ریاست کا”بس بھئی بس” والا معاملہ


میرا کھسکا ہوا دماغ دو روز سے مزید کھسک رہا ہے۔ اخبارات کھولتا ہوں تو ان میں نمایاں انداز میں اطلاع دی جا رہی ہوتی ہے کہ عمران خان کے ساتھ ہماری ریاست کا ”بس بھئی بس“ والا معاملہ ہو گیا ہے۔ اب ان کی جماعت میں سے نام نہاد ”الیکٹ ایبلز“ کو نکال کر ایک ”کنگز پارٹی“ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

کالم یہاں تک پڑھ لینے کے بعد آپ کے ذہن میں فوراََ سوال یہ اٹھنا چاہیے کہ مذکورہ بالا ”خبر“ میرا دماغ کھسکانے کا سبب کیوں ہوئی۔اکتوبر 1999ء میں اقتدار پر قابض ہو جانے کے بعد جنرل مشرف کو جب سیاسی سہاروں کی طلب محسوس ہوئی تو انہوں نے مسلم لیگ کے ”قاف“ کے لاحقے کے ساتھ بنائے ایک ”ورژن“ کی سرپرستی فرمانا شروع کر دی تھی۔اس جماعت کو ان دنوں ”کنگز پارٹی“ ہی تو پکارا گیا تھا۔ ٹھنڈے دل سے مزید غور کریں تو 2011ء کے بعد عمران خان کی بنائی تحریک انصاف بھی بتدریج ”کنگز پارٹی“ کی صورت ہی تو اختیار کرنا شروع ہو گئی تھی۔ عروج مذکورہ عمل کا ہمیں 2018 کے عام انتخابات کے قریب دیکھنے کو ملا جب ملک بھر سے ”الیکٹ ایبلز“ کی بہت بڑی تعداد جہانگیر ترین کے نجی طیارے میں ہنستے مسکراتے سوار ہو کر اسلام آباد کے لئے پرواز بھرتی۔ اس شہر پہنچ جانے کے بعد وہ بنی گالہ تحریک انصاف کے رنگوں والا پٹکا ڈلواتے اور ”کرپشن کے خلاف جہاد“ کے باصفا مجاہد بن جاتے۔

جو واقعات آپ کو یاد دلائے گئے وہ حقیقت ہیں۔ ملکی سیاست کا طالب علم ہوتے ہوئے میں ”کنگز پارٹی“ کی اہمیت و افادیت کا منکر نہیں۔ اس کا ذکر شروع ہوا تو راتوں رات رونما ہوئی ”ری پبلکن پارٹی“ سے آغاز کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ اقتدار پر قابض ہوجانے کے بعد فیلڈ مارشل ایوب خان نے بھی خود کو ”جمہوری“ بنانے کے لئے 1960ء کی دہائی کے آغاز میں پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ پر ”کنونشن“ کا لاحقہ لگا کر قبضہ جما لیا تھا۔ غازی ضیاالحق البتہ کسی سیاسی جماعت کے قیام یا اس میں شمولیت کو آمادہ نہیں ہوئے۔بطور ”صالح جنرل “وہ افغان جہاد پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے تھے۔ سیاسی جماعتیں انہیں اسلامی اصولوں کے منافی محسوس ہوتی تھیں۔ اس کے باوجود 1985ء میں ”غیر جماعتی انتخابات“کروالینے کے بعد انہیں اپنے ہاتھوں نامزد کردہ وزیر اعظم کی جانب سے مسلم لیگ کا ”احیا” برداشت کرنا پڑا۔

جولائی 1977ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں ہماری ریاست نے ”بس بھئی بس“ کا ارادہ باندھ لیا تو بھٹو صاحب کے کئی ساتھیوں نے نئے حکمرانوں کے لئے قابل قبول جماعتیں بنانے کی کوشش کی تھی۔آغاز اس عمل کا مولانا کوثر نیازی کے ہاتھوں ہوا۔ بعدازاں حنیف رامے صاحب نے ”مساوات پارٹی“ متعارف کروانے کی کوشش کی۔ ان میں سے ایک بھی کاوش کامیاب نہ ہوئی۔ جنرل ضیاءکا جی محمد خان جونیجو کی ”خودمختاری“ سے اکتانا شروع ہوگیا تو 1986ء میں غلام مصطفےٰ جتوئی مرحوم نے نیشنل پروگریسو پارٹی کے نام سے پیپلز پا رٹی کا نیا دھڑا بنانے کی کوشش کی تھی۔وہ ناکام رہے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے سگے بھائی مرتضیٰ بھٹو نے بھی اپنے والد کے نام سے منسوب” پیپلز پارٹی“ بنانے اور اسے چلانے کی کوشش کی۔

میرا دماغ ان دنوں یقینا کھسک رہا ہے مگر اتنا بھی نہیں کھسکا کہ میں وطن عزیز میں ”کنگز پارٹی“ کے نام سے قائم روایات کو بھلا دوں۔ کنگز پارٹی کا آسان اردو ترجمہ ہے ”بادشاہ کی جماعت“۔اس ترجمے کو ذہن میں رکھیں تو ”کنگز پارٹی“ کی سرپرستی کیلئے ایک ”بادشاہ“ درکار ہے۔ آج کا دور چونکہ بادشاہوں کا نہیں رہا۔ اس لئے اپنی آسانی کے لئے فرض کرلیتے ہیں کہ ان دنوں بنائی ”کنگز پارٹیاں“ حکمرانوں کی سہولت کے لئے بنائی جاتی ہیں۔

اگر یہ مفروضہ درست ہے کہ آج کا ”حکمران“ کوئی فرد واحد نہیں بھان متی کا کنبہ دکھتی ایک حکومت ہے۔ وزیر اعظم اس کے شہباز شریف ہیں۔ وہ اپنے بھائی کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے قائد بھی ہیں۔ حکمران اتحاد میں دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے اور تیسری کے قائد مولانا فضل الرحمن ہیں۔ سوال اٹھتاہے کہ تین روایتی اور پرانی پارٹیوں کے یہ قائدین ”کنگز پارٹی“ کیوں بنوانا چاہیں گے۔عمران خان کی بنائی تحریک انصاف کے گھونسلے سے اگر کچھ پرندے باہر نکل کر کسی دوسری منڈیر پر ڈیرہ لگانا چاہ رہے ہیں تو شہباز شریف،آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی یہ کوشش ہونا چاہیے کہ ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد ان کی جماعتوں میں شامل ہو تاکہ وہ آئندہ انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں مضبوط حکومتیں بنا سکیں۔ اپنے تئیں حکومت کے بنانے کے قابل نہ ہوں تو مخلوط حکومت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے لئے اپنا جثہ بڑھائیں۔ یہ تینوں جماعتیں اور ان کے قائدین جہانگیر ترین، فواد چودھری یا چودھری سرور کو ”الگ ہٹی“ قائم کرنے کی سہولت کیوں فراہم کریں؟۔

”کنگز پارٹی“ اگر واقعتا قائم ہونا ہے تو اس کا ”کنگ“ مذکورہ بالا افراد یعنی شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن میں سے کوئی ایک بھی ہو نہیں سکتا۔ ایسی جماعت کی سرپرستی ”کہیں اور“ سے آئے گی۔ میرا کند ذہن فی الوقت ایسی ”سرپرستی“ کا جواز تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جو ”سرپرستی“ درکار ہے اگر واقعتا میسر ہوتی تو فواد چودھری صاحب کا بدھ کی شام راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر لگایا میلہ چند ہی منٹوں میں اجڑ نہ جاتا۔اپنے بڑھک باز رویے کے عین مطابق اڈیالہ جیل کے باہر کھڑے ہوکر انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ ”مائنس عمران“ منصوبے کو عملی شکل دینے کے لئے تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی ،اسد عمر اور پرویز خٹک جیسے قد آور رہنماﺅں سے رابطے استوار کر رہے ہیں۔ ان کے خطاب کے چند ہی لمحوں بعد مگر تردیدوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ”اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے“ والا معاملہ ہوگیا۔ مان لیجئے”کنگ“ کے بغیر ”کنگز پارٹی“ کا قیام ناممکن ہے۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments