کشمیر میں اسلام، خواتین اور تشدد: ڈوگرہ راج اور مسلمان


گزشتہ سے پیوستہ

کشمیر میں اسلام، خواتین اور تشدد: تاریخ کشمیر

برطانوی حکومت کے لئے خدمات کے عوض کشمیر، لداخ، گلگت اور چناب کے علاقہ جات کو پچھتر لاکھ روپے کی حقیر رقم کے عوض گلاب سنگھ کے حوالے کیا گیا۔ گلاب سنگھ کو کشمیر حاصل کرنے پر خرچ رقم انگریزوں کو ادا کرنے کا پابند بنایا گیا۔ معاہدے کے مطابق ایک کروڑ روپے کا تاوان ادا ہونا تھا۔ بعد میں انگریزوں کو دریائے بیاس کے ساتھ کلو اور منڈی کے علاقے اپنے ساتھ رکھنے کے عوض گلاب سنگھ کو 25 لاکھ روپے کی چھوٹ دی گئی۔ (سکو فیلڈ 56-2002 )۔ 1845 میں اچانک جنگ ہوجانے سے قبل انگریزوں اور سکھوں کے درمیان سیاسی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوگیا تھا۔ اِن تناؤ پُر حالات کے دوران گلاب سنگھ نے اہم رول ادا کیا، جو بہت بڑے تضاد کا باعث بن گیا۔ کیا اُس نے انگریزوں کے ساتھ چوری چھپے ساز گانٹھ کیا تھا اور دوسری جانب سکھوں کو اعتماد میں لے رکھا تھا؟ کیا اُس نے دونوں کے درمیان گفت وشنید کا ایسا طریقہ اختیار کیا تھا، جس کا منفی نتیجہ نکلا؟ انگریزوں نے سکھوں سے کشمیر حاصل کرنے کے بعد اِس کو معمولی رقم کے عوض کیونکر گلاب سنگھ کو فروخت کیا؟

ڈوگرہ نمایاں طور ہندو لوگ ہیں، جن کو 1846 میں دستخط شدہ بیع نامہ امرتسر کے تحت کشمیر کا حکمران بنایا گیا۔ اِس بیع نامہ میں وضاحت کی گئی تھی کہ برطانوی حکومت گلگت اور شمالی علاقوں سمیت وادی کشمیر پر اپنے اختیارات ختم کرکے اِس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گلاب سنگھ اور اُن کے نر وارثان کے نام منتقل کرتی ہے (اِیٹچن سن 21-22:1931 ) جموں کشمیر راجواڑ ایک وقت پر کئی ایک علیحدہ اور آزاد علاقوں پر مشتمل تھا۔ یہ جموں، کشمیر، لداخ، میر پور، پونچھ، بلتستان، گلگت، ہونزا، مظفر آباد، نگر اور دیگر غیر اہم آزاد سلطنتیں کہلاتی تھیں۔ بیع نامہ امرتسر کے آرٹیکل 9 میں مزید اقرار کیا گیا تھا، کہ برٹش سرکار مہاراجہ کشمیر کو اپنی سلطنت کا آڑے وقت پر دفاع کرنے کے لئے امداد فراہم کریگی۔ آرٹیکل 10 کے تحت مہاراجہ کو برطانوی سرکار کی وفاداری کرنے کا پابند بنایا گیا تھا۔ اِس کا اظہار کرنے کے لئے مہاراجہ کو بصورت تاوان ہر سال برطانوی حکومت کو ایک گھوڑا، بارہ پشمینہ بکریاں اور اعلیٰ معیاری کاریگری سے بنائے تین جوڑی شال پیش کرنا پڑتے تھے۔ (ایضاً) اِس طریقے سے مہاراجہ کو تخت برطانیہ کا فرمابردار بناکر راجواڑہ پر انگریز کی سرداری کو برقرار رکھا گیا۔

رنبیر سنگھ کو 1847 میں اپنے باپ گلاب سنگھ کا وارث بنایا گیا۔ پر تاپ سنگھ کو اِسی طرح والد رنبیر سنگھ کے دور اختتام پر 1885 میں تخت پر بٹھایا گیا۔ پرتاپ سنگھ کی اپنی کوئی نر اولاد نہیں تھی۔ اُس نے دور کے ایک رشتہ دار کو اپنا وارث بنانے کی کوششیں کیں۔ لیکن برطانوی حکومت نے پرتاپ سنگھ کے بھتیجے ہری سنگھ کی تخت نشینی کو ممکن بنادیا۔ اِس طرح سے آخری ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ 1925 میں تخت پر بیٹھ گیا۔ ہری سنگھ نے بھی اپنے پیش رو حکمرانوں کی طرح اختیارات کو غیر منصفانہ اور من پسند طریقے سے استعمال کیا۔ ہندوستان سے برطانوی اقتدار کے دس سال قبل ہری سنگھ نے پونچھ کو اپنے راجواڑہ کا حصہ بنانے کے لئے برٹش انڈین کورٹ کی رضامندی حاصل کرلی۔ پونچھ تب تک سکھ حکمرانوں کی تصدیق سے گلاب سنگھ کے بھائی دھیان سنگھ کی حکمرانی میں دیا گیا تھا۔ اِس طرح سے اِس اہم اقدام کے بعد اور برصغیر کے بٹوارے سے پہلے کے جموں کشمیر ریاست کی سرحدین طے ہوگئیں۔ تاہم پونچھ کے مسلمان اپنے علاقے کا راجواڑہ کے ساتھ انضمام کی مخالفت کرتے رہے۔ برطانیہ کی طرف سے ڈوگرہ شاہی کو مضبوط کرنے کا یہ قدم شمال مغربی سرحد کو مضبوط بنانے کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی کی تشویش کا نتیجہ تھا۔ برطانیہ نے اِسی مقصد کو لے کر باقی ماندہ علاقوں کا اقتدار اعلیٰ ڈوگرہ مہاراجہ کو منتقل کیا (رائے 27:2004:) ایک سو سال بعد 1947 میں ہندوستان کی آزادی اور بٹوارے کے موقعہ پر بیع نامہ امرتسر میں درج ڈوگرہ خاندان کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب تک جموں کشمیر ایک خودمختار راجواڑہ تھا۔

اگرچہ جموں کشمیر راجواڑہ میں مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی، تاہم اِس فرقہ کے افراد کو فوج میں آفیسر عہدے نہیں دئے جاتے تھے۔ اِسی طرح سیول سروسز میں اُن کی برائے نام نمائندگی تھی۔ کشمیری مسلمانوں کو سیاسی خیالات اظہار کرنے پر پابندی عاید تھی۔ انہیں آزاد پریس کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ 1920 تک آمرانہ اور ظالمانہ حکمرانی کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنے کے لئے کشمیر وادی کے کاشتکار طبقے کی بے حسی کو ذمہ دار قرار دیا جاتا تھا۔ (لیمب 98:1991) اندرونی معاملات میں مہاراجہ کا اقتدار اعلیٰ مسلمہ تھا۔ اگرچہ مہاراجہ کے استبدادی اور استحصالی طریقوں پر قدغن نہیں لگایا جاسکا تھا، تاہم اُس کے دربار میں موجود برطانوی نمائندے کی نظریں اِس طرف مرکوز تھیں۔ مہاراجہ کو ہزہائنیس کا خطاب دینے سے اُس کا قد اور بھی بلند کردیا گیا تھا۔ برٹش انڈین آرمی میں ہری سنگھ کو میجر جنرل کا عہدہ بخشا گیا تھا اور اُس کی شان میں 21 توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ یہ اعزاز ہری سنگھ سمیت فقط 5شہزادوں کو حاصل تھا۔ مہاراجہ کی فضول خرچی کے چرچے عام ہوگئے تھے۔ وہ بے بہا اخراجاتی کھیلوں، اعلیٰ پارٹیوں اور عیاشی کے دیگر اڈوں پر زرکثیر خرچ کرتا تھا، اِس وجہ سے اُس کے زوال سے متعلق باتیں عام محاوروں میں کی جاتی تھیں۔ اُس نے کشمیری مسلمانوں کا معذرت کئے بغیر استحصال کیا اور مسلسل طور انہیں اذیتیں دیں۔ (کوربل 14:2002)

ڈوگرہ مہاراجوں کے آمرانہ دور میں مسلمانوں کے تئیں بے رحم علاقائی اور مذہبی تعصب روا رکھا گیا۔ کشمیری مسلمانوں کو سیاسی، اقتصادی اور سماجی طور دبایا گیا۔ نونیتا چڑا بہارا نے کشمیر کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے ڈوگرہ دور کے مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں لکھا ہے۔۔۔’’مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر تھی۔ انہیں سرکاری نوکریوں کی فہرست سے باہر رکھا گیا تھا۔ مسلمان کاشتکاروں اور کارخانہ مزدوروں پر بھاری ٹیکس عاید کیا جاتا تھا۔ تجارت، کاروبار اور بنک لین دین پر پنجابیوں اور ڈوگروں کو اجارہ داری حاصل تھی۔ تعلیم سے دور رکھے جانے کے نتیجے میں ڈوگرہ (ہندو) دور میں مسلمان زبردست مایوسی کا شکار ہوچکے تھے (بہارا 14:2006) مشہور کشمیری پنڈت سیاسی و سماجی ورکر پریم ناتھ بزاز نے 1941 میں کشمیری مسلمانوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہا، کہ وہ حقارت آمیز زندگی بسر کرتے تھے۔ عام مسلمانوں کو سرکاری رشوت ستانی کا شکار بنایا جاتا تھا۔ (بزاز 252-53:2002) بعد ازاں ریاست میں قومی سطح پر بیداری کا احساس جاگنے سے حکمرانوں کی نیند حرام ہونے لگی۔

جاری ہے

_______________________________

یہ مضمون نائلہ علی خان کی کتاب Islam, Women, and Violence in Kashmir: Between India, and Pakistan سے لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر نائلہ علی خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نائلہ علی خان

ڈاکٹر نائلہ خان کشمیر کے پہلے مسلمان وزیر اعظم شیخ محمد عبداللہ کی نواسی ہیں۔ ڈاکٹر نائلہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں‌ انگلش لٹریچر کی پروفیسر ہیں۔

dr-nyla-khan has 37 posts and counting.See all posts by dr-nyla-khan