کیا چنگیز خان صرف کھوپڑیوں کے مینار بناتا تھا؟


ہماری تاریخ میں ایسے کردار بھی ہیں جن سے شاہد مکمل انصاف نہیں کیا گیا۔ جیسے پراپیگنڈہ کی آج بہت زیادہ اہمیت ہے اسی طرح پروپیگنڈا ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہاں اورنگزیب عالمگیر جس نے تمام بھائیوں کو مروا دیا تھا تاریخ میں ٹوپیاں سی کر بادشاہت کرنے والا بادشاہ کے طور پر مشہور ہے۔ سلطان محمود غزنوی جو 30 ہزار بچوں اور عورتوں کو برصغیر میں سے مال غنیمت کے طور پر لے گیا جن کی نیلامی ہوتی رہی۔ تاریخ میں نہایت رحم دل بادشاہ طور پر مشہور ہیں بلکہ ہم پاکستانیوں کا ہیرو بھی ہے۔

مورخین خاص کر مسلمان مورخوں کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ زیادہ تر نے صرف ایک ہاتھ سے تالی بجائی ہے۔ مورخین نے ان لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جو اپنے مذہب یا علاقے کے تھے۔ حجاج بن یوسف اور محمد بن قاسم کے رعایا پر ظلم و ستم کے باوجود بھی ان کا نام عزت اور توقیر کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقی طور پر انصاف تو میر قاسم اور میر جعفر کے ساتھ بھی نہیں کیا گیا۔ اگر آپ اپنے علاقے اور مذہب کے فاتحہ کو تو ہیرو قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرے کسی قوم کے فاتحہ کو ظالم اور حملہ کرنے والا قرار دیتے ہیں تو آپ جانبدار تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔

مہاراجہ اشوک سے لے کر یونانی بادشاہوں، فرانس کے شاہی خاندانوں تک، برطانیہ کے حکمران سے لے کر آئرلینڈ کے بادشاہوں تک، عباسی خلفاء، عثمانی خلفاء، لودھی خاندان، مغل بادشاہ کس نے اپنے بھائیوں کو نہیں مروایا۔ کم از کم چنگیز خان کے دامن پر اپنے بھائیوں اور اپنی قوم کے خون کے چھینٹے نہیں ہیں۔ یہ تاریخ ہے۔ چونکہ چنگیز خان کی قوم کے لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ لہذا چنگیز خان کی تاریخ ہمیں ایغوریوں، چینیوں، ایرانیوں اور آرمینیوں کی تحریروں سے ملتی ہے۔

بدقسمتی سے ان مورخین نے چنگیز خان کی زندگی کا صرف ایک رخ دکھایا ہے۔ چنگیز خان ایک ظالم و جابر حکمران تھا۔ چنگیز خان کھوپڑیوں کے مینار بناتا تھا۔ تاریخی طور پر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ چنگیز خان ظالم و جابر حکمران تھا لیکن کون سا بادشاہ ہے جس نے کوئی علاقہ فتح کیا اور وہاں مفتوح قوم پر ظلم و بربریت کے پہاڑ نہیں توڑے، خواتین کو لونڈیاں اور مردوں کو غلام نہیں بنایا۔ یہ بادشاہوں کی جبلت میں شامل تھا۔

چنگیز خان ایک بہترین سپہ سالار کے ساتھ ساتھ بہترین قانون دان اور مدبر بادشاہ بھی تھا۔ اگر چنگیز خان کا موازنہ نپولین سے کیا جائے جو یورپ کا ایک بہترین سپہ سالار تھا تو نپولین نے ایک فوج کو مصر میں تقدیر کے حوالے کر دیا اور فوج کا دوسرا حصہ روس کے برف زاروں کے حوالے کر دیا۔ چنگیز خان نے اپنی فوج کو کسی بھی جنگ میں بے یارو مددگار نہیں چھوڑا۔ جنگ ختا اس کی واضح مثال ہے۔

نپولین کا خاتمہ واٹرلو کی شکست پر ہوا اور اس کے جیتے جی اس کی سلطنت مٹ گئی۔ اس کا قانون پارہ پارہ ہو گیا۔ اس کی موت سے پہلے اس کے بیٹے محروم الوارث قرار دیے گئے۔ اگر چنگیز خان کا موازنہ مقدونیہ کے سکندر اعظم سے کیا جائے تو سکندر اعظم اور چنگیز خان کی موت کے وقت دونوں کا ستارہ عروج پر تھا۔ سکندر اعظم کے ساتھ ہی اس کی سلطنت ٹوٹ گئی اور اس کے بیٹے کو سلطنت چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ جب کہ چنگیز خان اپنی موت کے وقت آرمینیا سے کوریا تک اور تبت سے سے لے کر دریائے ایتیل تک کے علاقے کا مالک تھا۔ چنگیز خان کا پوتا قبلائی خان آدھی دنیا پر حکمران رہا۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے چنگیز خان کی زندگی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ صحرائے گوبی سۂ 1162 عیسوی چنگیز خان کی پیدائش کا سال خنزیر کا سال بھی کہلاتا ہے۔ چنگیز خان تموچن کے باپ یسوکائی کو جب زہر دیا گیا تھا تو چنگیز خان اس سے پہلے اپنے لیے ایک لڑکی بورتائی پسند کر چکا تھا۔ چنگیز خان کا باپ اپنے قبیلے کا سردار تھا لیکن اس کی موت کے ساتھ ہی جب 13 سالہ چنگیز خان تموچن نے اپنے باپ کی پگڑی سنبھال لی تو قبیلے کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔

گو اس کی ماں ایک عقل مند اور بہادر عورت تھی اس نے لوگوں کی منت سماجت کر کے واپس گلے میں لانے کی کوشش تو بہت کی لیکن لوگوں کو علم تھا کہ ایک کمسن سردار کے ہوتے ہوئے دوسرے قبیلے حملہ ضرور کریں گے۔ اور یہی ہوا مغلوں کے ازلی دشمن ترغا تائی نے کمسن سردار پر حملہ کیا۔ کمسن خانہ بدوش چنگیز خان اپنا علاقہ چھوڑ کر بھاگا۔ شدید بیمار ہوا۔ زخمی ہوا۔ حلق میں تیر لگا۔ قید ہوا دشمن نے مردہ سمجھ کر برف پر چھوڑ دیا۔

چھوٹی عمر میں قالین کے نیچے گڑھا کھود کر مارنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اس سردار نے کبھی بھی دشمن سے رحم کی اپیل نہیں کی۔ ماں کے بار بار کہنے کے باوجود اپنے باپ کے منہ بولے بھائی طغرل خان سے مدد نہیں لی۔ مدد کی درخواست اس وقت کی جب خان خود اپنا نام پیدا کر چکا تھا۔ 17 سال کی عمر میں خان جب قوت حاصل کرچکا تو بور تائی کو لینے گیا اور اس کو اپنی پہلی بیوی بنا کر لایا۔

چنگیز خان کی ماں اولون کو یسوکائی نے مکریت قبیلے سے اغوا کیا تھا۔ انہوں نے چنگیز سے بدلہ لینے کے لیے چنگیز کی بیوی بورتائی کو اغوا کر لیا۔ چنگیز خان نے کچھ دنوں بعد بورتائی کو واپس تو حاصل کر لیا۔ لیکن اسے کبھی یقین نہیں ہوا تھا کہ اس کا پہلا بیٹا اس کے اپنے نطفے میں سے ہے یا اس کے دشمن کا بیٹا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بیٹوں کے درمیان فرق نہیں کیا یہ چنگیز خان کی بڑائی تھی۔ جس سے دنیا ناواقف ہے۔ چنگیز خان نے سۂ 1206 میں خانوں کی مجلس مشاورت، قرولتائی طلب کی جہاں تموچن کو چنگیز خان کا خطاب دیا گیا یعنی سرداروں کا سردار سارے عالم کا شہنشاہ۔

یہیں اسی مجلس میں چنگیز خان نے یاسا یعنی قوانین کا مجموعہ واضح کیا۔ کچھ پرانے قبائلی رسوم اور اپنے وضع کردہ اصولوں کو قوانین کو کا نام دیا۔ یاسا میں چوری اور زنا کو خاص طور پر ناپسند کیا گیا ان کی سزا موت رکھی گئی۔ اسی یاسا میں چنگیز خان نے واضح کیا کہ اگر بیٹا اپنے والدین کی یا چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی نافرمانی کرے، شوہر اپنی بیوی پر اعتبار نہ کرے یا بیوی شوہر کی فرمانبرداری نہ کرے۔ امیر غریبوں کی مدد نہ کریں یا کم درجے کے لوگ سرداروں کی عزت نہ کریں تو انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔

مغل نشہ بہت زیادہ کرتے تھے۔ چنگیز خان نے یاسا قوانین کے تحت نشے پر پابندی لگائی اور فیصلہ کیا گیا کہ مہینے میں تین دفعہ نشہ کیا جا سکتا ہے۔ چنگیز خان نے جاسوسی، اغلام، جھوٹی گواہی اور کالے جادو کی بڑی سخت سزائیں تجویز کی۔ یاسا میں مغلوں پر آپس میں لڑائی جھگڑے کو حرام قرار دیا گیا۔ مطلب چنگیز خان نے ایک آئین واضح کیا۔ چنگیز خان کا اصول تھا غداروں کو قتل کر دیتا تھا لیکن جو اپنے آقا کے وفادار رہتے تھے چنگیز خان ان کو اپنے ساتھ بھی ملاتا، عزت اور مرتبہ بھی دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا وفادار کی قدر و قیمت بہت زیادہ ہے۔

چنگیز خان نے چین فتح کیا تو وہاں پر غلام اور عورتوں کی درجہ بندی تھی۔ چنگیز خان نے اس سے سخت نفرت کا اظہار کیا۔ مطلب کہا جا سکتا ہے کہ چنگیز خان کو غلاموں، عورتوں کی خرید و فروخت ناپسند تھی۔ چنگیز خان جب ایک شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تو شہر میں سفیروں کا محلہ تھا، اس کے قریب ہی پجاریوں کی بستی تھی۔ پتھروں کی مسجدوں کے بغل میں پرانے بدھ مت کے مندر اور نسطوری عیسائیوں کے چھوٹے چھوٹے لکڑی کے بنے ہوئے گرجے تھے۔

ہر شخص کو اجازت دی گئی وہ جس طرح چاہے عبادت کرے لیکن شرط تھی وہ یاسا کے قوانین کی پابندی کرے۔ چنگیز خان اپنے کمانڈروں کو اکثر کہا کرتا تھا کہ فتح کی وجہ سے کبھی بھی مغرور نہ ہونا۔ خان کبھی بھی اپنی فتوحات کو آسمانی طاقت نہیں سمجھتا تھا۔ وہ کہتا تھا یہ فتوحات میرے تدبر، سیاست، حکمت، فراست، سمجھ بوجھ اور جنگی صلاحیت کی مرہون منت ہیں۔ چنگیز خان نے اپنی فوجوں کے درمیان روابط قائم رکھنے کے لیے پرانے قافلے کے رستوں کو باہم مربوط کیا۔

ہر پچیس میل کے فاصلے پر ایک سرائے تعمیر کرائی۔ جس میں ہر وقت تازہ دم گھوڑے، آراستہ بستروں اور بیش قیمت ریشمی پردوں سے بنا کمرے تیار ہوتے۔ ان سراؤں میں خاقان کے قاصدوں کے لئے تمام ضروریات زندگی فراہم کی جاتیں تھیں۔ چنگیز خان جو بھی علاقہ فتح کرتا ان میں سے زیادہ تر کو لوٹ مار کے بعد منظم بھی کرتا تھا۔ وہاں دروغہ تعینات کرتا۔ اس کو چنگیز خان کی مہر دی جاتی جو وہاں یاسا کے قوانین کی پابندی کرواتا۔

ایک فارسی مورخ لکھتا ہے کہ آپ نے کبھی سنا ہے کہ مشرق کی سر زمین سے انسانوں کے گروہ نے خروج کیا اور وہ بحیرہ خزر کے دروں تک روئے زمین تک درانہ گزرتا چلا گیا اور راستہ بھر انسانوں کو نیست و نابود کرتا چلا گیا۔ ہر جگہ موت کے بیچ وہ بوتا گیا۔ اور پھر زندہ اور توانا مال غنیمت کے ساتھ اپنے مالک کے پاس واپس لوٹ آیا اور یہ سارا واقعات صرف دو سال کے اندر پیش آئے ہوں۔ چنگیز خان کی وفات کے بعد بھی اس کی اولاد نے فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔

خان کی اولاد نے اپنے علاقوں سے لے کر یورپ، جاپان، روس اور برصغیر پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کی۔ خان کے جانشینوں نے یورپ فتح کیا۔ چین اور جنوبی ایران میں جنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ پولینڈ کا شاہ بولسلاس اور ہنگری کا بادشاہ بیلا مغلوں کے ہاتھوں شکست کھا کر جنگ کے میدانوں سے بھاگے۔ سائی لیسیا کا ڈیوک ہنری لیگ نٹز میں مغلوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ روس کے گرینڈڈیوک جارج بھی مغلوں سے محفوظ نہ رہا۔ سۂ 1259 تا سۂ 1294 مغلوں کا بہترین عہد سمجھا جاتا ہے۔ سۂ 1368 تک مغل چین پر حکمران رہے

چنگیز خان کی قبر صحرائے گوبی کے قریب ندیوں کے پاس جنگل میں بنائی گئی تھی۔ جس کا نشان جان بوجھ کر مغلوں نے مٹا دیا تھا۔ چنگیز خان کی پیاری بیوی بورتائی کی قبر کا نشان بھی کسی کو معلوم نہیں۔ میرے نزدیک چنگیز خان کے چہرے پر بدنما داغ کھوپڑیوں کے مینار نہیں بلکہ وہ علمی ذخیرے ہیں جنہیں جلایا گیا تھا اور جن کو جلانے کا تسلسل چنگیز خان کی اولاد نے بھی جاری رکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments