کراچی میں کرائے داروں کے مسائل


عجب شے ہے کرائے کا مکاں بھی۔

سندھ میں خاص کر کراچی میں کرائے کا مکان ایک مسلسل ذہنی اذیت بنا ہوا ہے، کیونکہ 2015 میں وفاقی حکومت نے کرائے کا مکان بغیر پولیس کلیرنس کے لینے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس وقت کی وفاقی حکومت کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشتگردی کے خلاف جنگ ہو رہی ہے اور دہشت گرد بڑے شہروں میں خاص کر کراچی میں اکر پناہ لیتے ہیں اس لیے جو بھی مکان کرائے پر لے بھلے ہی وہ کراچی کا ہی رہائشی کیوں نہ ہوں اسے بھی ایگریمنٹ کی کاپی جس میں مالک مکان اور کرایہ دار کے مکمل کوائف ہوں متعلقہ تھانے میں جمع کرانے پڑے گے۔ اس پابندی کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی مشکوک شخص کسی علاقے میں رہائش اختیار کرے تو وہ فوری پکڑا جائے۔

اس وقت کراچی میں غیر قانونی تعمیرات، چائنہ کٹنگ یعنی ایسے پلاٹ جنھیں غیر قانونی طور پر چھوٹا کیا گیا تھا اور پورشن کی خرید فروخت کے خلاف کارروائی ہو رہی تھی۔ کراچی والوں نے وفاقی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف کوئی کام نہیں کیا بلکہ اسے بخوشی قبول کیا تاکہ ملک دہشت گردوں سے پاک ہوں۔ اس فیصلے کا نتیجہ انتہائی خطرناک ثابت ہوا کیونکہ کراچی کی 60 فیصد مقامی آبادی کرایہ دار ہے۔ سستے ہاؤسنگ پروجیکٹ کراچی میں شروع ہی نہیں ہوئے اور جو بنے تو وہاں بجلی، پانی، گیس اور ٹرانسپورٹ کے مسائل تھے۔ جو ہاؤسنگ سوسائٹی آباد ہوئی تو بارشوں میں معلوم ہوا کہ وہاں سیوریج سسٹم ہی نہیں تھا، بارشوں کا پانی گھر کے سامان کو بہا لے گیا۔ یہ سب دیکھ کر کراچی کی آبادی نے پرانے شہر میں ہی رہنے کو ترجیح دی کیونکہ روز بروز بڑھتی مہنگائی نے لوگوں کے ہوش اڑا دیے۔

کراچی کو جو تھانوں کا پابند کیا گیا اس کا حل دوسرے شہر سے آنے والوں نے یہ نکالا کہ انھوں نے کرائے پر مکان لینا ہی چھوڑ دیے اور منہ مانگے داموں پر پورشن، فلیٹ اور مکان خریدے یعنی جس غیر قانونی پیسے کو روکنے کے لیے تدبیر کی گئی وہی تدبیر کراچی کے شہریوں کے لیے گلے میں ہڈی بن کر پھنس گئی۔ اس فیصلے کی وجہ سے ایک معمولی ایجنٹ جسے مڈل مین کہتے تھے وہ وزیر بن گیا اور مالک مکان کو اس نے بادشاہ بنا دیا۔ مالک مکان اور ایجنٹ کا کیونکہ پولیس سے ڈائریکٹ تعلق بن گیا اب جو کرائے پر تھے ان کی حالت اور بھی خراب ہو گئی کیونکہ اگر وہ کچھ کہتے ہے تو ان کو سیدھا پولیس سے ہراسانی کا ڈر رہتا ہے۔ مالک مکان، ایجنٹ کے ساتھ مل کر اس کے خلاف ایسا محاذ تیار کرتا ہے کہ اسے پورے شہر میں کہیں جگہ نہ ملے۔

2015 سے اب تک کراچی میں نہ پورشن مافیا نے اپنا کام بند کیا اور نہ ہی تجاوزات کا خاتمہ ہوا بلکہ اس فیصلے کی وجہ سے جو مشکوک لوگ دوسرے شہروں سے آتے تھے اور چلے جاتے تھے اب انھوں نے مستقل رہائش اختیار کرلی ہے۔ جس کی وجہ سے مقامی آبادی کے لیے مشکلات اور بھی بڑھ گئی۔ پانی، بجلی اور گیس کی چوری بڑھ گئی ہے۔ ہر مالک مکان نے کم سے کم دو فلور کرائے پر چڑھائے ہوئے ہیں تو وہ بھی ایجنٹ کے ساتھ مل کر پورشن کی خریدوفروخت کر رہا ہے اور من مانے کرائے مانگ رہا ہے۔ بجلی چوری کرنا مالک مکان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے کیونکہ کے الیکٹرک میں بھی اکثر کی جان پہچان ہے۔ دوسرے کرائے داروں کی کوئی پرائیویسی ہی نہیں رہی ان کی ہر بات مالک مکان جب چاہے سیکیورٹی کے نام پر کسی سے بھی کہہ سکتا ہے یعنی جو معاملات دہشت گردوں کے لیے ہونے چاہیے تھے وہ عام شہریوں پر لاگو کیے گئے اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ عام آدمی جو صبح سے شام تک کام کر کے آ رہا ہے اس کے مسائل ہے وہ اپنے گھر والوں سے بھی نہیں کہہ سکتا کہ پتا نہیں کون سنے اور کس کو بتائے گا۔

اس مسئلے کی وجہ سے مالک مکانوں نے باقاعدہ کرائے داروں کو بلیک میل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب آپ کراچی میں گلبرگ سے شروع کرے اور کراچی کے دونوں کناروں تک چلے جائیں کوئی بھی مکان مالک گھر کی مرمت نہیں کر رہا ہے جو ایک دفعہ مکان بنا لیتا ہے اسی کو بار بار کرائے پر چڑھا رہا ہے جبکہ کرونا کی وبا نے پاکستان کو بھی متاثر کیا۔ اب مالک مکان پانی کا بھی کوئی انتظام نہیں کر رہا ہے۔ نلکوں میں پانی آتا نہیں اور بورنگ کا لاکھوں روپے بھی کرایہ دار سے نکلوائے جا رہے ہیں۔

وزیر خارجہ تو یہ کہہ کر پرسکون ہو گئے کہ میں بھی پانی خرید کر استعمال کرتا ہوں لیکن کوئی ان سے پوچھے جن کے پاس دو وقت کا کھانا مشکل ہو رہا ہے وہ کیسے پانی کا بوجھ برداشت کرے۔ ہر سال بارش ہوتی ہے اور ہر سال خوش خبری آتی ہے کہ کراچی کے ڈیموں میں پانی بھر گیا ہے اور پورے سال کی ضرورت کے لیے کافی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ پانی صرف رہائشی آبادی کے لیے ہی نہیں انڈسٹری کے لیے بھی بہت ہے اب اس بات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کا پانی شہر سے باہر بھی فروخت ہو رہا ہے۔

حکومت سے اب کراچی کے شہریوں کو پوچھنا چاہیے کہ اب کب تک کراچی پر برائے فروخت کا بورڈ لگا کر رکھے گے۔ کراچی والوں نے اب ذاتی مکان کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے لیکن کرائے کا گھر بغیر کسی قسم کی بلیک میلنگ کے لینا اور اس میں آزادی سے رہنا ان کا حق ہے۔ 2015 کی جو پالیسی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت نے کراچی پر لاگو کی تھی اب اسے ختم کرے۔ جب ہم ان گزرے برسوں کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کراچی سے زیادہ خطرناک حالات ملک کے دوسرے حصوں میں رہے ہیں لیکن ان حصوں کے شہریوں کو ہراسانی اور بلیک میلنگ کا سامنا ایسا نہیں کرنا پڑا جیسے کراچی کے شہریوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments