مخلوقِ غضب اور فلاسفر شیدا


 

طالب علم کی زندگی کا سب سے خراب موسم، موسم امتحان ہوتا ہے۔ بقول پطرس بخاری طلباء کی فصل شروع سرما میں بوئی جاتی ہے اور عموماً اواخر بہار میں پک کر تیار ہوتی ہے۔ موسم گرما کی ابتدا میں اس فصل کو کاٹا جاتا ہے۔ یہاں کاٹنے سے میری مراد ذہنی عرق ریزی سے ہے نا کہ جسمانی۔ جس طرح موسم کے بدلاؤ سے فضائی رویہ بدل جاتا ہے ایسے ہی موسم امتحان آتے ہی طلباء کے رویے بدل جاتے ہیں۔ کسی میں اجنبیت سے دوستی کا رویہ پنپ جاتا ہے تو کوئی دوست سے طوطا چشم کا روپ دھار لیتے ہیں۔

پطرس بخاری نے طلباء کی چار اقسام بیان کی تھیں مگر موسم امتحان کا آغاز ہوتے ہی ان اقسام میں یوں تغیر ہوتا ہے جیسے بارش کے موسم میں مینڈک کی قوم میں۔ بارش کے موسم میں جس طرح خورد رو پودے چار سو نظر آتے ہیں ایسے ہی امتحان کے دنوں میں وہ طلباء، جو اجنبیت سے دوستانہ مراسم تک کا سفر ایک ہی میسج سے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوستی کے لیے پہلی قربانی کے طور پر نوٹس مانگتے ہیں، ہر جگہ دیکھے جاتے ہیں۔ یہ طلباء کی پانچویں قسم ہے۔

لفظ ”پڑھنا“ ان کی لغت میں وجود نہیں رکھتا۔ سارا سال اپنی ہستی میں مست رہتے ہیں اور موسم امتحان آتے ہی در در سے نوٹس مانگتے پھرتے ہیں۔ اگر نوٹس سے انکار کر دو تو بات گروپ سٹڈی پر ٹھہرتی ہے اور اتنی عاجزی سے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں، جس میں مجبوریوں کا خصوصی ذکر ہوتا ہے، کہ ایک مہذب بندہ انکار کر ہی نہیں سکتا۔ ان کی حالت دیکھ خیال آتا ہے کہ

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی گدا نہیں ہوتا

مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ گروپ سٹڈی کس بلا کا نام ہے۔ تصور کریں کہ ایک جگہ چار لونڈے بیٹھے ہیں اور لونڈے بھی ایسے جنہیں اصطلاح میں ”اوباش اور لفنگے“ کہا جاتا ہے تو وہاں تعلیم کیا خاک ہو گی۔ بات محبوبہ سے شروع ہو گی اور اس کے بھائیوں سے جوتیاں کھانے تک پہنچ کر گالم گلوچ میں بدل جائے گی۔ اس دشنام طرازی کی محفل مغلظ کو گروپ سٹڈی کا نام دیا جاتا ہے۔ موسم امتحان میں گدا گر طلباء کی گروپ سٹڈی کا یہی مقصد مجھے سمجھ آیا ہے کہ جس نے انہیں نوٹس نہیں دیے وہ ان کا دوست نہیں ہو سکتا۔

لہٰذا گروپ سٹڈی سے اس کے ماتھے پر کمپارٹمنٹ کا جھومر سجایا جائے۔ دوسری اہم قسم ان طلباء کی ہے جو موسم امتحان سے قبل ایسے دوست ہوتے ہیں کہ اکیلے چائے تک نوش کرنا دوستی میں غداری خیال کرتے ہیں۔ مگر امتحان کے دن قریب آتے ہی وہ یوں بے مروت ہو جاتے ہیں کہ اردو شاعری کا محبوب ان کی بے مروتی پر رشک کرنے لگے۔ ان سے بات کرنے کی کوشش کرو، کہیں گے بھائی میں بڑا مصروف ہوں، پھر کبھی بات ہو گی۔ اصل میں وہ مصروف نہیں ہوتے بلکہ محو رٹا ہوتے ہیں تاکہ امتحان میں اول پوزیشن حاصل کر سکیں۔ اصطلاح میں انہیں ”تھیٹا“ کہا جاتا ہے۔ ہر مضمون کی مکمل کتاب انہیں زبانی یاد ہوتی ہے۔ لیکن اگر کسی سوال پر ان کی ذاتی رائے مانگ لی جائے تو یوں چپ سادھ لیتے ہیں جیسے سرمہ گلو گیر ہو گیا ہو۔

البتہ طلباء کی ایک اور بھی قسم ہے جسے ایک انوکھا ہی رتبہ حاصل ہے۔ یہ وہ قوم ہے جسے نہ ہی پڑھائی سے تعلق ہے اور نہ امتحان کی فکر۔ ان کا منصب یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کی مدد پر تیار رہتے ہیں۔ اور خصوصاً لڑکیوں کے کاموں کے لیے ان کے پاس بے پناہ وقت ہوتا ہے۔ امتحان کے موسم میں لڑکیوں کو نوٹس تلاش کر دینا۔ اگر کسی سے نہ مل سکیں تو خود بنا کر دینا۔ اور اگر خود بھی نہ بنا سکیں، اس بات کا احتمال اکثر رہتا ہے کیونکہ مدد کے طلب گار لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے ان کے پاس وقت کی قلت ہوتی ہے۔

اگر خود نوٹس نہ بنا پائیں تو لڑکیوں کو کچھ پیسے دے دینا تاکہ وہ کسی سے اجرت کے عوض نوٹس حاصل کر لیں۔ انہیں اصطلاح میں ”نکمے عاشق“ کہا جاتا ہے۔ البتہ اتنی بات ذہن میں رہے کہ یہ بڑے ہتھ چھٹ قسم کے لوگ ہوتے ہیں اس وجہ سے انہیں اصطلاحی زبان میں مخاطب نہ کیا جائے اور نہ ہی ان کے سامنے کسی ایسی اصطلاح کا ذکر کیا جائے۔ بے احتیاطی کی صورت آپ کا گریبان دامن میں ہو گا اور ہاتھ گلے میں۔

اس کے بعد وہ قسم آتی ہے جسے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ کون سا موسم چل رہا ہے۔ ان کے ہاں لیکچرز اور امتحان کا موسم یکساں معنی رکھتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات یہ طلباء موسم امتحان کو باعث رحمت سمجھتے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ امتحان کے موسم میں یہ گھر پیغام پہنچاتے ہیں کہ امتحان شروع ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے زیادہ محنت کرنا ضروری ہے اور زیادہ محنت کے لیے زیادہ کھانا۔ اس وجہ سے زیادہ پیسے بھیجے جائیں۔ اور اکثر وہ زیادہ پیسے سینما اور تھیٹر میں زیادہ اور کھانے پینے پر کم خرچ ہوتے ہیں۔

میں بھی کیا عجب انسان ہوں بات کیا کرنے آیا تھا اور کیا لے کر بیٹھ گیا۔ ہاں تو میں بات کر رہا تھا کہ موسم امتحان طلباء کی زندگی کا بے کیف موسم ہوتا ہے۔ ایک بار میں نے اپنے محلے کے چاچا شیدے، جو گاؤں میں واحد پڑھے لکھے آدمی ہیں، سے پوچھا کہ طلباء کی زندگی میں آخر موسم امتحان آتا ہی کیوں ہے۔ تو وہ بولے اس لیے کہ طلباء کو رات بھر جاگتے رہنے کی مشق کروائی جا سکے۔ تاکہ دو تین سالوں میں صوفیانہ صفات کے حامل ہو سکیں اور انہیں اپنی بے عزتی کبھی محسوس ہی نہ ہو۔

میں نے پوچھا کیسی بے عزتی تو بولے جب تم پڑھائی مکمل کر چکے تو تمہیں اس سوال کا جواب مل جائے گا۔ اس کے باوجود کہ چاچا شیدا ہمارے گاؤں کا واحد پڑھا لکھا آدمی ہے میں آپ سب کو چاچا شیدے کی بات نظر انداز کرنے اور بھول جانے کا مشورہ دیتا ہوں۔ کیونکہ چاچا شیدا ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ چکا ہے اور لگتا ہے کہ وہ واقعی سٹھیا گیا ہے۔ طالب علم تو وہ چیز ہے کہ پروفیسرز بھی پناہ مانگیں، ان کی عزت نہ ہو گی تو پھر چاچا شیدے جیسے لوگوں کی ہو گی جو ہر جگہ اپنا فلسفہ جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں۔

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 66 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments