سے کنسٹرکشن، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر امور سے بھی پاکستان کو کئی معاشی فائدے ملیں گے۔ سی پیک کے تجارتی روٹ کے دونوں جانب ترقی کے کئی مواقع موجود ہوں گے جس سے زمین کی قیمت میں اضافہ بھی ہو گا اور اس زمین کے مالکان اور ڈویلپرز کو کافی فائدہ ہو گا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور آبادی کا بیشتر حصہ زراعت سے منسلک ہے، سی پیک کے آنے کے بعد دونوں ممالک جدید ٹیکنالوجی سے زرعی پیداوار کو بڑھا کر ان کی ایکسپورٹ سے کثیر زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔ سی پیک سے انویسٹمنٹ کے کئی مواقع پیدا ہوں گے اور بیرون ممالک سے سرمایہ جب پاکستان آئے گا تو اس سے روزگار میں اضافہ اور انفراسٹرکچر میں بہتری آئے گی۔

یہ وقت سی پیک کے ثمرات سے مستفید ہونے کا ہے، اس میں تمام صوبائی حکومتوں کو وفاق کے ساتھ مل بیٹھ کر ایسا پروگرام تشکیل دینا چاہیے جس سے تمام صوبوں کو فائدہ ہو۔ سی پیک کے روٹ پر صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے تحفظات کو دور کرتے ہوئے وفاق کو مضبوط فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

محمد ارسلہ خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد ارسلہ خان

محمد ارسلہ خان پاکستان میں روس کے اعزازی قونصل ہیں

muhammad-arsallah-khan has 11 posts and counting.See all posts by muhammad-arsallah-khan