جہانگیر ترین، پی پی پی، ق لیگ یا مسلم لیگ ن: پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی اگلی سیاسی منزل کیا ہو سکتی ہے؟

عمردراز ننگیانہ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


جہانگیر ترین، عمران خان
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف بظاہر سیاسی ’جوڑ توڑ‘ کا محور بن کر سامنے آ رہی ہے۔ نو مئی کے واقعات کے تناظر تحریک انصاف کے بیشتر سینیئر رہنما اور ٹکٹ ہولڈر یا تو پارٹی کو خیرآباد کہہ چکے ہیں یا سیاست کو ہی۔

تحریک انصاف کو خیرباد کہنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنھیں ’الیکٹیبلز‘ کہا جاتا ہے اور جو سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل پارٹی کا حصہ بنے تھے۔

سنہ 2013 اور 2018 کے عام انتخابات سے قبل یہ ’الیکٹیبلز‘ اور دیگر کئی سیاستدان سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف میں بڑی تعداد میں شامل ہوئے تھے۔

تاہم آج کے سیاسی منظرنامے میں جہاں کافی کچھ مختلف ہے وہیں بہت کچھ قدرے مشترک بھی ہے خاص طور پر مرکزی کردار۔ سابق پی ٹی آئی رہنما جہانگیر خان ترین ان میں سے ایک ہیں۔

2013 اور 2018 کے انتخابات سے قبل الیکٹیبلز کو تحریک انصاف میں شامل کروانے میں جہانگیر ترین نے کافی نمایاں اور متحرک کردار ادا کیا تھا۔

ان کا وہ پرائیویٹ طیارہ بہت مقبول ہوا تھا جس میں جہانگیر ترین مبینہ طور پر جنوبی پنجاب سے آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو عمران خان سے ملاقات کروانے کے لیے لاتے تھے اور ان ملاقاتوں کا اختتام جیتے ہوئے امیدواروں کی جانب سے تحریک انصاف میں شمولیت کے اعلان پر ہوتا تھا۔

پانچ سال بعد آج جہانگیر ترین پی ٹی آئی میں نہیں ہیں۔ وہ چند برس قبل عمران خان سے اپنی راہیں جدا کر چکے ہیں۔ ان کے اثرورسوخ کے زیر اثر جو لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے ان میں سے ایک بڑی تعداد بھی واپس ان کے ساتھ جا کھڑی ہوئی تھی۔

نو مئی کے واقعات کے بعد لگ بھگ سو سے زائد پی ٹی آئی کے سابق ممبران اسمبلی یا رہنما عمران خان کی جماعت کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ ان میں وہ رہنما بھی شامل ہیں جو جماعت میں نمایاں مقام رکھتے تھے اور مظاہروں کے بعد گرفتار کر لیے گئے تھے۔

ان میں سے کچھ نے دو یا چار دن جیل میں گزارنے کے بعد رہائی پر پریس کانفرنس کے ذریعے پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا اعلان کیا تو کچھ نے بغیر گرفتاری اور پریس کانفرنس ہی کے پی ٹی آئی سے دوری اختیار کرنے کا اعلان کر دیا۔ کچھ اب بھی زیرِحراست ہیں۔

اب ملک کے سیاسی منظرنامے پر صورتحال انتہائی غیر واضح ہے مگر تصویر کچھ یوں ہے۔ ایک طرف پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے سابق ممبران ہیں۔ دوسری طرف وہ سیاسی جماعتیں ہیں جہاں وہ جا رہے ہیں، جو انھیں لینا چاہیں گی، جہاں وہ جانا چاہیں گے یا پھر چاہنے کے باوجود جا نہیں پا رہے۔

ان جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ق اور تصویر کے ایک کونے میں پاکستان مسلم لیگ ن کھڑی ہیں۔ ساتھ ہی جہانگیر خان ترین بھی کھڑے ہیں۔ ان کے حوالے سے مقامی ذرائع ابلاغ میں بازگشت ہے کہ وہ اپنی نئی جماعت بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انھوں نے خود اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی تاہم گزشتہ چند روز میں وہ اسلام آباد اور لاہور میں کئی سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو خیرباد کہنے والے سیاستدان کس جماعت یا گروہ کا رخ کریں گے؟

کیا وہ ان جماعتوں میں واپس جانا چاہیں گے جن کو وہ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے؟ کیا وہ جماعتیں انھیں واپس لینا چاہیں گی؟ اگر وہ نہیں لیتیں، تو ایسے لوگ کہاں جائیں گے؟ کیا جہانگیر ترین ان کو اپنی طرف لا سکیں گے؟ اس تمام صورتحال کا پی ٹی آئی اور عمران خان کے سیاسی مستقبل پر کیا اثر ہو گا؟

’یہ سب عمران خان کو نکالنے کے لیے ہو رہا ہے‘

صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں ہونے والی میل ملاقاتوں اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی سے عمران خان کو نکالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ایک حالیہ ملاقات کی طرف اشارہ کیا۔

اس میں پی ٹی آئی کے سابقہ رہنما فواد چوہدری، عمران اسماعیل، محمود مولوی اور عامر محمود کیانی نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید پی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔

تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’یوں تو شاہ محمود قریشی کے خاندان کے افراد کو بھی ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی اور ایسے میں فواد چوہدری وغیرہ ان سے تفصیلی ملاقات کرتے ہیں۔ واضح ہے کہ یہ ملاقات کس نے کروائی ہو گی اور کیوں کروائی ہو گی۔‘

ان کے خیال میں یہ ان کوششوں کا حصہ ہے جنھیں ’مائنس عمران خان‘ کا نام دیا جا رہا ہے یعنی پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو منظرنامے سے ہٹا دیا جائے اور پھر شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی کو آگے لے کر چلیں۔

یاد رہے کہ حال ہی میں عمران خان خود یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ان کے نااہل قرار دیے جانے کی صورت میں شاہ محمود قریشی جماعت کو لیڈ کریں گے۔ سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ‘سنہ 2002 کی طرح ن لیگ میں سے ق لیگ نکالنے جیسی کوشش ہو رہی ہے۔’

نو مئی

9 مئی کے دن عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں اور فوجی تنصیبات پر مظاہرین کی چڑھائی کے واقعات کے بعد صورتحال ایک مرتبہ پھر بدل گئی

تو کیا پی ٹی آئی چھوڑنے والے واپس آنا چاہیں گے؟

صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کچھ رہنماوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا موزوں آپشن موجود نہیں۔ ’جیسا کہ فواد چوہدری ہیں۔ وہ پہلے بھی دو تین جماعتیں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں آئے ہیں۔ ان کے لیے اب کسی دوسری جماعت میں جانا مشکل ہو گا۔‘

وہ سمجھتے ہیں فواد چوہدری یا ان کے دیگر چند ساتھیوں کے لیے مشکل یہ بھی ہے کہ وہ اگر کسی دوسری جماعت میں چلے بھی چاتے ہیں تو ان کے لیے انتخاب جیتنا مشکل ہو گا۔ ’پی ٹی آئی کے نام پر ملنے والا ووٹ اب بھی صرف عمران خان کا ہے۔‘

سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے یہ سابقہ رہنما چاہیں گے کہ وہ اسی ووٹ سے استفادہ کریں اگر عمران خان جماعت میں نہیں بھی ہوتے، تب بھی۔

’یہ تمام لوگ اپنا الگ گروپ بھی بنا سکتے ہیں‘

صحافی اور تجزیہ نگار محمل سرفراز سمجھتی ہیں کہ پی ٹی آئی کو چھوڑنے والے کچھ سابق ممبران کو پاکستان پیپلز پارٹی نے لے لیا ہے، کچھ ق لیگ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔ تاہم ن لیگ کے حوالے سے ابھی ابہام موجود ہے۔

’ن لیگ کے پاس یا تو اپنے لوگ موجود ہیں اس لیے وہ اس طرح کے لوگوں کو لینا نہیں چاہے گی جو ان کے خلاف ماضی میں حدیں کراس کر چکے ہیں اور کچھ لوگ خود بھی جانا نہیں چاہیں گے کیونکہ ن لیگ کی مقبولیت اس وقت خود بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔‘

محمل سرفراز سمجھتی ہیں کہ ایسی صورتحال میں وہ لوگ جو کسی دوسری جماعت میں نہیں جا سکتے ان کے پاس ایک آپشن یہ ہے کہ وہ اپنا ایک گروہ بنا لیں۔

’یہ تمام لوگ مل کر اپنا ایک الگ آزاد گروپ بھی بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ عمران خان کی پی ٹی آئی کے ووٹ کا بھی فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔‘

عمران خان

سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے یہ سابقہ رہنما چاہیں گے کہ وہ اسی ووٹ سے استفادہ کریں اگر عمران خان جماعت میں نہیں بھی ہوتے

تو کیا پی ٹی آئی چھوڑنے والے جہانگیر ترین کی طرف جا سکتے ہیں؟

صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کا خاص طور پر جنوبی پنجاب میں اثرورسوخ ضرور ہے تاہم ان کا زیادہ بڑا ووٹ بینک نہیں۔

’جہانگیر ترین ایک اچھے لیڈر نہیں بلکہ وہ ایک اچھے مینیجر ہیں۔ ان کے پاس ذرائع بھی ہیں اور وہ ان کو استعمال کرنا بھی جانتے ہیں لیکن وہ نمبر ون نہیں ہو سکتے، نمبر ٹو ہو سکتے ہیں۔‘

سلمان غنی کے خیال میں بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اپنی ایک الگ جماعت بنانے جا رہے ہیں لیکن ’ان کے لیے زیادہ موزوں یہ ہو گا جتنے زیادہ ممکن ہو اتنے الیکٹیبلز کا الائینس بنائیں۔ اس طرح کل کو جو بھی صورتحال بنتی ہے وہ کسی جماعت میں شامل ہو کر حکومت کا حصہ بن سکتے ہیں۔‘

محمل سرفراز کا کہنا ہے کہ تاحال جہانگیر ترین یا ان کے کسی قریبی ساتھی کی طرف سے براہِ راست اس بات کا اعلان نہیں کیا گیا کہ وہ علیحدہ جماعت بنانے جا رہے ہیں۔ ’ذرائع سے لیکن نئی جماعت کی باتیں سامنے آ رہی ہیں۔‘

محمل سمجھتی ہیں کہ اگر آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کا مقصد عمران خان اور ان کی جماعت کو شکست دینا ہے تو زیادہ سیاسی جماعتوں کے بننے سے ان کے اپنے ووٹ بینک کا نقصان ہو گا۔

’وہ ایک دوسرے کے بھی ووٹ کاٹ رہے ہوں گے۔ اس لیے جہانگیر ترین یہ چاہیں گے کہ وہ اپنا الگ ایک گروپ بنائیں یا سیٹ ایڈجسمنٹ کریں جس کو لے کر وہ کل کو جیتنے والی جماعت کے ساتھ معاملات کر پائیں۔‘

صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کے خیال میں ایک صورتحال یہ نظر آ رہی ہے کہ ’مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی، ق لیگ اور ترین گروپ کو ملا کر حکومت بنانے کا راستہ نکالا جائے۔‘

تاہم سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو مکمل طور پر باہر کرنا بہت مشکل ہو گا۔ ’تاریخ دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مائنس ون کرنے والا فارمولا کبھی بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو پایا۔ پی ٹی آئی میں آج بھی ووٹ صرف عمران خان کا ہے۔‘

تو کیا شاہ محمود قریشی کی قیادت میں پی ٹی آئی وہ ووٹ لے پائے گی؟

صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی سے ہونے والی ان کے جماعت کے سابق ممبران کی جیل میں حالیہ ملاقات سے بظاہر یہ پتا چلتا ہے کہ شاہ محمود قریشی تاحال مائنس ون کے کسی فارمولے پر ساتھ دینے کو تیار نہیں۔

’اور نہ ہی وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کو چھوڑنے پر رضامند ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ شاہ محمود قریشی کا اپنا مفاد اسی میں ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو نہ چھوڑیں۔‘

سلمان غنی کہتے ہیں کہ شاہ محمود پرانے سیاستدان ہیں۔ ’انھیں اندازہ ہے کہ وہ اس وقت پی ٹی آئی کو چھوڑ کر اپنا سیاسی نقصان کریں گے۔ ان کے لیے پی ٹی آئی کے ووٹ کے بغیر جیتنا مشکل ہو گا۔‘

’حال ہی میں ان کی اپنی صاحبزادی ضمنی انتخاب ہار گئیں تھیں اس سے ان کو اپنی مقبولیت کا اندازہ بخوبی ہو گا۔ کسی دوسری جماعت میں جانا بھی ان کے لیے مشکل ہو گا۔‘

صحافی اور تجزیہ نگار محمل سرفراز بھی اس سے متفق ہیں کہ شاہ محمود قریشی کے لیے بہتر راستہ یہی ہو گا کہ وہ پی ٹی آئی ہی کے اندر رہیں اور اس کو نہ چھوڑیں۔

’عمران خان خود ان کو نامزد کر چکے ہیں اور اس کا ان کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے اگر کل کو عمران خان نااہل بھی ہوتے ہیں۔‘

ان کے خیال میں اب دیکھنا یہ بھی ہو گا کہ کیا پاکستان میں عام انتخابات اپنے وقت پر ہوتے ہیں یا نہیں۔ اتنخابات کے قریب تصویر زیادہ واضح ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments