کیا ماضی کو دیکھنا ممکن ہے؟


ہر ایک کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جن کو انسان اپنی ساری زندگی یاد رکھتا ہے۔ یہ لمحات یا تو کسی کی زندگی کے تبدیلی کے مراحل سے متعلق ہوسکتے ہیں جیسے اسکول اور کالج کی

گریجوایشن، شادی، پہلی ملازمت، اور بچوں کی پیدائش یا یہ وہ لمحات ہوسکتے ہیں جو اپنے پیاروں کی صحبت میں گزارے گئے ہوں، خاص طور پر وہ جو انتقال کرچکے ہوں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اور ہم بوڑھے ہوتے جاتے ہیں، نوسٹالجک ہونے کا رجحان ہوتا ہے اور ہم ان لمحات کو دوبارہ پانے کے لیے تڑپتے ہیں جو ہمارے سنہری ماضی سے تعلق رکھتے ہیں۔ پیار کرنے والے والدین اور پیار کرنے والے بہن بھائیوں کی صحبت میں بچپن میں گزارا جانے والا عرصہ۔ ہم ان خوبصورت لمحات کو زندہ کرنے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہوں گے۔

یہ صرف ہماری اپنی زندگی کے ادوار ہی نہیں ہیں جنہیں ہم یاد کرنا پسند کرتے ہیں اور واپس جانا چاہتے ہیں بلکہ وہ وقت بھی ہے جب ہم پیدا نہیں ہوئے تھے۔ یہ ذاتی سطح پر ہو سکتے ہیں جیسے کہ ہمارے آبا و اجداد کو دیکھنے کی ہماری خواہش، وہ کیسے رہتے تھے، کیا کرتے تھے، اور پھر ماضی قریب اور ماضی بعید میں ہمارے پسندیدہ افراد سے متعلق واقعات ہو سکتے ہیں۔

ارشمیدس کو باتھ ٹب سے چھلانگ لگاتے اور ایتھنز کی گلیوں میں یوریکا کا اعلان کرتے ہوئے دوڑتے ہوئے دیکھنا کتنا دلچسپ ہو گا۔

ایک فلسفی کے لیے افلاطون اور ارسطو کو چبوتروں پر بیٹھے اور اپنے طالب علموں کے ساتھ انتہائی گہری فلسفیانہ گفتگو کرتے دیکھنا کتنا انمول ہو گا۔

ایک مسیحی کے لیے 2000 سال پیچھے جانا اور مسیح کی زندگی، خاص طور پران کی مصلوبیت دیکھنا کتنا روح پرور ہو گا، اگر یہ اس طرح ہوا ہو جس طرح بائبل میں بیان کیا گیا ہے۔

کسی بھی مسلمان کے لیے 1400 سال پیچھے جانا اور اپنے لیے تاریخی واقعات، جیسے بچپن، نبوت، ہجرت، بدر اور احد کی لڑائیاں، اور رسول اللہ کا آخری خطبہ حج دیکھنا روحانی طور پر کتنا طمانیت کا باعث ہو گا۔ خاص طور پر وہ لمحہ جب اس رات کوہ حرا پر نبوت ملی۔

کچھ اسرار حل ہوجائیں گے اور کئی افسانے ٹوٹ جائیں گے۔ امکانات بے شمار ہیں۔

کیا ہم یہ سب کر سکتے ہیں؟ ماضی کو زندہ کرنے کا ایک طریقہ یہ ہو گا کہ ایک ٹائم مشین بنائیں اور وقت اور دلچسپی کی جگہ پر جائیں اور خود دیکھیں۔ تاہم، یہ خیال تضادات میں گھرا ہوا ہے اور بہترین شرط یہ ہے کہ یہ ہمیشہ سائنس فکشن کے دائرے میں ہی قائم رہے گا۔

دوسرا آپشن ایک ایسا آلہ بنانا ہے جو ہمیں ان واقعات کو دیکھنے میں مدد دے سکتا ہے جو ماضی میں کسی مقررہ وقت پر کسی مخصوص مقام پر ہوئے ہوں۔ یہ خیال تقریباً اتنا ہی اجنبی اور عجیب لگتا ہے جتنا کہ ٹائم مشین بنانا۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے؟

ہم سب سے پہلے یاد کرتے ہیں کہ یہ خیال ہمارے ”مستقبل کے خواب“ کی کہانی کے المناک ہیرو کی پیشین گوئیوں کے ساتھ کچھ مماثلت رکھتا ہے جب اس نے 1523 میں اعلان کیا تھا کہ پانچ سو سال بعد 2023 میں انسان ٹیلی ویژن نامی ڈیوائس پر دنیا کے دور دراز کونوں سے براہ راست واقعات دیکھ سکیں گے۔ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا آلہ ممکن ہے۔ روشنی کے مختلف رنگوں پر مشتمل ہونے کا احساس تقریباً 150 سال بعد نیوٹن کے کام سے ہوا اور اس میں مزید 200 سال لگے جب جیمز کلرک میکسویل نے ثابت کیا کہ روشنی 186,000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرنے والی برقی اور مقناطیسی لہروں پر مشتمل ہے۔ پہلے ریڈیو اور پھر ٹیلی ویژن کی ایجاد کی طرف یہ بڑے قدم تھے۔

لیکن پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ان جیسے دوسرے آلات مثلاً انٹرنیٹ کیسے کام کرتے ہیں؟

سب سے پہلے ہم سمجھتے ہیں کہ آواز کی لہر 760 میل فی گھنٹہ کی معمولی رفتار سے سفر کرتی ہے اور چند سو گز گزرنے کے بعد زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف، روشنی بہت تیز رفتاری سے سفر کرتی ہے اور بغیر کسی نقصان کے لمبا، بہت لمبا، فاصلہ طے کر سکتی ہے۔ آخر ہم ایسے ستاروں کو دیکھ سکتے ہیں جو کھربوں میل دور ہیں۔ جب ہم کسی بھی آواز، تقریر یا موسیقی کو کسی جگہ سے فوری طور پر دور دراز مقام پر بھیجنا چاہتے ہیں، تو ریڈیو اسٹیشن پر آواز کی لہریں کسی خاص رنگ کی روشنی کی لہر پر ، مرئی یا غیر مرئی خطے میں انکوڈ ہوتی ہیں۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے آواز کی لہر روشنی کی لہر کے او پر سوار ہو جائے۔ یہ روشنی کی لہریں روشنی کی رفتار سے ایک ایسے آلے کو بھیجی جاتی ہیں جسے ریڈیو کہا جاتا ہے جس میں روشنی کی لہر کے ذریعے لے جانے والے صوتی سگنل کو ڈی کوڈ کیا جاتا ہے، گویا یہ آواز کی لہر روشنی کی لہر سے ہمارے وصول کرنے والے آلے پر اترتی ہے۔ اس طرح ان روشنی کی لہروں کے ذریعے بھیجی گئی کوئی بھی تقریر یا موسیقی ریڈیو پر تقریباً براہ راست سنی جا سکتی ہے۔

ایک اور ریڈیو اسٹیشن روشنی کے مختلف رنگ پر انکوڈ شدہ اپنی موسیقی یا تقریر بھیج سکتا ہے۔ ایک ٹیلی ویژن یا انٹرنیٹ بنیادی طور پر اسی اصول پر چلتے ہیں۔ مناسب ٹیوننگ کے ذریعے ان میں سے کسی ایک سگنل کو بازیافت کرنے کے لیے ہمیں صرف ایک ڈیوائس، ریڈیو یا ٹیلی ویژن یا کمپیوٹر کی ضرورت ہوتی ہے۔

اب ہم مجوزہ مشین کی طرف اتے ہیں جو ہمیں ماضی میں ایک مخصوص وقت میں کسی مخصوص جگہ پر پیش آنے والے واقعات دکھا سکے۔ اس کے لیے اسی طرح کی تخلیقی صلاحیتوں کی ضرورت ہوگی۔ بڑا فرق یہ ہے کہ جگہ اور وقت کے کردار الٹ ہوں گے۔ ٹیلی ویژن میں ایک مقررہ وقت پر آواز اور تصویریں ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجی جاتی ہیں۔ جبکہ ہماری مجوزہ مشین میں، آواز اور تصویریں ماضی کے ایک لمحے سے لے کر حال کے ایک لمحے تک کسی مخصوص مقام پر بھیجنی ہوں گی۔ اس طرح، ہمیں ٹیلی ویژن کی طرح کا آلہ چاہیے، جو دور دراز کے آڈیو ویژول دکھانے کے بجائے ماضی بعید کے آڈیو ویژول دکھائے۔

سوال یہ ہے کہ ان صوتی و بصری سگنلز کا کیریئر کیا ہونا چاہیے جو دو ادوار کے درمیان سو یا ہزار سال کا سفر طے کر سکیں۔ یہ اسی طرح کا چیلنج ہے، بلکہ اس سے بھی بڑا، جیسے 1521 میں ٹیلی ویژن کا تصور کرنا جو آواز اور تصویر کے سگنل سینکڑوں بلکہ ہزاروں میل کے فاصلے تک بھیجے جا سکیں۔

کیا کوئی نفیس طریقہ ہے جس کے ذریعے ہم ماضی میں دیکھ سکیں؟ یہاں میں ایک امکان پیش کرتا ہوں، یہ ہے تو بہت دور کی بات لیکن قابل فہم ضرور ہے!

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ارد گرد کی فضا ایٹموں اور مالیکیولز پر مشتمل ہے۔ عام طور پر ، ٹریلین گنا ٹریلین ایٹم ایک مقررہ مقام پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ یہ ایٹم عام طور پر ایک بہت ہی پیچیدہ ڈھانچہ رکھتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ جو ہم تصور کر سکتے ہیں۔ ہم جو کچھ کہتے یا کرتے ہیں وہ یہ ایٹم دیکھ رہے ہیں اور ’ریکارڈ‘ کر رہے ہیں۔ اس ریکارڈنگ کی مدت میں ایٹموں کی ساخت مناسب تبدیلی سے گزر سکتی ہے۔

یہ تبدیلیاں اتنی چھوٹی ہو سکتی ہیں کہ اس وقت کوئی بھی ڈیوائس انہیں پڑھ کر سمعی و بصری سگنل کو بحال نہیں کر سکتی۔ لیکن ایک امکان ہے کہ ایک دن ایسا ممکن ہو کہ ان ایٹموں میں مخفی سگنل آشکار ہوں اور ہم اپنی پسند کی جگہ پر اپنے پسندیدہ وقت کی ریکارڈنگ دیکھ سکیں۔ میرا یہ خواب بہت دور کی بات لگتا ہے۔ لیکن یہ تصور کاربن ڈیٹنگ کے تصور سے ملتا جلتا ہے جس کے ذریعے نامیاتی اشیاء کی تاریخ متعین کی جاتی ہے۔

لہٰذا، ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایسی مشین کے خواب کو حقیقت بنانے میں کیا چیلنج ہیں جو ماضی میں جھانکنے میں مدد دے سکے؟ مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم جو کچھ کہتے اور کرتے ہیں وہ ہمارے اردگرد کے ٹریلین گنا ٹریلین ایٹموں میں ان کی اندرونی ساخت میں بہت چھوٹی تبدیلیوں کے طور پر محفوظ ہو ر ہے ہیں۔ ان ٹریلین گنا ٹریلین ایٹموں میں سے کچھ لمبے عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں، سو یا ہزار سال۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر چیلنج یہ ہو گا کہ پڑھنے کے لیے ایک ایسا آلہ بنایا جائے جو ماضی کے واقعات کو پوری آواز اور تصویروں کے ساتھ دوبارہ تخلیق کر سکے۔ اگر یہ ممکن ہو جائے تو یہ کتنا اچھا ہو گا؟ ہم کسی بھی وقت اپنے پسند کے مقام پر اپنے پسندیدہ دور کو دیکھ سکیں گے۔

ایک بار پھر، ہمیں یہ دیکھنے کے لیے شاید سینکڑوں سال انتظار کرنا پڑے کہ ماضی کو دیکھنے کا یہ یا کوئی دوسرا خیال حقیقت بن جائے۔ اور جب ایسا ہو گا، تو ہمارا خواب پورا ہو جائے گا، چاہے ہمیں اس دنیا سے گزرے صدیاں بیت چکی ہوں گی۔

ڈاکٹر سہیل زبیری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سہیل زبیری

ڈاکٹر سہیل زبیری ٹیکساس یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس  کے Distinguished Professor ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں Munnerlyn-Heep Chair پر فائز ہیں۔

suhail-zubairy has 29 posts and counting.See all posts by suhail-zubairy

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments