لال اے۔


تربوز وہ آخری چیز ہے جو پاکستان میں سستی رہ گئی تھی۔ آج کل وہ بھی تین چار سو سے کم ایک دانہ نہیں ملتا۔

اس کی شان یہ ہے کہ باقی پھلوں کے ساتھ بکنا پسند نہیں کرتا۔ یہ بڑی ساری ڈھیری لگی ہوئی ہے بلکہ تربوزوں سے ایک اچھا خاصا گھروندہ تیار کیا گیا ہے۔ اس پر تین چار لوگ مامور ہیں۔ ایک کچھا پہن کر ننگا لیٹا ہوا ہے۔ دوسرے نے کچھے کے اوپر واسکٹ کا تکلف کر رکھا ہے۔ تیسرا درمیان میں مستعد کھڑا ہے۔ چوتھا ترازو کے پاس بڑا سارا چھرا لئے بیٹھا ہے۔ ڈھیری کے اوپر بڑا سا چارٹ لٹک رہا ہے جس پر خط حشرات سے جلی حروف میں ’لال تربوز‘ ستر روپے کلو لکھا ہے۔

نیچے ’گرنٹی کا لال‘ اور ’شرطیہ مٹھے‘ بھی لکھا ہے۔

واسکٹ والے جوان گلے کے پاتال سے عجیب و غریب چنگھاڑیں نکال رہے ہیں۔ کبھی کبھی ان چیخوں میں ’لال اے، لال اے، ‘ بھی شامل ہوجاتا ہے ورنہ آآآآآ آ آ آ آ ’ہی چلتا رہتا ہے۔ نہ ان کا گلا بیٹھتا ہے نہ یہ خود بیٹھتے ہیں۔ بار بار ان کو حال آ رہا ہے اور یہ بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔

اگرچہ ابھی تربوزوں کے کوہ ہمالیہ اور نانگا پربت بدستور لگے ہوئے ہیں مگر یہ کف اڑاتے اور دھمالیں ڈالتے مجذوبین ’تھوڑا رہ گیا‘ ،

’آخری دانے‘ ، ’فیر نہ کہنا دسیا نہیں ‘ کی مسلسل منادی دیے جاتے ہیں۔ اور راہگیروں سے ایسے لہجے میں ’کتنا ایک کر دوں؟ دس کلو؟ دو دانے کردے چھوٹے۔ ‘ کہتے ہیں کہ راہگیر نہ بھی رکے تو خوامخواہ اس کے موڈ میں لمحہ بھر کو ایک عجیب سی ناقابل بیان بے سکونی ضرور پیدا ہو جائے۔

کوئی نصیبوں کا مارا چوٹی پر لگے ہوئے تروتازہ اور چمکتے ہوئے تربوزوں کے اوپر کاٹ کر رکھے ہوئے لہو رنگ تربوز کو دیکھ کر رک جاتا ہے تو اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ان تمام صداکاروں اور اداکاروں میں تندی آجاتی ہے۔ یکایک انسانی زنجیر وجود میں آتی ہے۔ کوہ ہندوانہ کے دامن میں بنی وادی کی گہرائیوں میں سے ایک میلا کچیلا سا دانہ نکال کر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کے ہاتھوں ہوتا ہوا چھرا بردار تک پہنچا۔

اس نے اسے ایک لمحہ کے سینکڑویں حصے کے لئے اس طرح ترازو پر رکھا کہ ابھی تربوز کا لڑکھڑانا اور ڈیجیٹل ترازو کے ہندسے سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ اس نے تربوز اٹھا کر صاف کیا اور گھی کے ایک خالی کنستر کے منہ پر قبلہ رخ رکھا۔ پھر چھرا فضا میں بلند کر کے نہایت عقیدت سے باآواز بلند یوں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا جیسے تربوز کوئی قربانی کا لیلا ہے اور یہ کوئی خالص مذہبی فریضہ ادا ہونے لگا ہے۔

کسی تیرے میرے جیسے وہمی نے پوچھ لیا کہ بھائی کتنا وزن ہوا؟ تو اس نے تیوری چڑھائی۔ بگڑ کر قوالی شروع کردی۔

تم ہمیں بے ایمان سمجھتے ہو لالہ؟
ہم نوا شامل ہوئے۔
’پہلی واری لے ریا ایں؟‘ (پہلی بار لے رہے ہو؟ )
بھائی مگر۔

چھ سو اسی روپے صاحب۔ سات سو بنتے ہیں۔ ایک تو بیس روپے رعایت کردی۔ ایک اوپر سے۔ بھلائی کا زمانہ ہی نہیں ہے۔

اب ذرا قدرے درشتی سے
’ہن ٹک لاواں کہ نہیں ؟‘
(اب کٹ لگاؤں یا نہیں؟ )
ہاں لگاؤ۔

اب کی بار وہ سارا مذہبی عجز و انکسار اور راس لیلا ہوا ہوا۔ خفگی سے تربوز کی گہرائیوں میں تکونا کٹ لگایا۔ اور اسی چھرے سے اس میں سے ایک اہرام مصر کا ٹکڑا نکال لیا۔ اب دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اگر تو وہ سرخ نکل آیا تو اس پوری قوال پارٹی کو اجتماعی حال آ جائے گا اور اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر شریکے کے تربوز والوں کی طرف منہ کر کے اور یہ لال چتی چھرے سمیت بلند کر کے دھمال ڈالنا شروع کر دیں گے۔ آوازوں میں ایسی شدت آ جائے گی کہ جیسے پاکستانی تھانوں میں مجرم کی چھترول کے وقت اس کے منہ نکلنے والی اور عرش ہلانے والی دلدوز آوازوں میں ہوتی ہیں۔

کچھ دیر یہی تماشا چالو رہتا ہے تاوقتیکہ کہ خریدار سنجیدگی سے تربوز کے پیسے ادا کرتا ہے اور اشارے سے تربوز کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ نہ چاہتے ہوئے سارا تھیٹر ایک دم بند کر کے مجبوراً تربوز شاپر میں ڈالتے ہیں لیکن گاہک کو دیتے ہوئے جونہی گاہک تربوز لینے کو ان کی جانب منہ کر کے آگے کو جھکتا ہے تو یہ اچانک شریکے کی جانب منہ کر کے پوری قوت سے ایک بار مزید دھاڑ کر اس بات کی تسلی کرلیتے ہیں کہ اگر اب تک گاہک کا پردہ سماعت کسی طرح محفوظ رہ گیا ہے تو اب پھٹ جائے۔

گاہک کان سہلاتا ہوا اپنی راہ لیتا ہے۔
دوسری صورت وہ ہے
جو اکثر و بیشتر ہمارے ساتھ ہوا کرتی ہے۔

جیسے ہی دکاندار نے کٹ لگا کر ٹکڑا باہر نکالا تو وہ ستر فی صد سفید اور تیس فی صد ہلکا لال بلکہ گلابی ہوتا ہے۔

ذبیحہ والے قصائی نے کمال پھرتی سے ہلکی سرخ سائیڈ سے ایسے دکھا کر وہ ٹکڑا دوبارہ تربوز میں ڈالا کہ جیسے کوئی برہنہ کسی کو دیکھ کر فوراً ہاتھوں سے اپنا آگا پیچھا ڈھانپ لیتا ہے۔

نہ جانے کیوں شدید بے چینی، دکھ، تکلیف اور غصے کے ہم اس وقت خاموش ہو جاتے ہیں اور روبوٹ کی طرح پیسہ گن کر اس مداری کے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہیں اور آدھا گلا سڑا اور آدھا سفید بک بکا تربوز اٹھا کر گھر لے آتے ہیں۔ اسے پرات میں رکھ کاٹتے ہیں تو ٹوٹل چار قاشیں بھی قابل تناول نہیں نکلتیں۔ اسے تھیلے میں ڈالتے ہیں اور کوڑے میں ڈال کر باہر پھینک دیتے ہیں۔

ہم عوام کے بھاگ ہی ایسے کھوٹے ہیں۔ گزشتہ پچھتر سال سے ہمارے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments