عالمی سیاست میں چینی سفارتکاری


رواں برس ہے اوائل میں چین نے اپنی روایتی خاموش سفارتکاری کو بروئے کار لاتے ہوئے سعودی عرب اور ایران کے مابین ایک تاریخی دوستانہ معاہدہ کروا کر دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اسی طرح کی صلح جو کاروائی اب دیگر ممالک میں جاری ہے جس کے خوشگوار اثرات مرتب ہونے کے امکانات روشن تر ہوتے جا رہے ہیں۔ دراصل یہ چیز واضح کرتی ہے کہ بڑے ملک ہونے کا مطلب ہی امن برائے بقائے باہمی ہوتا ہے نہ کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما کر کے اپنا گولہ و بارود بیچنا اور لمبا منافع کمانا ہو جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ قابل ستائش بات اس سارے عمل کے دوران برتی جانے والی احتیاط اور رازداری ہے جس نے امریکیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہمیشہ باخبر رہنے والی امریکی حکومت اس پیشرفت سے سٹپٹا کے رہ گئی۔ چینی سفارتکاری کا جادو سر چڑھ کے بولا ہے جو اس کی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت اور اثر و رسوخ کا مظہر ہے۔

دراصل چین کا ایک بہت عمیق پلان ہے جس کے تحت وہ نئی تجارتی منڈیوں ہے لئے سرگرداں ہے اور چینی روڈ اور بیلٹ منصوبے کے لئے کوشاں ہے اسی وجہ سے وہ ایشیائی اور افریقی ممالک میں طویل سڑکیں تعمیر کر رہا ہے۔ گوادر تک رسائی کا مطلب ہے کہ وہ گرم پانیوں تک اب آرام سے پہنچ جائے گا جس سے اس کی تجارت کو انتہائی آسان رسائی ہوگی اور مشرق وسطیٰ و افریقی ممالک اب ایک قسم کے اس کے نئے ہمسائے بن جائیں گے۔ ادھر افغانستان میں امریکی و ناٹو افواج کے انخلاء کے بعد تو گویا چین کی لاٹری نکل آئی اور فوراً اس کو پر کرنے کے لئے انہوں نے طالبان حکومت کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا اور انہیں یقین دہانیاں کرائی ہیں کہ نہ صرف سی پیک میں انہی شامل کیا جائے گا بلکہ اس کے علاوہ جو بھی مالی و معاشی مشکلات ہیں ان کی نگہبانی بھی کی جائے گی۔

ایران کے ساتھ بھی گہرے تعلقات ہیں اور دونوں ممالک میں خاصے وسیع پیمانے پر کاروباری تعلقات قائم ہیں چین کی تیل کی ضروریات کو ایران بخوبی پورا کر رہا ہے، ایران کے ساتھ تجارت کا حجم اس وقت چار کھرب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ نیز سعودی عرب کا بھی تیل خریدنے والا سب بڑا خریدار بھی چین ہے اور بحیرہ عرب میں امن و سلامتی کا تقاضا ہے کہ ادھر امن کی صورت برقرار رہے جس سے بغیر کسی ڈر و خوف کے جہازوں کی آمدو رفت برقرار رہے۔

انگولہ، سری لنکا اور پاکستان میں سب سے بڑی سرمایہ کاری اس وقت اسی سلسلے کو دوام بخشنے کے لئے ہی کی جا رہی ہے۔ چین کا اس وقت کوئی تجارتی مدمقابل نظر نہیں آتا۔ اس وجہ سے بے شمار نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں جس وجہ سے اب نوجوانوں میں خاصا جوش و خروش نظر آتا ہے اس وقت چین کے ہر گھر کی اوسط آمدن لگ بھگ 400 ٪ تک بڑھ چکی ہے۔ صدر چی جنپنگ چوتھی مرتبہ چینی عہدۂ صدارت پہ متمکن ہوئے ہیں انہوں نے غیر ملکی کاروباری کمپنیوں کے اوپر جو سخت رویہ اپنایا ہے اس سے ان کی اپنی عوام خاصی بداعتمادی ابھرنا شروع ہو گئی ہے کیونکہ وہ صرف چینی کمپنیوں کو ہی کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔

یورپی ممالک کچھ تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔ یوکرائن پہ حالیہ روسی لشکر کشی سے یورپی ممالک چین کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال بھی رکھنے کے حق میں ہیں لیکن امریکی ناراضگی کا بھی انہیں احتمال ہے جو ہمیشہ سے چین میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف برسر پیکار رہا ہے۔ یوغر کے مسلمانوں کے حقوق سے لے کر تائیوان کے شہری حقوق تک ایک طویل عدم اعتماد کی شکایت امریکیوں کو رہی ہے جو باہمی عدم اعتماد کی بنیادی وجہ ہے۔ چین تائیوان کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے جبکہ امریکہ اسے ایک آزاد و خود مختار ملک مانتا ہے اسی وجہ سے دنیا انگشت بدنداں ہے کہ کسی بھی دونوں بڑے ممالک کے درمیان خوفناک فوجی تصادم ممکن ہو سکتا ہے جس سے پوری دنیا میں امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

حالیہ جی۔ 7 کانفرنس میں یہی اہم نکتہ تھا کہ ایسی المناک صورتحال میں یہ ممالک کس طرح سے اس صورتحال سے نبٹنے کی تدابیر کریں گے۔ جس سے تجارتی و سفارتی تعلقات میں کم ازکم نقصان ہو کیونکہ اگر کچھ ایسا بڑا نقصان ہوا تو پھر دنیا کئی دہائیاں پیچھے چلی جائے گی اور اس سے نکلنے میں مزید کچھ صدیاں درکار ہوں گی۔ امریکی و چینی برائے راست ٹکراؤ قرب قیامت کی نشانی بھی ہو سکتی ہے۔ ان ممالک کی خواہش اور کوشش ہے کہ روس کو یوکرائن میں واضح شکست ہو جائے تاکہ دیگر ممالک اور بڑے قائدین کو یہ سبق حاصل ہو جائے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور اس اگلے سو سال تک کوئی جنگ کا سوچے بھی نہیں۔

ان ممالک کی خواہش اور جستجو ہے کہ ہم ایسے قوانین لاگو کر دیں۔ اس وقت امریکہ اور چین کے مابین لگ بھگ 700 ارب ڈالر سالانہ ہو رہی ہے یہ ایک بہت بڑی رقم ہے، اس کاروبار میں ہزارہا لوگ منسلک ہیں اور باہم تعلقات اور دنیا ساری کا فائدہ اسی میں ہے کہ ان کے درمیان کوئی برائے راست کوئی محاذ آرائی نہ ہو۔ امریکی سابقہ وزیر خارجہ جان کیری کو ایک اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ میتھین اور کوئلے کے استعمال کو کم کرنے اور دھیرے دھیرے روکنے کے اقدامات کے حصول کے لئے باہمی مذاکرات کریں گے جو دنیا بھر کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ اور چین کو بھی عالمی قائدانہ کردار ادا کرنے سے پہلے اپنے علاقائی سطح کے کئی ایک مسائل سے بھی کامیاب ہونا لازم ہے مثلا تبت، تائیوان، زنکیانگ، ہانگ کانگ وغیرہ وغیرہ۔ کشمیر کا مسئلہ ٔ بھی ہنوز تصفیہ طلب ہے اس میں دنیا کو بالعموم اور چین کو بالخصوص دلچسپی لینا ہوگی تاکہ دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments