سیاسیوں کے بیانیوں پر کون سے نظریے کا اطلاق ہوتا ہے؟


علم ِ نفسیات کا ’علم اور عمل میں عدم مطابقت‘ کا نظریہ بڑا دل چسپ نظریہ ہے بشرطیکہ اس کو دوسروں پر لاگو کیا جائے اور ایک بدصورت آئینہ ثابت ہوتا ہے اگر اس میں اپنا عکس نظر آئے۔ یہ دنیا ہی نہیں اپنا آپ بھی سمجھ سے بالا ہے اگر نظریاتی تناظر نہ ہو۔ جہاں سے ایک نظریے کی کارفرمائی ختم ہو جائے وہاں سے دوسرے نظریے کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ میری سمجھ میں تب آیا جب میں نے علم اور عمل میں عدم مطابقت کے نظریے کو سیاست دانوں کے بیانات پر لاگو کیا۔ اس نظریے کا تو دم پھولنے لگا اس سے پہلے کے جان نکلتی میں نے فٹ سے دوسرے نظریے پر چھلانگ لگائی۔ یہی وہ مقام تھا جہاں اس نظریے کی معصومیت ظاہر ہوئی۔

علم اور عمل میں عدم مطابقت کا یہ پیارا اور نیک نظریہ کیا ہے؟ (اسے پیارا اور نیک کہنے کی توجیہہ آگے آئے گی) ۔ اس نظریے کے مطابق اگر انسان کا عمل اس کے علم کے مطابق نہ ہوتو وہ ذہنی انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب معصوم اور بھولا انسان اس ذہنی انتشار سے نکلنا چاہتا ہے ؛ تو وہ کیا کرتا ہے؟ وہ اپنے عمل کی وجوہات تراشتا ہے، اس لیے یہ کرنا پڑا یا اُس لیے یہ ضروری تھا وغیرہ۔ تھوڑا فہم رکھنے والا انسان ہوتا ہے تو وہ علم میں تبدیلی کی جانب اپنی بساط کے مطابق قدم بڑھاتا ہے۔

یہ ہر دو کوشش اس ذہنی خلفشار سے آزادی حاصل کرنے کی سعی ہوتی ہے جو یہ معصوم لوگ کرتے ہیں۔ نظریہ ساز لیون فیسٹنگر اور اس کے ساتھی بھی شریف النفس تھے کہ ان کی تجرباتی تحقیقات کا دائرہ عام لوگ تھے اور یہ نظریہ وجود میں آ گیا۔ کہیں وہ اپنے نظریات کا دائرہ عامیوں سے بڑھا کر سیاسیوں تک لے جاتے تو لیون فیسٹنگر بھی ہانپنے لگتا؛ پھر اس کے ساتھی اسے سمجھاتے کہ بھائی آپ دوسرے نظریے کے حدود میں دخل در معقولات کا شکار ہو رہے ہیں ؛ اپنے دائرے میں واپس آئیے یہ نظریہ کامیاب ہے ؛ اور اس میں کوئی شک نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ علم اور عمل میں دوئی کے نتیجے میں پریشان ایک عام آدمی ہوتا ہے لہٰذا یہ عام آدمی کا مسئلہ اور نظریہ ہے۔ اس نظریے کا جو دم پھولا وہ میری غلطی تھی کہ عامیوں پر لاگو ہونے والے نظریے کو میں نے سیاسیوں پر لاگو کیا۔ یہ دوئی ان کا مسئلہ نہیں ہے۔

”علم اور عمل میں عدم مطابقت“ اور ”قول و فعل میں تضاد“ کیا یہ دو مختلف تصوّرات ہیں؟ یا ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں؟ جب انتشار کی جگہ ہٹ دھرمی لے لے۔ جب خلفشار پر ضد غالب آ جائے۔ جب انا اُصول پر حاوی ہو۔ جب امارت اخلاقیات کو مات دے دے۔ جب عہدہ دار فرض کو بالائے طاق رکھ دے۔ ایسے آدمیوں میں کوئی دوئی جنم لیتی ہے؟

ہمیں یہ نظریہ علمِ ابلاغیات میں پڑھایا گیا۔ ابلاغ ِ عامہ میں اس نظریے کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟ جواب ہے کہ: ”وہ پیغام جو پیغام وصول کرنے والے کے علم اور عمل میں دوری کو کم کرتا ہے وہ موثر ہوتا ہے۔“ اس کی ایک مثال اسلامی بینک کاری ہے ؛ دوئی خلاص۔

نظریات کا سفر جاری ہے۔ سیاسیوں کے بیانیوں پر کون سے نظریے کا اطلاق ہوتا ہے؟ اس کا جواب اگلی تحریر میں۔ گر قبول اُفتد

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments