کم از کم تنخواہ؟


شہری بابو جن کی زندگی دفتروں میں نوکری کرتے گزرتی ہے، ان کے گھرانے مکمل طور پر ان کی تنخواہ پر انحصار کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں ریڈیو سیلون سے ہر پہلی تاریخ کو یہ گانا نشر ہوا کرتا تھا ”خوش ہے زمانہ، آج پہلی تاریخ ہے“ ۔ ہم بچے مہینے کے درمیان یا آخر میں جب بھی کوئی فرمائش کرتے تھے تو امی کا یہی جواب ہوتا تھا ”پہلی تاریخ آنے دو پھر لے دوں گی“ ۔ تنخواہ دار شہری طبقہ خواہ دفتروں میں کام کرتا یا کارخانوں میں مزدوری کرتا ہو، اس کی گزر بسر اپنی تنخواہ پر ہی ہوتی ہے۔

اسی لئے عالمی ادارۂ محنت ہو یا ٹریڈ یونینز یا محنت کشوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے اور خود سرکار کے لیبر ڈیپارٹمنٹس سب کوشش کرتے ہیں کہ کم از کم اتنی اجرت مقرر کی جائے کہ محنت کشوں کا گزارہ ہو سکے لیکن ظاہر ہے کہ عملی طور پر ایسا ہو نہیں پاتا۔ افراط زر اور مہنگائی کا مقابلہ تنخواہوں میں معمولی اضافے سے نہیں ہو پاتا۔ حمزہ علوی نے بہت پہلے تنخواہ دار طبقے کے بارے میں تحقیق کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بر صغیر کے مسلمان سرکاری

ملازمین نے ہی ایک خود مختار اسلامی مملکت کی تحریک چلائی تھی۔ ظاہر ہے کہ سیاست اور معیشت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ملازمین سرکاری ہوں یا نجی شعبے کے، سب کے لئے کم از کم تنخواہ یا اجرت کا مقرر کیا جانا ضروری ہے۔ امسال یکم مئی کو محنت کشوں کا عالمی دن منایا گیا اور تب ہی سے سندھ میں ٹریڈ یونینز، تجارتی ایسوسی ایشنز، انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مختلف پروگراموں اور ریلیوں میں یہ مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ کم از کم اجرت پچاس ہزار مقرر کی جائے۔

کچھ تنظیموں نے سالوں پہلے جام ساقی اور ان کے ہم خیال لوگوں کا پیش کردہ یہ مطالبہ اب پھر دہرایا ہے کہ کم از کم اجرت ایک تولہ سونے کی قیمت کے برابر مقرر کی جائے۔ ہم بچپن سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ ادھر حکومت کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کا اعلان ہوتا ہے، ادھر اشیائے ضرورت کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ بچہ ہونے کے باوجود ہم یہ سوچتے تھے کہ آخر لوگوں کو تنخواہ بڑھنے کا کیا فائدہ ہوا ہو گا۔ اور اب ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر واقعی کم از کم اجرت یا تنخواہ پچاس ہزار مقرر کر بھی دی گئی۔

تو کیا مہنگائی اتنی ہی نہیں بڑھ چکی ہو گی۔ ویسے ہمارے آجر اور سرمایہ دار اور صنعت کار کبھی بھی حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم اجرت مزدوروں کو نہیں دیتے۔ سندھ میں 25 ہزار کم سے کم اجرت تھی مگر سیکورٹی گارڈز، ڈرائیور وغیرہ کو دس بارہ ہزار تنخواہ دی جا رہی ہے۔ میں سوچتی ہوں ہم صرف پیسوں کے حساب سے ہی اجرت کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں۔ ہم حقیقی اجرت کی بات کیوں نہیں کرتے۔ ہم یہ کیوں نہیں کہتے کہ محنت کشوں کو اجرت کے علاوہ رہائش اور علاج معالجہ کی مفت سہولت فراہم کی جائے۔

ان کے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے۔ پہلے پنج سالہ ترقیاتی منصوبے بنا کرتے تھے، مزدوروں کے لئے رہائشی کالونیاں بنتی تھیں۔ ہمارے بچپن میں لائلپور پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا تھا۔ اور ملز کا نہیں پتا لیکن کوہ نور ٹیکسٹائل ملز میں سہگلوں نے اپنے دفتری عملے کو فرنشڈ رہائش دی ہوئی تھی۔ ان کے اور ان کے اہل خانہ کو مفت طبی سہولتیں دینے کے لئے ایک ڈسپنسری موجود تھی۔ ان کے بچوں کو مفت تعلیم ( فیس صرف ایک آنہ) دینے کے لئے کوہ نور اسکول موجود تھا۔

صحتمند تفریح کے لئے کھیل کے گراؤنڈز اور کلب بنا ہوا تھا، جس میں لائبریری بھی تھی۔ اب سرمایہ داروں اور صنعت کاروں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی لیکن ریاست سے یہ مطالبہ ضرور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے شہریوں کو ہمہ گیر سماجی تحفظ فراہم کرے۔ بے روزگاروں کو بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔ شہریوں کا مفت علاج کیا جائے اور ان کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دی جائے۔ اب مہنگائی اور افراط زر کا جو حال ہے، اس کا اندازہ 1969 میں محمود کے پاکستان لیفٹ ریویو میں شائع ہونے والے مضمون ”ہماری نئی تعلیمی پالیسی“ میں پیش کردہ اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔

تیسرے پنج سالہ منصوبے میں ہنر مند کاریگروں Skilled labour کی اوسط تنخواہ مشرقی پاکستان میں 75 روپے اور مغربی پاکستان میں 135 روپے تھی۔ محنت کشوں کے مختلف طبقوں کی اجرتوں کے درمیان کافی فرق پایا جاتا تھا۔ غیر تعلیم یافتہ Semi Skilled کی کیٹیگری میں مستری کی تنخواہ 126 روپے 80 پیسے تھی۔ پینٹر یا رنگ کرنے والے کی ماہانہ تنخواہ 129 روپے 80 پیسے تھی۔ تعلیم یافتہ اور Skilled کیٹیگری میں الیکٹریشن کی ماہانہ تنخواہ 150 روپے تھی۔

گریجویٹس کی کیٹیگری میں ایگزیکٹو انجینئر کی ماہانہ تنخواہ 750 روپے تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکنیکل طور پر کوالیفائڈ لوگوں اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی اجرتوں میں تھوڑا سا ہی فرق تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی ڈگری رکھنے والوں کو کم انکم دوگنا زیادہ تنخواہ ملتی تھی۔ افراط زر کی شرح کو دیکھتے ہوئے 2023 میں سول سوسائٹی کے رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ کم از کم اجرت پچاس ہزار روپے ماہانہ مقرر کی جائے، پنشن کی رقم ڈبل کی جائے۔ پانی، بجلی، گیس اور پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو واپس لیا جائے۔ ان کی رائے میں معیشت کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے تنخواہ دار طبقے کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments