عہد ساز فرنچ ہدایت کار گوداغ (GODARD)


ژاں لک گوداغ ( JEAN۔ LUC GODARD ) ستمبر 2022 میں اس جہاں سے رخصت ہوا تو اس نے عالمی سینما کے شائقین کو 92 سال کی عمر میں الوداع کہا۔ فرنچ فلموں کے ہدایت کار سے پاکستان میں کچھ زیادہ لوگوں کو دلچسپی نہیں ہوگی کیوں کہ ہمارے پاس گپ شپ کرنے کو بہت کچھ ہے جرائم ہیں، سیاست ہے، ججوں اور جنرلوں کے اوصاف حمیدہ ہیں اب ایسے میں گوداغ کے بارے میں کون سوچے۔ شاید ان ہی وجوہ کی بنا پر ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ گوداغ نے فلم سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بہت کچھ سکھایا اور زندگی کے مسائل کو ایک نئے رخ سے دیکھنے کا سلیقہ دیا۔

گوداغ نے 1930 میں اپنی آنکھیں کھولیں اور 1940 اور 1950 کے عشروں میں اپنی جوانی گزاری۔ وہ دور دوسری عالمی جنگ کی تباہی کے بعد کا زمانہ تھا اور سرد جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس دور کے حالات و واقعات گوداغ کے مشاہدے سے گزرے اور اس نے پردہ سیمیں پر تھرکتی تصویروں اور فلموں کا گہرا اثر لیا۔ یورپ کے دیگر ممالک کی طرح فرانس میں بھی فن و ثقافت ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہے تھے جن پر مباحثے جاری تھے۔ گوداغ ان مباحثوں میں بھر پور شرکت کرتا اور بیسویں صدی کے وسط میں بننے والی فلموں پر گہری نظر رکھتا ہوا خود ایک بڑا فن کار بن گیا جس نے فن کی بلندیاں بھی چھوئیں اور مالی ناکامیاں بھی بھگتیں۔

گوداغ کو سمجھنے کے لیے ہمیں آئزن سٹائن اور آورسن ویلز جیسے ہدایت کاروں کے فن کو دیکھنا ہو گا جنہوں نے گوداغ پر گہرا اثر ڈالا۔ آئزن سٹائن وہ عظیم روسی فلم ہدایت کار تھا جس نے 1925 تک اپنا مونتاژ کا نظریہ متعارف کرا دیا تھا جب کہ وہ ابھی تیس سال کا بھی نہیں تھا۔ اس کی شاہکار فلمیں ”ہڑ تال“ جنگی جہاز پاتیوم کین ”اور“ اکتوبر ”فلمی دنیا میں دھوم مچا چکی تھیں اورسن ویلز چھبیس سال کی عمر تک فلم“ سٹیزن کین ”میں ہدایت کاری اور اداکاری دونوں بڑے شان دار طریقے سے کر کے فلمی دنیا کی ایک عظیم ترین تخلیق پیش کرچکا تھا۔

1950 کے عشرے کے اواخر تک گوداغ بھی تیس سال کا ہونے والا تھا مگر اس نے اب تک کوئی شاہکار پیش نہیں کیا تھا۔ اب اسے ایک موقع کی تلاش تھی جس کے ذریعے وہ فلمی دنیا میں ایک دھماکہ خیز طریقے سے داخل ہو سکے۔

آئزن سٹائن اور اورسن ویلز فلم بندی اور تدوین کے کئی معرکے سر کر چکے تھے جو گوداغ کے لیے مشعل راہ تھے۔ اگر آئزن سٹائن پرولتاری حقیقت پسندی کو استعمال کرتے ہوئے فلمیں تخلیق کرچکا تھا تو اورسن ویلز اس سرمایہ دارانہ ذہنیت کا پردہ چاک کر رہا تھا جو جرائم کی حدوں کو چھو رہی تھی۔

1925 سے 1955 تک دنیائے فن نے تیزی سے ترقی کی تھی۔ سوویت سوشلسٹ حقیقت نگاری اور ہٹلر کی پروپیگنڈا فلموں مثلاً ”عزم کی جیت“ ”TRIUMPH OF THE Will“ سے لے کر امریکی فلم نوار (NOIR) جس میں ہمفری بوگارٹ جیسے اداکار رنگ بھر رہے تھے سب فلمی دنیا کو چار چاند لگا رہے تھے۔

اٹلی میں نئے حقیقت پسند (NEOREALIST) سینما میں وٹوری دی سیکا ”بوٹ پالش“ اور ”سائیکل چور“ جیسی فلمیں بنا رہے تھے اور بھارت میں ستیہ جیت رے بنگالی سینما کی ”آپو“ سلسلے کی تین فلمیں بنا چکے تھے۔ ان سب نے گوداغ کو بہت متاثر کیا جو اب فلمی دنیا کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ 1950 کے عشرے کے اواخر تک فرنچ سینما فنی معیار کے مطابق کچھ پیچھے رہ گیا تھا مگر فلمی نقادوں کا جادو وہاں سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ گو کہ ژاں کوکٹو ( JEAN COC TEAO ) اور رابرٹ بریسوں (BRESSON) کچھ اچھی فلمیں بنا چکے تھے جن میں ” بیوٹی اور بیسٹ“ ( BEAUTY AND THE BEAST ) 1946 میں، اورفیئس ( ORPHEOS ) 1950 میں، ایک آدمی کا فرار (A MAN ESCAPED) 1956 میں اور ”جیب کترا“ نامی فلم 1959 میں منظر عام پر آ چکی تھی۔

لیکن اس وقت تک یہ ہدایت کار پچاس سال سے اوپر ہوچکے تھے اور فلمی نقاد اب فرنچ سینما میں انقلابی تبدیلیوں کی داغ بیل ڈال رہے تھے۔ اس وقت کے فرانس میں غالباً سب سے موثر فلم نقاد آندرے بازاں (BAZIN) تھا جو مشہور فلمی رسالے (CAHICRS DU CINEMA ) یا ”سینما پر نوٹ بک“ کے بانیوں میں شامل تھا۔ بازاں فلم کے شعبے میں حقیقت نگاری کا بڑا پرچارک تھا اور اس کے نزدیک حقیقت نگاری سینما کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اپنے موضوع کو بہت زیادہ سچائی کے ساتھ اور لگی لپٹی رکھے بغیر پیش کیا جانا چاہیے اور اس میں کسی قسم کی بناوٹ یا تصنع کی آمیزش نہیں کرنی چاہیے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ غیر معمولی فن کارانہ صلاحیتیں رکھنے والے لوگ جلدی میں ہوتے ہیں۔

آئزن سٹائن صرف پچاس برس کی عمر میں 1948 کو گزر گیا، بازاں صرف چالیس کا ہو کر 1958 میں وفات پا گیا۔ اس کے بعد ایرک روہمر (ERIK ROHMER) فرنچ فلمی دنیا میں نمودار ہوا اور بازاں کے رسالے کی ادارت سنبھال لی۔ اس نے اپنے نوجوان دوستوں مثلاً گوداغ اور تروفو کی حوصلہ افزائی کی کی وہ فلموں کے بارے میں لکھنے کے ساتھ فلموں کے منظر نامے بھی تخلیق کریں اور ہدایت کاری و فلم سازی میں بھی اپنے جوہر آزمائیں۔ پھر اچانک پانچ سات ایسی شخصیات نمودار ہوئیں جو جوان بھی تھیں اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال بھی۔ انہوں نے پیرس کی فلمی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

ان میں کلود شیب غول (CLAUD CHABROL) ، گوداغ، ایلین رینے (ALAIN RENAIS) ، ژاک ری ویت (JAEQUE RIVETE) ، ایرک روہمر، تروفو اور ایک بہت باصلاحیت خاتون ہدایت کار ایگنس واردا (AGNES WARDA) اور اس کا فرنچ شوہر ژاک دیمی (JAEQUE DEMY)۔ یہ آخری دو ہدایت کار خواتین کے مسائل پر خاص توجہ دیتے تھے۔ اس گروہ کے تمام لوگ بڑے دانش ور تھے اور نت نئے خیالات کو عمل میں لانے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے۔ ان ہی کے ذریعے فرنچ سنیما میں نئی لہر (NEW WAVE) آئی۔ اس طرح 1960 کا عشرہ فرنچ سنیما کے لیے ایک سنہرا دور ثابت ہوا اس کا سہرا ان ہی باغیوں کے سر جاتا ہے۔

گوداغ نے بھی اپنے دوستوں اور رفقائے کار کی طرح سنیما کے ایک دیوانے کی طرح اپنے کام کا آغاز کیا اس لیے سب سے پہلا سبق ہم جو گوداغ سے سیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی شعبے میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس سے آپ کو بے حد لگاؤ ہونا چاہیے اور یہ لگن آپ کی پوری زندگی پر محیط ہونی چاہیے۔ گوداغ خود اس بات کا اظہار کرتا تھا کہ اس نے اوائل عمری میں ہی سینکڑوں فلمیں دیکھ ڈالی تھیں اور اس عمل میں وہ اپنے پورے دل و جان سے شریک ہوتا تھا اور ہر تفصیل پر نظر رکھتا تھا۔ اس طرح باریک بنی کے ساتھ وہ فلموں پر تنقیدی مضامین لکھنے کے قابل ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دس سال میں اس نے فلمی دنیا کی ہر باریکی کو پرکھا اور جانچا اور ان پر تنقیدی انداز میں سوچا اور لکھا۔

گوداغ اور اس کے دوستوں سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ جب تک ہم اپنے اندر خود اپنے فکر و فن کی طرح نہیں ڈالیں گے یہ بات ناممکن رہے گی کہ ہم کسی اور کے فن پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کی خامیاں یا خوبیاں اجاگر کرسکیں۔ بہت وسیع مطالعے اور مشاہدے کے بعد ہی ہم اس قابل ہوسکتے ہیں کہ معاشرے پر درست نظر ڈال سکیں جو متاثر کن بھی ہو اور جدت پسند بھی۔ 1960 تک گوداغ کے دوست واردا، شیب غول (CHABROL) ، تغوفو (TRUFFAUT 8 ) فلموں کی تخلیقی دنیا میں براہ راست قدم رکھ چکے تھے جس نے فرنچ سنیما کی نئی لہر یا موج کا آغاز کر دیا تھا۔

اب گوداغ بھی پر تول رہا تھا اور جلد ہی اس نے ”BREATHLESS“ نامی فلم کا آغاز کیا جس کا اردو ترجمہ ”بے دم“ یا ”بے نفس“ کے طور پر کیا جاسکتا ہے۔ اس فلم میں اس نے فلم کی بہت سی روایات سے ہٹ کر کام کیا اور ہمیں سکھایا کہ وہ کچھ سننا، پڑھنا اور دیکھنا چاہیے جو جو دنیا کے روایتی سننے، پڑھنے اور دیکھنے سے مختلف ہو۔ جو سب کر رہے ہیں وہ ہی کرنا کوئی کمال نہیں۔ گوداغ سوویت حقیقت پسندی اور اطالوی نئی حقیقت پسندی سے بھی مختلف دیکھ اور سوچ رہا تھا۔

ان سے ہم نے سکھا کہ زندگی کی حقیقی عکاسی سے زیادہ اہم اس کی تنقیدی عکاسی ہے۔ تنقیدی زاویہ نگاہ حقیقی زاویے سے زیادہ موثر ہو سکتا ہے۔ حقیقت کی عکاسی کی طرف اس کا جھکاؤ آئزن سٹائن، ڈی سیکا، ستیہ جیت رے سے خاص مختلف تھا۔ گوداغ کی فلم سازی اور ہدایت کاری صرف حقیقت پیش کرنے تک محدود نہیں تھی بل کہ وہ لوگوں میں تنقیدی صلاحیت بھی ابھارنا چاہتا تھا اور یہ سب اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ ہی سیکھا تھا۔ یہاں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ سماج کو ایسے تنقیدی مفکرین اور تخلیقی ہدایت کاروں کی ضرورت ہوتی ہے جو معاشرے کو سوچنے پر مجبور کریں اور سماج پر اثر ڈالیں۔ اگر آج کے پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں ایسے لوگ نظر تو آتے ہیں مگر انہیں نا انصافیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے اور خود انہیں اپنی جان بچانی مشکل ہوجاتی ہے۔

اگر کوئی سماج اپنے نوجوان ترقی پسند مفکروں اور کارکنوں کو تنگ نظر انتہا پسندوں سے بچانے میں کامیاب رہے گا تو امید بھی باقی رہے گی۔ یہ تنقیدی اور تخلیقی ذہن علم جمع کرتے ہیں اور اسے دیگر افراد کے لیے قابل فہم بناتے ہیں جس سے نوجوان ذہنوں کی پیاس بجھتی ہے۔ گوداغ اور اس کے دوستوں نے بہت کم بجٹ والی فلموں کے ذریعے بڑے کارنامے انجام دیے۔ انہوں نے فلم بندی کے روایتی قواعد و ضوابط توڑے جو ان کے پیش رو قائم کر گئے تھے۔ اس طرح گوداغ اور اس کے ساتھیوں نے نہ صرف فرنچ سنیما بل کہ دنیا بھر میں فلم سازی کو متاثر کیا۔ غالباً گوداغ سے ملنے والا آخری سبق یہ ہے کہ روایات کو شک و شبے کی نظر سے دیکھے بغیر معاشرے کو تبدیل کرنے کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔

پاکستان جیسے معاشرے سوال اٹھانے والوں کو زندہ رہنے کا حق دینے پر تیار نہیں ہیں اور اگر زندہ رہنے دیتے ہیں تو ان پر قدغنیں بہت زیادہ ہیں ترقی پسند اور روشن خیال لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس عدم برداشت اور رواداری کی کمی سے معاشرے کے نوجوان تنگ نظر اور انتہا پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر ہم غلطیاں دہراتے رہیں گے نیا راستہ دکھانے والوں کو مارتے رہیں گے تو ہم پاتال کی طرف ہی جاتے رہیں گے۔ اور بدقسمتی سے یہ ہی ہو رہا ہے اور ہمارے ریاستی ادارے بھی یہ ہی کرتے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments