نکٹے کی ناک کٹی سوا ہاتھ اور بڑھی


اللہ بخشے ہماری والدہ صاحبہ ایک نہایت باشعور اور نستعلیق خاتون تھیں۔ جنہوں نے آزادی سے بہت پہلے جب مسلمان گھرانوں میں لڑکیوں کی تعلیم پر شدید معاشرتی اور مذہبی پابندیاں تھیں نہ صرف باضابطہ تعلیم حاصل کی بلکہ قیام پاکستان کے سلسلے میں جاری سیاسی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ والدہ صاحبہ ایک قادر الکلام شاعرہ اور صاحب کتاب بھی تھیں۔ آپ کا خاصہ اردو زبان پر مکمل دسترس تھا چنانچہ وہ اپنی روزمرہ کی بات چیت میں اردو محاوروں کا برجستہ استعمال بھی کرتی تھیں۔

ملک میں جاری موجودہ صورت حال میں مجھے والدہ صاحبہ کی جانب سے ادا کردہ ایک مشہور محاورہ یعنی نکٹے کی ناک کٹی سوا ہاتھ اور بڑھی نہایت شدت سے یاد آ رہا ہے۔ قارئین کرام اس محاورے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ جب ایک بے ضمیر شخص مسلمہ اصولوں اور روایات سے ہٹ کر کوئی کام کرتا ہے تو بجائے شرمسار ہونے کے وہ اس میں انتہائی فخر اور عزت محسوس کرتا ہے۔

والدہ صاحبہ کی طرف سے ادا کردہ اس محاورے کی عملی تصویر آج کل ملک میں صبح و شام پی ٹی آئی کے منحرف رہنماؤں کی پریس کانفرنسز ہیں جس میں وہ اپنی جماعتی وفاداریوں کو تبدیل کرنے کے اقدام کو انتہائی بھونڈے اور بودے دلائل سے حق بجانب ثابت کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ان رہنماؤں میں فواد چوہدری، عمران اسماعیل فیاض الحسن چوہان، ڈاکٹر مسعود راس، کرنل (ر) ہاشم ڈوگر اور ابرار الحق جیسے رہنما شامل ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں وزارتوں، گورنری اور اعلی سرکاری عہدوں کے مزے لوٹے ہیں۔ لیکن وائے افسوس کہ مشکل کے اس دور میں انہوں نے اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے میں کوئی وقت نہیں لیا۔

اس تمام قضیہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان حضرات نے پی ٹی آئی چھوڑنے کے بعد ایک نئی کنگز پارٹی بنانے کے لیے کام شروع کر دیا ہے اور آج کل ٹیلی ویژن سکرین پر اپنے اس انتہائی قابل مذمت اور قبیح فعل کا انتہائی ڈھٹائی سے دفاع کرتے نظر آرہے ہیں۔ قارئین کرام یہ تمام تر مناظر ہم سب کے لئے نئے نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے ناک کٹنے اور سوا ہاتھ ں ڑھنے کا لامتناہی سلسلہ قیام پاکستان کے فوراً بعد شروع ہو گیا تھا جب وہ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں جو کہ 14 اگست 1947 کے دن تک قیام پاکستان کی شدید مخالف اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو کافر اعظم کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتی تھیں نے نا صرف مسلم لیگ کو ہائی جیک کر لیا بلکہ طاقت کے حقیقی مراکز کی بھرپور سرپرستی سے اپنے آپ کو ملک اور اسلام کا ٹھیکیدار ثابت کرنا شروع کر دیا جو کہ ملک و قوم کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوا اور ملک پاکستان کو بالآخر اپنے مشرقی بازو سے ہاتھ دھونا پڑ گیا۔

ناک کٹنے اور سوا ہاتھ بڑھنے کے سلسلے کو پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت اور ان کے تمام کرم فرماؤں کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے ایک نئی جہت اور معنویت حاصل ہوئی ہے۔ یہ بہت دور کی بات نہیں جب اس حکومت کے اکابرین ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑ نے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کی بازیابی کا صبح و شام ڈھنڈورا پیٹتے نظر آتے تھے لیکن آج کل ناک کٹنے اور سوا ہاتھ بڑھنے کے عین مطابق اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ایک دوسرے کے لئے داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے نظر آتے ہیں۔

یہ تمام تر عناصر گزشتہ کئی سالوں سے ملک کے اہم ترین اور حساس اداروں کے لیے جن ہتک آمیز الفاظ اور جذبات کا اظہار کرتے نظر آتے تھے وہ کسی ذی شعور شخص سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ محض ایک سیاسی رہنما اور اس کی جماعت کی بیخ کنی کے لئے آج کل یہ تمام عناصر اور ان کے کرم فرما شیر و شکر ہیں۔

بدقسمتی سے طاقت کے حقیقی مرکز کی مکمل سرپرستی سے ان تمام تر عناصر کا حوصلہ یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ وہ آئین شکنی کے سنگین اقدام کے علاوہ اعلی عدلیہ کے فیصلوں کی رو گردانی کرنے کے بھی مرتکب ہو چکے ہیں۔ آج کل سڑکوں، بازاروں اور جیل کی آہنی دیواروں کے پیچھے انسانی حقوق اور خواتین کی بے حرمتی کے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں۔ جو کہ نہ صرف ملک کے باشعور طبقے بلکہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور حکومتوں کی جانب سے کی جانے والی شدید تنقید اور مذمت کا باعث بن رہے ہیں۔ جس سے ملک کی رہی سہی ساکھ بھی شدید خطرے میں ہے۔

قارئین کرام یہاں یہ بات اجاگر کرنا انتہائی اہم ہے کہ ہمارا پڑوسی ملک اور دیگر دشمنان پاکستان ان حالات میں خوشی کے شادیانے بجاتے نظر آتے ہیں۔ جس کا عملی مظاہرہ ہندوستان کے وزیر خارجہ کا وہ ہتک آمیز رویہ تھا جو انہوں نے پاکستان کے وزیر خارجہ کے ساتھ گوا میں روا رکھا تھا۔

صاحب مضمون نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ والدہ صاحبہ کی طرف سے استعمال کردہ محاورے نکٹے کی ناک کٹی سوا ہاتھ اور بڑھی کا عملی مظاہرہ اسے آزادی کے 76 سال بعد بھی دیکھنا پڑے گا اور نہ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری و ساری رہے گا۔ جو کہ خاکم بدہن مملکت خداداد کو ایک ناکام ریاست گرداننے والے تمام افراد، بین الاقوامی اداروں اور حکومتوں کی آرا کو مزید تقویت دیتا نظر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments